سال 2009ء پاکستان کے کروڑوں
عوام کے لئے کئی نشانیاں چھوڑ گیا۔ اس سال کے دوران سینکڑوں افراد ملک کے
مختلف حصوں میں خودکش حملوں اور بم دھماکوں سے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ چینی٬
آٹا اور دیگر اشیاء شدید مہنگی اور ان کی قلت کے علاوہ لوڈ شیڈنگ بعد میں
سوئی گیس کی شیڈنگ حکمرانوں کی پیدا کردہ نشانیوں میں سرفہرست رہیں گی۔
چینی اور آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کر کے نمائندے راتوں رات ارب پتی سے کھرب
پتی بن گئے جبکہ ان نمائندوں کو اقتدار میں لانے والے معصوم اور سادہ لوح
کروڑوں افراد چینی کے دانے دانے کے لئے ترس گئے اور یہ سلسلہ مہینوں جاری
رہا۔ کراچی میں مفت آٹا تقسیم کرنے کے دوران غریب اور ضرورت مند 20 خواتین
بھگدڑ میں لقمہ اجل بن گئیں۔ سال 2009ء میں عوامی حکمرانوں نے عوام کو جتنی
اذیت دی اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملے گی۔ سکیورٹی اور دہشت
گردی کی روک تھام کے نام پر ملک کے بڑے بڑے شہروں اور ان شہروں میں موجود
حکومتوں میں شامل عوامی نمائندوں اور سول اعلیٰ سرکاری اور پولیس افسروں کے
دفاتر اور رہائش گاہوں کے قریب اور اردگرد شاہراہوں کو قلعہ میں تبدیل کر
دیا گیا۔
لاہور میں قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے نام سے منسوب شاہراہ فاطمہ
جناح کے درمیان سڑک پر پولیس افسروں نے خود کو بچانے کے لئے دیوار تعمیر
کرنے کا سلسلہ شروع کیا تمام متعلقہ ادارے پولیس افسروں کے اس غیر قانونی
اور غیر آئینی حرکات کو روکنے میں بری طرح ناکام نظر آئے۔ جبکہ دوسری طرف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اس سال پنجاب پولیس کی تنخواہوں و دیگر
مراعت میں حیران کن حد تک اضافہ کیا اور اس سال پنجاب پولیس کی کارکردگی
کچھ ایسی ہے کہ پولیس کو اربوں روپے کے فنڈز دینے کے باوجود جرائم میں تیزی
سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پولیس اس وقت صرف دہشت گردوں کے پیچھے لگی ہے۔
2009ءمیں ڈکیتی کی وارداتوں میں 12فیصد٬ قتل کی وارداتوں میں 2فیصد٬ چوری
میں 2فیصد٬ کرائمز اسٹیٹ پراپرٹی میں 5فیصد جبکہ دیگر جرائم کی مد میں
11فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پولیس ڈکیتی کے 44فیصد٬ قتل کے 31٬ چوری کے 51 اور
اغوا برائے تاوان کے 30فیصد کیس عدالتوں میں نہیں بھجوا سکی۔ نومبر 2009ء
تک کے اعدادوشمار پر مبنی وزیراعلیٰ کو بھجوائی گئی پولیس کارکردگی پر
سالانہ رپورٹ کے مطابق رواں برس جرائم میں 10فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ برس
مجموعی طور پر 3لاکھ 44ہزار اور رواں برس اب تک 3لاکھ 55ہزار 946جرائم
رپورٹ ہوئے ہیں۔ رواں برس جائیداد کے متعلق 81ہزار 268‘ قتل کے 5385‘ اغواﺀ
برائے تاوان کے 210‘ ڈکیتی کے 2184‘ چوری کے 13ہزار 22 مقدمات درج ہو چکے
ہیں جبکہ گزشتہ برس جائیداد کے جرائم 77ہزار 688‘ قتل کے 5265‘ اغواﺀ برائے
تاوان کے 234‘ ڈکیتی کے 1944‘ چوری کے 12ہزار 789واقعات رپورٹ ہوئے۔
اشتہاریوں کی تعداد اس برس 31ہزار 272سے بڑھ کر 54ہزار 262ہو گئی ہے۔ رواں
برس پولیس مقابلے 238ہوئے جن کی گزشتہ برس تعداد 212تھی۔ اس برس بلیک بک
میں درج 35دہشت گرد گرفتار ہوئے اور ان پر مقرر 5کروڑ 60لاکھ روپے کا انعام
پولیس کو دیا گیا۔ اس سال پنجاب میں شہر کی بڑی بڑی شاہراہوں پر غیر قانونی
طور پر پولیس ناکے لگانے کی جو مہم سیکورٹی کے نام سے شروع کی گئی وہ تاحال
جاری ہے۔ سال 2009ء کو یہ بھی شرف حاصل رہا کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے ایک
