حضرت شیخ شرف الدین سعدی ؒ ایک
حکایت میں تحریر کرتے ہیں ایک بہادر نوجوان تاتاریوں کی لڑائی میں بُری طرح
زخمی ہو گیا کافی دن علاج معالجہ چلتا رہا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا تو ایک
شخص نے بتایا کہ اس شہر میں ایک تاجر اس کے پاس ایک بڑی عمدہ دوا ہے اگر اس
سے وہ دوا حاصل کر کے استعمال کی جائے تو امید ہے بہت جلد صحت یابی ملے گی
اس شخص نے جس تاجر کا ذکر کیا تھا اس کے بارے میں مشہور تھا کہ کنجوسوں کا
باپ ہے اور کنجوسی میں اس کا کوئی ثانی نہیں جب اس بہادر نوجوان نے اس کے
بارے میں سنا تو کہنے لگا ارے دوست اگر کنجوس کے پاس جا کر سوال بھی کیا
جائے تو اپنی بات ہی گنوانی پڑے گی کیونکہ وہ دوا دینے پر رضا مند نہ ہو گا
اور اگر کسی طرح وہ راضی ہو بھی گیا تو اس سے مجھے افاقہ ہو یا نہ ہو کچھ
نہیں کہہ سکتے لہذا بہتر یہی ہے کہ اس بد فطرت انسان کے منہ نہیں لگنا
چاہیے اور خود کو گرانا نہیں چاہیے ۔
قارئین وطن کی سیاست کے متعلق سردار عبدالرب نشتر نے ایک شعر میں پوری کی
پوری حقیقت بیان کر دی تھی جس کا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے کہ میرے وطن کی
سیاست کا حال مت پوچھو جو کچھ ایسے حال میں ہے کہ جیسے ایک رقص کرنے والی
رقاصہ بہت سے تماش بینوں کے درمیان گھری ہوتی ہے پاکستان اور آزادکشمیر میں
1947سے لے کر آج تک سیاست کا مجموعی حال اس سے مختلف نہیں ہے بہت سے تماش
بین سیاست کے اس مقدس شعبے کو ایک رقاصہ کے جسم کی طرح نوچ نوچ کر استعمال
کرتے رہے اور آج سیاست کے متعفن اور بے گور و کفن لاشے سے وہ بو برآمد ہو
رہی ہے کہ کوئی بھی شریف آدمی سیاست کے متعلق کسی بھی قسم کے اچھے خیالات
نہیں رکھتا اگر کوئی نفیس آدمی سیاست میں قدم رکھنے کا سوچتا بھی ہے تو اس
کے دوست اور عزیز اسے ملامت کر کے اس اندھیر نگری میں قدم رکھنے سے منع کر
دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جس طرح پاکستان کی فلم انڈسٹری ادیبوں اور دانشوروں
کی بجائے بد معاشوں ،رسہ گیروں ،بلیک منی رکھنے والوں کا ٹھکانہ بن چکی ہے
اسی طرح پاکستانی سیاست بھی ایسے ہی لوگوں کا مسکن بنی ہوئی ہے جن کا کوئی
بھی اخلاقی معیار نہیں ہے خیر یہ تو وہ چند باتیں ہیں کہ جن کا تعلق ہمارے
مجموعی قومی کردار اور سانحات کے ساتھ ہے آج کے موضوع کے حوالے سے ہم چند
باتیں انتہائی مختصر انداز میں آپ کے سامنے رکھیں گے ۔
قارئین آپ کو یاد ہو گا کہ جب 26جون 2011کے انتخابات کے سلسلے میں الیکشن
کمپین زوروں پر تھی تو پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاسی الیکشن مہم کا انچارج
سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو بنایا گیا تھا اس سیاسی مہم کے
دوران بیرسٹرسلطان محمود چوہدری کو مکمل پروٹوکول بھی دیا گیا اور چونکہ
وفاق میں صدر پاکستان آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی کی حکومت
قائم و دائم تھی اس لیے حکومتی وسائل بھی بیرسٹر سلطان محمو د چوہدری کو
مہیا کیے گئے اور پاکستانی وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے ہمراہ ہیلی
کاپٹر میں پورے پاکستان اور آزادکشمیر میں چلائی جانے والی انتخابی مہم میں
بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ان کے ساتھ ساتھ تھے 26جون 2011کے الیکشن میں
کامیابی کے بعد منظر یک دم تبدیل ہو گیا اور وزارت عظمیٰ کی کرسی چوہدری
عبدالمجید کے حصے میں آگئی اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری یکسر نظر انداز
کر دیئے گئے وہ دن ہے او ر آج کا دن پارٹی کے اندر ایک سرد جنگ جاری ہے جو
کبھی ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور کبھی آتش فشاں کے لاوے کی طرح شعلے اگلنا شروع
کر دیتی ہے چوہدری عبدالمجید کی وزارت عظمیٰ سات کے قریب مواقع پر خطرے سے
دوچار ہوئی اور خوش قسمتی سے ہرمرتبہ وہ اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب ہو
گئے باوجود شدید ترین تنقید اور کرپشن کے انتہائی سنگین الزامات کے
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کو بلا مبالغہ یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ
آزادکشمیر میں سب سے زیادہ ترقیاتی پراجیکٹس نہ صرف لانچ کرنے میں کامیاب
ہوئے بلکہ کامیابی سے ان پراجیکٹس کو زمین پر عملی وجود بھی دے گئے یہ بات
آنے والے دور کا مورخ لکھے گا کہ چوہدری عبدالمجید نے میڈیکل کالجز اور
یونیورسٹیوں کے قیام کی شکل میں کتنے بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیئے ہیں یہ
الگ بات ہے کہ ہماری قوم کا یہ سیاسی مزاج بن چکا ہے کہ وہ ہر آنے والے کے
گلے میں پھولوں کے ہار ڈالتے ہیں اور ’’ آو ے ہی آوے ‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں
اور ہر جانے والے کو یوں بھول جاتے ہیں کہ جیسے کبھی اسکا کوئی وجود ہی
نہیں رہا لیکن چند خوش نصیب ایسے بھی ہوتے ہیں جو جنرل ایوب خان کی تصویر
بن کر ہزاروں ٹرکوں کے پیچھے اس عنوان کے ساتھ آج بھی دکھائی دیتے ہیں کہ
’’ تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد ‘‘ یہاں ہم یہ عرض کرتے چلیں کہ وزیراعظم
چوہدری عبدالمجید نے جس دن سے وزارت عظمیٰ سنبھالی چند نادان مشیروں کی غلط
بریفنگ کی وجہ سے ان کے ذہن میں یہ شک پیدا ہوا کہ راقم خدا نخواستہ ان کے
سیاسی مخالفین کے ’’ پے رول ‘‘ پر ہے اور اسی وجہ سے ان سے تلخ و شیریں
سوالات کر کے ان کے لیے سیاسی مشکلات کھڑی کرتا ہے کسی دانشور کا قول ہے کہ
تمہارا بہترین دوست وہ ہے جو تمہیں تمہاری خامیوں سے آگاہ کرے ہم اپنے تئیں
خود کو وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کا بہترین دوست تصور کرتے رہے اور نالائق
مشیروں کی غلط بریفنگ میں آکر وہ ہمیں اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے رہے
ہماری دوسری بد قسمتی یہ رہی کہ ہم برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے پہلے تا حیات
مسلمان رکن لارڈ نذیر احمد کے متعلق بہت سے اچھے خیالات رکھتے تھے اور اس
نرم گوشے کی وجہ سے ہم ہمیشہ ان کے متعلق آرٹیکلز بھی تحریر کرتے رہے اور
ٹی وی اور ریڈیو پروگرامز میں تحریک آزادی کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے
لیے لارڈ نذیر احمد کی جدوجہد کو سراہتے رہے اس سے بھی چوہدری عبدالمجید اس
وقت شدید غصے میں آئے جب ذوالفقار مرزا نے لارڈ نذیر احمد کے ساتھ مل کر
