کوئی خفیہ ہاتھ حکومت ختم نہیں
کرنا چاہتا....وزیر اعظم
نادیدہ قوتوں کی سازشیں ناکام ہونگی....صدر
میں آج اپنے کالم کی ابتدا ایک قدیم کہاوت سے کررہا ہوں جس میں دنیا کے
سمجھداروں(امریکا، بھارت اور اِن جیسے بہت سوں کے سمیت ہمارے حکمرانوں،
سیاستدانوں اور عوام) کے لئے بھی اِس میں کیا کچھ ہے وہ اِسے پڑھ کر خود ہی
سمجھ لیں اور محسوس کرلیں گے تو اچھی بات ہے اور اگر پھر بھی وہ نہ سمجھ
سکیں تو پھر اپنی عقل پر خود ہی آنسوں بہاتے اور چابک مارتے رہیں اِس میں
ہمارا کوئی قصور نہیں ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ ایک شخص کی کلہاڑی کھو گئی تو اِس کے دل میں شک بیٹھ گیا کہ
جس پڑوسی کے ساتھ اِس کے تعلقات کشیدہ ہیں کلہاڑی اِسی پڑوسی کے بیٹے نے
چرائی ہے اِس کے دل میں یہ شک آنا ہی تھا کہ اِس نے اگلے ہی روز سے لڑکے کی
چال چلن کا بغور جائزہ لینا شروع کردیا تو اِسے پڑوسی کے لڑکے کی چال چلن
بلکل چوروں کی سی لگی، اِس نے لڑکے کے چہرے کے تاثرات دیکھے تو وہ بھی اِسے
چوروں جیسے محسوس ہوئے اِس سے بھی جب کام نہ چلا اور تشفی نہ ہوئی تو اِس
نے لڑکے کا اندازِ گفتگو دیکھا وہ بھی اِسے بلکل چوروں جیسا لگا الغرض یہ
کہ وہ خود کو یہ بھی سمجھاتا رہا کہ پڑوسی کا لڑکا تیز وطرار ہے اور اِس سے
کشیدگی بھی ہے یہ چور بھی ہوسکتا اور کیوں کہ جب اِس سے میرے معاملات بہتر
تھے تو اکثر یہ میری کلہاڑی کی تعریف بھی کیا کرتا تھا اِن خیالات کا اِس
کے دل و دماغ میں آنا تھا کہ اِس کا لڑکے پر شک اور پختہ ہوگیا اور بالآخر
اِن تمام مشاہدات کے بعد وہ اِس نتیجے پر پہنچا پایا کہ پڑوسی کے لڑکے کی
ساری حرکات و سکنات چور ہونے کی چغلی کھاتی دیکھائی دے رہی ہیں تو پھر کیوں
نہ اِسے ہی چور سمجھ لیا جائے اور کسی روز بھری پنچائت میں اِسے چور ثابت
کرا دیا جائے تاکہ سب اِس سے اپنے سامان کو محفوظ رکھیں سکیں ایک میری
کلہاڑی گئی سو گئی مگر میں اَب یہ نہیں چاہوں گا کوئی اور اِس چور کے
ہاتھوں اپنی قیمتی اشیا سے محروم ہوجائے۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک
دن وہ کسی کام سے باہر نکلا تو راستے میں اِسے اپنی کھوئی ہوئی کلہاڑی پڑی
مل گئی اور تب سے اِسے اپنے شک پر بہت افسوس ہوا وہ اپنی ہی نظروں میں خود
کو حقیر سمجھنے لگا اور اِس کے ساتھ ہی اِسے پڑوسی کے لڑکے کی تمام حرکات و
سکنات میں بھی معصومیت نظر آنے لگی کہ میں اپنے جذبات کے ہاتھوں بہہ کر اِس
بیچارے پر چوری کا الزام لگا کر اِس کی اچھی بھلی عزت کا جنازہ بھری
پنچائیت میں نکال دیتا تو اِس کا کیا بنتا۔ یوں اُسے اندر ہی اندر یہ غم
کھاتا رہا اور اِسی کہاوت میں ہے کہ کلہاڑی کے مالک جو کہ ایک غیرت مند اور
باضمیر تھا اور وہ اپنی ایسی ہونے والی غلطی سے متعلق پہلے ہی سوچ سوچ کر
پاگل ہوگیا اور آخر کاراِسی غم میں وہ مر گیا۔