آمر کی طرف سے جاری کئے گئے مفاہمتی آرڈیننس کو کالعدم قرار دیا گیا جس کے
نتیجہ میں بڑے بڑے سیاسی جادوگروں کی رات کی نیندیں حرام ہو گئیں۔ اور اس
کے ساتھ ساتھ ملک کی دولت کو لوٹنے والوں کو بیرون ممالک سے گرفتار کر کے
ان کے احتساب کا عمل شروع کیا گیا۔
دوسری طرف دہشت گردی کی جنگ میں ہمارا اتحادی ملک امریکہ بھی سال2009 اس
لحاظ سے یادگار رہے گا کہ اسی سال امریکی فوج کی ترجیحات عراق سے افغانستان
منتقل ہوئیں، اور 2010ء کو افغانستان میں امریکی فوجوں میں اضافے کا سال
کہا جائے گا۔ سابق صدر بش نے فوجوں میں تیز رفتار اضافے سے 2007ء اور 2008ء
میں عراق کے حالات میں جو ڈرامائی بہتری حاصل کی تھی، صدر اوباما افغانستان
میں اسی قسم کے نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ صدر کے لیے یہ فیصلہ کرنا بہت
مشکل تھا۔ تین مہینے کے سوچ بچار کے بعد دسمبر کی پہلی تاریخ کو صدر نے
اپنے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا:’ جائزہ اب مکمل ہو چکا ہے۔ کمانڈر ان
چیف کی حیثیت سے میں نے یہ تعین کیا ہے کہ 30 ہزار مزید امریکی فوجی
افغانستان بھیجنا، ہمارے انتہائی قومی مفاد میں ہے۔ ‘صدر نے کہا کہ ان کا
مقصد طالبان کی برتری کو ختم کرنا، اور 18 مہینے بعد، امریکی فوجیوں کو
واپس گھر لانے کا کام شروع کرنا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردانہ
واقعات کے نتیجے میں گذشتہ برس کے مقابلے میں اس برس جاں بحق ہونے والوں کی
تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات اگرچہ زیادہ تر
پاکستان کے صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں ہی ہوتے رہے مگر کچھ مہینوں سے
تو اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، ملتان اور جنوبی پنجاب کے علاقے بھی اس
لعنت کی لپیٹ میں آگئے۔ خبروں میں کہا جارہا ہے کہ اس وقت پاکستان کا
قبائلی علاقہ طالبان اور القاعدہ کے عناصر کے گڑھ میں تبدیل ہو چکا ہے اور
طالبان سے وابستہ عناصر نے خودکش دہشت گردانہ کاروائیاں کر کے پورے ملک کو
عدم استحکام سے دو چار کر دینے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ
پاکستان کے اس وقت کے حالات کو افغانستان کے واقعات اور امریکہ کی جنگ
پسندانہ پالیسیوں سے کسی بھی طور پر غیر مربوط نہیں کہا جاسکتا۔ دوسرے
لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ گزشتہ ایک برس میں پاکستان میں دہشت گردانہ
واقعات میں شدت کے پیچھے متعدد عوامل کار فرماں ہیں۔
جنوری 2009 میں امریکہ میں باراک اوبامہ کے برسراقتدار آنے کے بعد جیسا کہ
انھوں نے پہلے سے ہی کہہ دیا تھا کہ افغانستان میں بدامنی کی جڑ پاکستان
میں پیوست ہے اور دونوں کو ایک ہی تناظر میں دیکھنا چاہئے اس کے پیش نظر
انھوں نے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں میں شدت پیدا کر دی۔ اس کے علاوہ
انہوں نے پاکستان کے پشاور اور اسلام آباد شہروں میں بدنام زمانہ بلیک واٹر
سیکورٹی کمپنی کے اہلکاروں کو<زی> کمپنی کے نام سے بڑی تعداد میں سرگرم کر
دیا۔ اس کمپنی کا کام ہی عام شہریوں کا قتل عام اور ملک میں دہشت گردی کو
بڑھاوا دینا ہے چنانچہ گزشتہ چند مہینوں کے دوران پاکستان کے پشاور، اسلام
آباد اور راولپنڈی شہروں میں جس طرح سے دہشت گردانہ کاروائیوں میں اضافہ
ہوا ہے پاکستان میں بیشتر حلقوں کا یہی کہنا ہے کہ طالبان دہشت گردوں کی
کاروائیوں کو امریکہ کی بلیک واٹر کمپنی نے آ کر اور زیادہ شدت بخشی ہے۔ |