عمران خان کا طریقہ کار

کسی بھی مسلمان ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے سب سے مقدم اپنا مذہب اور نظریاتی اقدار ہوتے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان اسلام کے نام پر بناتھا اور یہی اسلام نظریہ پاکستان بھی ہے، تو ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے یہاں اپنے نظریاتی اقدار ہیں اور مذہب اسلام کی حدود میں محدود کچھ سماجی، ثقافتی، معاشرتی اور اخلاقی تقاضے ہیں۔ اگر اسلام کا نام لیکراس وطن خداداد کی بنیاد رکھی گئی تھی توپھر یہاں سب کچھ برداشت ہوسکتاہے لیکن آئینی اور ثقافتی لحاظ سے کوئی خلاف مذہب کام برداشت نہیں کیاجاسکتا، یہ الگ بات ہے کہ سیکولرزم کی فضا عام ہوتی جارہی ہے اور ’’ذمہ دارانِ‘‘ وطن کا خون ٹھنڈا ہوکر اسلام اور نظریہ پاکستان کی پرواہ نہیں کرتا لیکن بحیثیت مسلمان ہم سب کو سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔ آمدم برسرمطلب! میں اس بات کو بھی ایک طرف رکھ دوں گا کہ عمران خان کے مطالبات جائز ہیں یا ناجائز، مجھے نوازشریف سے بھی محبت نہیں کہ اس کے چلے جانے سے مجھے کوئی صدمہ پہنچے، میرے اوپر جمہوری یا فوجی حکومت کی تفریق کا بھی اتنا اثر نہیں،اس بات سے بھی صرف نظر کریں گے کہ وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ پھر ہمیشہ کے لیے رواج بنے گااور حکومتوں میں استحکام نہیں ہوگا، چلو اس تنقید کو بھی ایک طرف رکھ دیں گے کہ سیاسی میدان میں جارحیت اور ہٹ دھرمی معیوب ہے، ہم عمران خان کے اس نعرے سے بھی اتفاق کرسکتے ہیں کہ ’’تبدیلی چاہئے‘‘، کچھ کچھ مطالبے ضرور سننے اور ماننے کے قابل ہیں کیونکہ ان میں فلاح وبہود کے لحاظ سے عوامی فائدہ ملحوظ ہے لیکن تبدیلی لانے اور کچھ ’’مقاصد‘‘ تک پہنچنے کے لیے عمران خان نے جو طریقہ کار اپنایا ہے اس سے ہرگز اتفاق نہیں کیا جا سکتا اور ایک پکے مسلمان اور سنجیدہ آدمی کے لیے یہ طریقہ کار باعث تشویش بھی ہے۔ ناقدین ضرور پوچھ سکتے ہیں کہ تبدیلی کے بعد کیا ہوگا اور نئے پاکستان کے مناظر کیسے ہوں گے!!! کئی مہینوں تک مختلف شہروں کو جام رکھ کر معاشی اور اقتصادی لحاظ سے اس ملک کو جو نقصان دیا گیا یہ اتنا معیوب نہیں کیونکہ بہت جلد اس کا مداوا ہوجائے گا اور حکومت پر دباؤ پڑ کر بالواسطہ عوام کو بہت سارے فوائد بھی دیے جاسکتے ہیں لیکن عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگررہنماؤں نے مذہبی، ثقافتی اور اخلاقی لحاظ سے اہل وطن کو جو نقصان دیا وہ ناقابل تلافی ہے اور شاید ہی یہ برے اثرات اس معاشرے سے ہٹائے جاسکے۔ کئی مہینوں تک دن رات نوجوان مرد وعورت کی مخلوط محافل اور ڈانس گانوں نے ہماری نوجوان نسل کو بری طرح بداخلاق و بدتمیز بنادیا؛ معلوم نہیں اسلام آباد یا دیگر شہروں پر دھرنوں کے دوران مرد وخواتین کے جذبات کیا ہوں گے لیکن جہاں تک ہم نے جائزہ لیاہے ملک کے دور دراز علاقوں میں محض ٹی وی پر یہ مناظر دیکھ کر نوجوانوں میں انتہائی بے ہودہ قسم کے تبصرے ہوتے ہیں اور ناگفتہ بہ قسم کے جذبات وخیالات کا اظہار کیا جاتاہے۔ واقعی اس تحریک یا سونامی نے تمام علاقوں کو لپیٹ میں لے رکھاہے؛ ایسے علاقوں اور بازاروں میں بھی موسیقی اور ڈھول کی محفلیں سج گئیں جہاں اس سے پہلے یہ عمل بہت بڑا عیب سمجھا جاتاتھا اور لوگ کسی عام جگہ موبائل گانا سننے میں بھی عار محسوس کرتے تھے۔ مانتا ہوں سرود کی ایسی محفلیں دیگر عام پارٹیوں کے ہاں بھی ہوتی ہیں لیکن وہ چند گھنٹوں کا معاملہ ہوتاہے اس لیے ان محافل کے اثرات دیرپا نہیں ہوتے اور نہ ہی تمام ملک میں یہ ’’کلچر‘‘ عام ہوجاتاہے۔ عمران خان کے طرز انداز کا دوسرا تشویش ناک پہلو ان کالب و لہجہ ہے، قائد سمیت تحریک کے دیگر لیڈرمولانا فضل الرحمن کے بہانے علماء کرام سے متعلق جو غلیظ گفتگو کرتے ہیں وہ بھی باعث صد افسوس ہے، ہوسکتاہے عمران خان کا یہ لہجہ سیاسی ہو اور سیاسی مخالفت کا ایک انداز ہو لیکن جماعت پنجم و ہشتم یا کالج لیول کے نوجوان جذباتی طلبہ کیا سمجھیں اور ان کو کون سمجھائے۔ عمران خان کے نقش قدم پر چل کر نوجوان مطلق علماء سے متعلق زبانوں پر ایسے کلمات لاتے ہیں جو یقیناًناقابل برداشت ہوتے ہیں اور شرعی لحاظ سے انتہائی خطرناک بھی ہوتے ہیں، جوانی کی زندگی ایسی ہوتی ہے جہاں رقص وسرود اور جذباتی تقاریر سے متاثر ہونا کچھ فطری امرہے، یہی وجہ ہے کہ آج نوجوان بالعموم اور سکول و کالج کے طلبہ بالخصوص عمران خان سے متاثرہیں، ان کے دلوں میں علماء کرام کی محبت ختم ہوگئی اور علماء کی شان میں بڑی بے ادبی اور گستاخی کی جاتی ہے، طلبہ کی جانب سے بے پردگی، ڈانس ، مخلوط محافل اور گانے بجانے کا باقاعدہ دفاع ہوتاہے اور ناقص دلیلیں بھی دی جاتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کی زبانوں پر گوگو کے نعرے ہوتے ہیں جو یقیناًغیرمناسب عمل ہے، سماجی ویب سائٹس پر بداخلاقی اور ناشائستہ الفاظ و القابات کی بھرمارہے، ان تمام تر بداخلاقیوں اور بدزبانی کی ذمہ داری یقیناًعمران خان کے کندھوں پر پڑتی ہے کیونکہ وہ ان سب کچھ کے لیے باعث ہیں۔ بار بار یورپ اور امریکہ کی مثالیں دیکر عوام وہاں کی تہذیب وثقافت سے متاثرہونے لگے ہیں اس لیے تو یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ ہمیں اسلام سے کیا، ہمیں تو یورپ وامریکہ جیسا درست سسٹم چاہئے، ناقص حکمرانی کی وجہ سے ہمارے سسٹم کی خرابی، کرپشن، لوٹ مار، عدل وانصاف کافقدان اور ان جیسی دیگر خرافات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور یقینایہ سب کچھ لائق اصلاح بھی ہیں لیکن ان اصلاحات کے نتیجے میں اگر ہماری نوجوان نسل گمراہ ہوتی ہے اور ہمیں اسلام ونظریہ پاکستان سے محروم ہونا پڑتاہے تو پھر ہمیں نیا پاکستان ہرگز قبول نہیں۔ ہم ہسپتال کی خرابی برداشت کرسکتے ہیں، تھانہ کے مظالم اٹھاسکتے ہیں، غربت ومہنگائی کا بوجھ سر لے سکتے ہیں لیکن اپنی تہذیب وثقافت سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔ ہمیں تبدیلی ضرور چاہئے لیکن اسلام اور اسلامی ثقافت کے اندر رہتے ہوئے۔ لہٰذا تحریک انصاف کو اپنے طرز انداز پر ضرور سوچ کر مذہبی واخلاقی حدود کی پامالی سے اجتناب کرنا چاہئے۔

Nizam Uddin
About the Author: Nizam Uddin Read More Articles by Nizam Uddin: 14 Articles with 18006 views Columnist / Reasercher / Story Writer.. View More