اک امید باقی ہے یہ آواز ہے ان
غریب عوام کی جو ہر سال نئے حکمران کو اس امید پر ووٹ دیتے ہیں کہ اس دفعہ
ان کے دکھوں کا ازالاء کرنے والا حکمران آئے گا جوان کے بچوں کو تعلیم کے
مواقع فراہم کرکے گا ان کے بچوں کو روزگار مہیا کرے گا ان کے جان و مال کی
حفاظت کرے گا انہیں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا
اور ملک کی امن و سلامتی کے لیے جان کی بازی بھی لگا دے گا ملک کا نام روشن
کرے گا کرپشن سے پاک ہوگا اور ہر مظلوم کی آوازچیخ و پکار سن کر ان کی مدد
کو دوڑا چلا آئے گا ملک میں مہنگائی اور چور بازاری کا خاتمہ کرے گا سب
کیساتھ امتیازی سلوک کرے گا ہر فیصلہ میرٹ پر کرے گا ہر شخص کو اپنی زندگی
گزارنے کی آزادی ہوگی ان کو خوارک، تعلیم ،صحت ،تفریح کی سہولیات فراہم کی
جائیں گی اور ووٹ لیتے وقت حکمران ان سب کا وعدہ بھی کرتے ہیں-
لیکن جب ان غریبوں کے ووٹ سے حکمران کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے وعدوں کو
بھول جاتے ہیں اس کہاوت کی طرح کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے حکمران
غریبوں کے پیسیوں سے دنیا گومتے ہیں اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلواتے ہیں
اور ان کی ہر خواہش پر پیسہ بہاتے ہیں یہ پروا کیے بغیرکہ یہ پیشہ غریبوں
کے خون پسینے کی کمائی سے جمع ہوا ہے بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ ان کے بچوں کی
کوئی حسرت باقی نہ رہ جائے بڑی بڑی گاڑیوں میں گومتے ہیں اور اگر کوئی غریب
ان سے پیسے مانگ لے تو کہتے ہیں ملک تو پہلے ہی قرضے میں ڈوبا ہوا ہے
غریبوں کے بچوں کو تعلیم کے حصول کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں
اور پیسے کی کمی کی وجہ سے اچھے تعلیم اداروں میں داخلہ نہیں ملتا اور
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اچھی نوکری بھی حاصل نہیں کر پاتے جس کے لیے مہنگے
کالج و یونیورسٹی کی ڈگری ہونی چاہیے اور کچھ تو پیسے نہ ہونے کی وجہ سے
کالج و یونیورسٹی کا منہ بھی نہیں دیکھ پاتے اور چھوٹی سی عمر میں محنت
مزدوری کرنے لگ جاتے ہیں اور ان کی ساری عمر اسی میں گزر جاتی ہے اور کچھ
نوجوان روزگار اور اچھی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے جرائم کا راستہ تلاش کر
لیتے ہیں یا پھر جرائم پیشہ اناصر کے ہاتھ لگ جاتے ہیں غریبوں کے لیے
بیماری بھی کسی آفت سے کم نہیں ہوتی کیوں کہ ان کے پاس بڑے اور مہنگے
ہسپتالوں میں جانے کے لیے اتنے پیسے نہیں ہوتے اور بیماری تو ان کی کمر توڑ
دیتی ہے اور اپنی زندگی کا بڑا حصہ بستر پر گزار دیتے ہیں اور پھر وہ اس
دنیاکو خیر آباد کہہ کر ہمیشہ کے لیے سکون کی نیند سو جاتے ہیں غریب کے لیے
تو انصاف کا حصول بھی آسان نہیں ہوتا انصاف کی تلاش میں حکمرانوں کے گھروں
کے چکر لگا لگا کر ان کے جوتے ٹوٹ جاتے ہیں پھر بھی انصاف نہیں مل پاتا
غریب اپنے آپ سے سوال تو یوچھتا ہے کہ لاکھوں کروڑ وں روپیہ ٹیکس کی شکل
میں ان کی خون پسینے کی کمائی سے وصول کیا جاتا اوراس کے بدلے میں انہیں
وعدوں کے سوا کچھ نہیں دیا جاتا اسی امید کی تلاش میں ہر بار وہ نئے حکمران
کو منتخب کرتا کہ اس کی امید کا دامن نہ ٹوٹے لیکن ہر بار اسے نا ا‘میدی کے
سوا کچھ نہیں ملتا پھر بھی بچارا غریب بہت بہادر ہے اسے ابھی بھی امید ہے
کہ کوئی حکمران ایسا آئے گاجو اپنی ذات کو چھوڑ کر ان غریوں کی امیدوں پر
پورا اترے گا- |