الطاف حسین کے متعلق برطانوی سر زمین پر آواز بلند کی اور آزادکشمیر حکومت
نے عجیب و غریب فیصلہ کرتے ہوئے لارڈ نذیر احمد کو نا پسندیدہ ترین شخصیت
قرار دے دیا جس پر ہم نے تن تنہا اپنے قلم کو تلوار بنا کر حکومت کی
گوشمالی شروع کی اور چند دنوں میں حکومت کو بیک فٹ پر جانے پر مجبو رکر دیا
اور ایسا بھی موقع آیا کہ صدر ریاست سردار یعقوب خان اور سینئر وزیر چوہدری
محمد یاسین نے ریڈیو آزادکشمیر ایف ایم 93کے پروگرام لائیو ٹاک ود جنید
انصاری میں گفتگو کرتے اس فیصلے کو غلط فیصلہ قرار دے دیا اور اس سے اپنی
براء ت کا اظہار کر دیا اس پر بھی چوہدری عبدالمجید کے ذہن میں یہ شک گزرا
کہ ہم ’’ کچھ لے دے کر ‘‘ ان کی کلاس لے رہے ہیں حالانکہ خدائے بزرگ و برتر
گواہ ہے کہ ہم ہمیشہ کی طرح خالی ہاتھ رہ کر حق کا دامن تھامنے کی کوشش
کرتے رہے ہوتے ہوتے حالات اتنے خراب ہوئے کہ ایک مرحلے پر وزیراعظم
آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید جب آزادکشمیر کے سب سے بڑے پریس کلب کشمیر پریس
کلب میرپور تشریف لائے تو ہمارے ایک معصوم سے سوال سے بھڑک کر انہوں نے
ہمیں بے شمار باتیں سنا دیں اور ہم اپنی عزت بچا تے رہ گئے اس موقع پر چند
قلمی مجاہدوں روزنامہ شاہین کے چیف ایڈیٹر خالد چوہدری ،محمد امین
آہیر،محمد نعیم بلوچ ،شاہد صادق ،آصف راٹھور ،سید سجاد بخاری کے علاوہ اے
کے این ایس کے صدر عامر محبوب ،ٹی وی اینکر معید پیر زادہ ،مظہر عباس اور
پی ایف یو جے کے صدر محمد افضل بٹ کے علاوہ ایڈیٹرز ایسوسی ایشن کے رہنما
شہزاد راٹھور نے ہمارا ساتھ دیا اور باقی پوری صحافی برادری بغلیں جھانکتی
رہ گئی ۔خیر یہ وقت بھی گزر گیا کیونکہ وقت کی یہ فطرت اور سنت ہے کہ اچھا
ہو یا بُرا گزر ہی جاتا ہے یہاں بقول چچا غالب ہم کہتے چلیں ۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخی ء تحریر کا !
کاغذی ہے پیر ہن ہر پیکرتصویر کا!
کا وکاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
جذبہ ء بے اختیار ِ شوق دیکھا چاہیے
سینہ ء شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
بس کہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
قارئین یہاں آج ہم خوشی کے ساتھ آپ کو بتا رہے ہیں کہ ایک عرصے کے خراب
تعلقات کے بعد آخر کار ہمارے بُرے نصیب ہم سے دور ہو گئے گزشتہ روز ہم نے
وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید کی میرپور میں رہائش گا ہ پر ان کا
ایک تفصیلی انٹر ویو ریڈیو آزادکشمیر ایف ایم 93اور آزادکشمیر کے پہلے
لائیو ویب ٹی وی کشمیر نیوز ڈاٹ ٹی وی کے پروگرام لائیو ٹاک ود جنید انصاری
کے لیے کیا ۔گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید نے کہا
کہ منگلا ڈیم ایک قومی منصوبہ ہے اور قومی نوعیت کے اس اثاثے کو محفوظ
رکھنے کے لیے بہت تلخ فیصلے بھی کرنا پڑ ے ہیں خالق آباد کے مقام پر سڑک کی
تباہی کی وجہ دریافت کرنے کے لیے ماہرین ارضیات اور انجینئرز کی ڈیوٹی
لگائی ہے جبکہ خالق آباد کے بائیں ہاتھ پر موجود تمام تجاوزات کو ہٹانے
کیلئے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں میرپور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے وہاں پر