اِس کہاوت کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو نائن الیون کے بعد امریکا اور
اِس کے حواریوں نے( ہمارے ناعاقبت اندیش سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کو
اقتدار اور اِسی طرح کی اور دوسری کئی لالچ دے کر اور بعض دفعہ انہیں سیاسی
دباؤ میں لے کر اور اپنے ساتھ ملا کر) محض شک اور بغض کی بنا پر پاکستان کا
آج جو حشر کیا ہے وہ بھی اَب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے حالانکہ اِنہیں
یہ بھی اچھی طرح سے معلوم ہے کہ نائن الیون کے واقعہ میں پاکستان کا دور کا
بھی واسطہ نہیں ہے اور اِس میں کوئی پاکستانی تو کیا کوئی مسلمان بھی ملوث
نہیں ہے مگر پھر بھی اِن کا شک اُس کلہاڑی کے مالک کی طرح اپنے پڑوسی کے
بیٹے پر ہے کیوں کہ کلہاڑی کے مالک کے اپنے پڑوسی سے تعلقات کشیدہ تھے اِس
لئے اِس کی نظر میں پڑوسی کا بیٹا ہی اِس کی کلہاڑی کا چور تھا اور آج
امریکا اور اِس کے بھارت جیسے حواریوں کی بھی یہ سوچ بن چکی ہے کہ نائن
الیون کے واقعہ کا ذمہ دار پاکستان ہے اور اِس کے قبائلی علاقوں سے تعلق
رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو بہادر اور جنگجو بھی مشہور ہیں۔ جنہوں نے روس
افغان جنگ میں امریکیوں کی دوستی نبھاتے ہوئے افغانیوں کے ساتھ ملکر اور
اِن سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر روس جیسی سپر طاقت کا ستیاناس کیا کہ اِس کا
شیرازہ بکھر گیا اور اِن ہی پاکستانی قبائلی بہادر جنگجوؤں نے روس کا خود
کو سپر طاقت ہونے کا سارا گھمنڈ بھی خاک میں ملا دیا۔
اور آج عیار امریکا اور اِس کے چالاک حواری بھارت اور دیگر اپنے اپنے عزائم
کی تکمیل کے خاطر پاکستان پر مصائب کے پہاڑ ڈرون حملوں اور بم دھماکوں اور
خودکش حملوں کی شکل میں گزشتہ کئی سالوں سے ڈھا رہے ہیں جو اَب تک ہزاروں
بے گناہ معصوم پاکستانیوں کو شہید کر کے ابدی نیند سلا چکے ہیں اور امریکی
جلاد مزید معصوم پاکستانیوں کو شہید کرنے اور انہیں موت کی وادی میں
دھکیلنے کے لئے ڈو مور ڈو مور کا ترانہ موت پڑھ کر اپنی تسکین کا سامان
تلاش کرنے کی جستجو میں لگے پڑے ہیں۔ اور جو اِس بات کا بھی غمازی ہے کہ
امریکی جلاد ڈو مور کا اپنا یہ ترانہ ہم پاکستانیوں کے لئے اپنی بدگمانی کو
حقیقی رنگ دینے کے لئے گا رہے ہیں کہ نائن الیون کے ذمہ دار پاکستان اور
اِس کے قبائلی علاقوں میں روپوش ہیں جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اور ہمارے
معصوم اور بھولے بھالے حکمران اپنی ناسمجھی کے باعث اپنی کرسیوں کو بچانے
کے لئے اپنے ہی پاکستانی بھائیوں پر ڈرون حملوں کی یلغار کئے ہوئے ہیں۔ اِن
ڈرون حملوں کے باعث پاکستانیوں میں جہاں امریکیوں کے خلاف نفرت اور آگ کا
لاوا پک رہا ہے تو وہیں ہمارے حکمرانوں کی جانب سے امریکی جنگ بنانے اور