280کے قریب جو پلاٹ الاٹ کیے تھے ایم ڈی اے نے یہ پلاٹ غلط الاٹ کیے ہیں
واپڈا نے یہ پلاٹ کینسل کرنے کے لیے احکامات جا ری کر دیئے ہیں ڈیم کی اس
جانب ریٹینگ وال Retaining Wallبنائی جائے گی تا کہ کسی بھی قسم کے پانی کے
اخراج یا لیکیج کو روکا جا سکے کشمیری اپنے پاکستانی بھائیوں اور افواج
پاکستان کے دل سے شکر گزار ہیں کہ کشمیر کی آزادی کے لیے ہمارے بھائیوں نے
ہر طرح کی قربانیاں دی ہیں بھارتی وزیراعظم نریندر سنگھ مودی افواج پاکستان
کی توجہ ضرب عضب سے ہٹا کر دوسری جانب مبذول کرنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ
لائن آف کنٹرول پر بھارت نے بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع
کر رکھا ہے بھارت یاد رکھے کہ کشمیری آزادی اور حق خود ارادیت سے کم کسی
بھی آپشن کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کشمیری دنیا کے ہر ملک میں
اپنے وطن کی آزادی کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں اور بھارت کی ننگی جارحیت
کو بے نقاب کر رہے ہیں آزاد کشمیر اور پاکستان کے میڈیا کو چاہیے کہ تحریک
آزادی کشمیر کا کیس مشنری بنیادوں پر دنیا کے سامنے اجاگر کریں وزیراعظم
چوہدری عبدالمجید نے کہا کہ منگلا ڈیم کے متعلق بعض ناقدین یہ پروپیگنڈا کر
رہے ہیں کہ ڈیم کی تعمیر درست بنیادوں پر نہیں ہوئی ان دوستوں کا یہ شک غلط
ہے پانی کا اتنا بڑا ذخیرہ کرنے کے تجربے کے بعد مختلف قسم کے اقدامات اٹھا
کر چھوٹی موٹی خامیوں کو دور کیا جا رہا ہے اور منگلا ڈیم کے تحفظ کے لیے
ہر طرح کے اقدامات اٹھائیں گے ۔چوہدری عبدالمجید نے کہا کہ محترمہ بے نظیر
بھٹو شہید اور ذوالفقار علی بھٹو شہید کے خاندان سے بڑھ کر پیپلزپارٹی کے
کسی کارکن نے قربانیاں نہیں دیں ۔مختلف مواقع پر میں بھی مختلف آزمائشوں سے
گزرتا رہا اور ایسا بھی ہوا کہ میری بیٹیوں کی شادی کے موقع پر میں جیل میں
تھا اور جب بے نظیر بھٹو شہید ہوئیں تو میں چند قدم پیچھے تھا اگر میں بھی
شہید ہو جاتا تو اس سے بڑھ کر اعزاز کی بات نہ تھی ۔چوہدری عبدالمجید نے
کہا کہ آج بھی فخر سے کہتا ہوں کہ میں پارٹی کا لیڈر نہیں ہوں بلکہ ایک
ادنیٰ سا کارکن ہوں پارٹی کے اندر اور باہر موجود مختلف سیاسی قائدین مختلف
نوعیت کے الزامات لگاتے رہتے ہیں یہ ان کا حق ہے لیکن میں یہ بات ریکارڈ سے
ثابت کر سکتا ہوں کہ جتنے میگا پراجیکٹس ہمارے دور حکومت میں ہم نے شروع
کیے آزادکشمیر کی تاریخ میں کوئی بھی حکومت اتنے کام نہیں کروا سکی ۔میڈیکل
کالجز اور یونیورسٹیوں کے قیام کے بعد اب اگلے مرحلے میں ہم دو ایشوز پر سب
سے زیادہ توجہ دے رہے ہیں آزادکشمیر میں پرائیویٹ سیکٹر کو آگے لانے کے لیے
ہم ہر قسم کی منصوبہ بندی کریں گے تا کہ کشمیری سرمایہ کار اپنے وطن میں
سرمائے کی تحفظ کی ضمانت کے ساتھ سرمایہ کاری کرنا شروع کریں اور لوگوں کے
لیے پرائیویٹ اداروں میں ملازمتیں پیدا ہوں ۔اسی طریقے سے آزادکشمیر بھر کے
سڑکوں کے انفراسٹرکچر کو بین الاقوامی معیار کے مطابق اپ گریڈ کرنے کے لیے
بھی کام کیا جا ئے گا ۔چوہدری عبدالمجید نے کہا کہ مجھے پارٹی قیادت کا
بھرپور اعتماد حاصل ہے اور پارٹی قیادت جو احکامات بھی جار ی کرتی ہے ہم اس
پر پوری طرح عمل کرتے ہیں اولیاء اﷲ کا ماننے والا اور ان سے محبت رکھنے
والا ہوں میرے ساتھ بزرگوں کی دعائیں ہیں اور اسی لیے اﷲ کی مہربانی سے ہر
سیاسی امتحان سے سرخرو ہو کر نکلا ہوں ۔افواج پاکستان کشمیر کی آزادی کے
لیے قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہزاروں شہیدوں کی قربانیاں دے چکی ہیں
افواج پاکستان ہمارا اثاثہ اور ہمارا سرمایہ افتخار ہیں افواج پاکستان
ہماری عزت ہیں اور ہم افواج پاکستان کو سلام پیش کرتے ہیں ۔وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید نے کہا کہ ہمارے ترقیاتی کاموں سے پریشان ہو کر پارٹی کے اندر
اور باہر موجود بعض سیاسی قائدین اور دوستوں کو شدید فکر لاحق ہے کہ آئندہ
انتخابات میں کارکردگی کی بنیاد پر عوام یقینا ہمیں دوبارہ خدمت کرنے کا
موقع دیں گے یہی وجہ ہے کہ وہ مختلف الزامات لگا کر ہماری کارکردگی کے
حوالے سے شک پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔چوہدری عبدالمجید نے کہا کہ بھارت
مقبوضہ کشمیر میں فراڈ الیکشن کے ذریعے عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول
جھونکنا چاہتا ہے بھارت مشن 44پلس پر کام کر رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر کی
خصوصی حیثیت کو تبدیل کر کے کشمیر کو اپنے اندر ضم کرنا چاہتا ہے کشمیری
ایسی ہر سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے ۔
قارئین آزادکشمیر کے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی گفتگو کی یہ چند جھلکیاں
ہم نے آپ کے سامنے پیش کر دیں ان باتوں سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ
باوجود کئی غلطیوں کے چوہدری عبدالمجید آج بھی انتہائی مضبوط ارادے کے ساتھ
آزادکشمیر میں ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بھی کچھ کرنا چاہتے ہیں اور
تحریک آزادی کشمیر کے تناظر میں بھی کھل کر بات کر رہے ہیں چوہدری
عبدالمجید کی سیاسی فکر سے کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے ان کے میگا پراجیکٹس
پر کرپشن کے الزامات میں بھی صداقت ہو سکتی ہے لیکن بطور پیپلزپارٹی کے
کارکن چوہدری عبدالمجید کی کمٹمنٹ کسی بھی شک و شبے سے بالاتر ہے ہم دعا گو
ہیں کہ اﷲ تعالیٰ چوہدری عبدالمجید سے وہ کام لے لے کہ آزادکشمیر میں
گھومنے والے تمام ٹرکوں اور رکشوں کی پشت پر ان کی تصویر کے ساتھ آنے والے
دور میں یہ لکھا جائے کہ’’ تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد ‘‘
ٓٓ
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے کہ
امریکی جب پہلی مرتبہ چاند پر پہنچے تو وہاں پر ایک پاکستانی کو بیٹھے ہوئے
پایا انہوں نے حیران ہو کر اس سے پوچھا
’’تم ہم سے پہلے چاند پر کیسے پہنچ گئے‘‘
پاکستانی نے روتے ہوئے جواب دیا
’’ ایک ٹریول ایجنٹ دوبئی کی بجائے مجھے یہاں چھوڑ گیا ہے ‘‘
قارئین ہماری سیاسی قیادت بھی عوام کو اپنے پیچھے لگا کر خواب تو کسی اور
منزل کے دکھاتی ہے لیکن حقیقت او ر خواب کی تعبیر کسی او رمنزل کی نکلتی ہے
اﷲ ہمارے حال پر رحم فرمائے آمین ۔ |