اِس امریکی جنگ میں معاونت کا کردار ادا کرنے کے خلاف بھی نفرت زور پکڑتی
جارہی ہے۔ اِس سے قبل کہ عوام حکمرانوں کے رویوں کے خلاف سڑکوں پر آجائے
اِسے میں حکمرانوں اور حکومت کو اپنی پوزیشن عوام کے سامنے واضح کرنی ہوگی
اور اِس سارے معاملے سے خود کو حقیقی معنوں میں علیحدہ کرنا پڑے گا تاکہ
عوام کا حکومت اور حکمرانوں پر اعتماد بحال رہے اور حکومت اور عوام کے
درمیان امریکی آلہ کار بننے کے باعث پیدا ہونے والی غلط فہمی کو دور کرنے
میںبھی خاصی مدد مل سکے۔
جبکہ ایک خبر یہ بھی ہے کہ سولہ دسمبر کو این آر اُو کے کالے قانون خلاف
اور قرضوں کی وصولی کے لئے سپریم کورٹ کے تاریخ ساز فیصلے آنے کے بعد صدر
پاکستان آصف علی زرداری کی کمزور ہوتی ہوئی حکومتی گرفت پر امریکا کے پیٹ
میں مروڑ اُٹھنے شروع ہوگئے ہیں جس کا اظہار اِس نے کچھ اِس طرح سے کیا ہے
کہ اگر قانونی فیصلے سے پاکستانی حکومت بدلے گی تو یہ اسلام آباد کا داخلی
معاملہ ہوگا اور واشنگٹن اپنے آپ کو اِس سارے معاملے سے ایسے ہی دور رکھے
گا جیسے دودھ میں سے مکھی نکال کر پھینک دی جاتی ہے بلکل اِسی طرح امریکا
دور کھڑے ہو کر سارا تماشہ دیکھے گا۔ اور پاکستان میں ہونے والی حکومتی
تبدلی کے کھیل میں سوائے تماشائی ہونے کے اور کوئی کردار ادا نہیں کرے گا۔
جبکہ یہاں میرے نزدیک امریکا کو یہ کہتے ہوئے کیا ذرابرابربھی خیال نہیں
آیا؟ کہ بیچارے صدر زرداری کی حکومت بھی تو ہر امریکی حکم کی فرمانبرداری
میں پیش پیش ہے مگر اِس کے باوجود بھی امریکا کا یہ کہنا بھی کتنا عجیب
معلوم ہوتا ہے کہ امریکا نے اِس مشکل گھڑی میں این آر اُو اور قرضوں کی
وصولی کے معاملے میں مشکل میں گھرے صدر زرداری کی مدد کرنے کے بجائے ڈھٹائی
کے ساتھ اور بڑی آسانی سے یہ کہہ دیا ہے کہ این آر اُو اور قرضوں کی وصولی
کے معاملے میں مداخلت کی کوئی کوشش کرنا ہمارا کام نہیں۔ اظہار طنز ارے ہاں
بھئی! امریکا اَب تمہارا کام کیوں ہوگا؟ کیا پاکستان میں حکومتیں تمہاری
مرضی سے ہی آتی جاتی ہیں؟ جو اَب جائے گی تو تم اُسے روک لو گے؟ یا رکوالو
گے؟ تمہارا اِس سے بھلا کیا کام؟ کہ پاکستان میں حکومت آئے یا جائے؟ تم کون
ہوتے ہو؟ ویسے بھی پاکستان میں ہمیشہ سیاستدانوں کا یہ گلہ اور شکوہ رہا ہے
کہ امریکا نے پاکستان کے ہر اچھے اور بُرے معاملے میں اپنی ٹانگ آڑا کر
پاکستان کو پنپنے ہی نہیں دیا جہاں پاکستان ذراسنبھلنے کی پوزیشن میں آیا
امریکا نے اپنی بیجا مداخلت کر کے اِس کے سارے منصوبوں پر پانی پھیرے دیا
اور اَب بھی امریکا بظاہر تو یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ پاکستان کے موجودہ
حالات میں کسی بھی حوالے سے مداخلت کرنے کے حق میں نہیں مگر اِس کی اِس بات
کے باوجود بھی پاکستان کے معتبر سیاسی حلقے یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں
کہ پاکستان میں آج جو کچھ بھی ہو رہا ہے اِس کے درپردہ امریکی سازش ہی کار
فرما ہے۔ مگر پھر بھی میں یہ ہی کہوں گا کہ اول میں تو ایسی بھی کوئی بات
نہیں ہے کہ پاکستان میں حکومت بدلنے والی ہے؟ یا کچھ اور وغیر وغیرہ ہونے
والا ہے؟ ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ ایک جمہوری حکومت ہے جو مضبوط اور پائیدار
عوامی اعتماد اور تعاون پر قائم ہے۔ اور یہ بہت اچھا کیا کہ وزیر اعظم یوسف
رضا گیلانی نے تو ہر بات کھل کر کہہ دی ہے کہ حکومت کے مخالفین کان کھول کر
سُن لیں کہ ہم کوئی چور دروازے سے اقتدار میں نہیں آئے ہیں اور عدلیہ
حکومتی معاملات میں مداخلت نہیں کررہی ہے اداروں کا تصادم نہیں ہونا چاہئے
ورنہ کچھ نہیں بچے گا اور حکومت کے خلاف کوئی سازش نہیں ہورہی ہے اور نہ ہی
مارچ میں حکومت جارہی ہے۔ تو یہاں اِن کی اِن تمام باتوں سے ایک طرف تو یہ
واضح ہوا کہ حکومت کو کسی بھی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہے اور حکومت پانچ سال
اپنی مدت پوری کریگی اچھی بات ہے کہ کوئی حکومت اِن کٹھن حالات کے باوجود
بھی اپنی مدت پوری کرجائے جو پاکستان کی تاریخ میں بہت کم ہوا ہے۔ اگر اِس
بار ایسا ہوجائے تو بہت اچھا ہوگا۔ جبکہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی
مندرجہ بالا یہ وہ باتیں جو انہوں نے گزشتہ دنوں(24دسمبرکو) ایوانِ صدر میں
میڈیا پرسنز سے گفتگو کرتے ہوئے کہیں تھیں اِن کے برعکس اِسی روز صدرِ
مملکت آصف علی زرداری نے بھی صدارتی کیمپ آفس (بلاول ہاوس) میں ایک اعلیٰ
سطح کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی بڑی
سیاسی اور عوامی جماعت ہے اور ہم عوام کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں اور اِس
موقع پر انہوں نے والہانہ انداز سے یہ بھی کہا کہ جمہوریت کے خلاف پہلے بھی
سازشوں کا سامنا کیا ہے اور آئندہ بھی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے بعض
قوتیں پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک صوبے تک محدود کرنا چاہتی ہیں لیکن اِن
قوتوں کی سازشیں کامیاب نہیں ہوں گی اور اِن سازشوں سے عوام کے تعاون سے
ناکام بنادیا جائے گا۔ البتہ اِس موقع پر میرا خیال یہ ہے کہ وزیر اعظم اور
صدر کے بیانات کی روشنی میں اگر موازنہ کیا جائے تو یہ اندازہ لگانا کوئی
مشکل نہیں ہے کہ وزیر اعظم اور صدر کے ایک ہی روز کے علیحدہ علیحدہ خطابات
سے اتنا تو ضرور واضح ہوگیا ہے کہ اِن دونوں کے درمیان سیاسی سوچوں اور
بیانات میں ہم آہنگی نہیں ہے جس سے عوام پریشان ہے کہ یہ حکومت 5سال کیسے
پورے کرے گی۔؟ اور اِن دونوں صدر اور وزیر اعظم کے درمیان پیدا ہوتے دوری
کے تصور سے امریکا کی یہ بات سچ ہوتی دکھائی دے رہی ہے کہ پاکستان میں
حکومت بدلی تو ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ |