ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں
ملالہ یوسف زئی اور کیلاش ستیارتھی کو 2014ء کا امن نوبیل ایوارڈ دے دیا
گیا۔ نوبیل کمیٹی نے رواں سال کے ماہ اکتوبر میں دونوں کو عالمی امن ایوارڈ
کا مشترکہ حقدار ٹھہرایا تھا۔ قطع نظر اس بات سے کہ نوبیل ایوارڈ سے نوازنے
کے لیے جانچنے کا پیمانہ کیا ہے۔ اس بحث سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ ملالہ
یوسف زئی اور کیلاش ستیارتھی نے تعلیم کے فروغ اور بچوں کے حقوق کے لیے کیا
خدمات سرانجام دیں ہیں۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ 2014ء کے مشترکہ امن نوبیل
ایوارڈ کو پاکستان اور بھات کے لیے بہتر تعلقات کے ضمن میں اہم قرار دیا جا
رہا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ بھارت میں ان دنوں وزارت عظمیٰ کے قلمدان پر
بی جے پی کے متعصب ہندو رہنما نریندر مودی براجمان ہیں۔ جنہوں نے انتخابات
بھی پاکستان مخالف ایجنڈے کی بنیاد پر لڑے ہیں۔ ان کے وزیر اعظم بنتے ہی نہ
صرف دونوں ممالک کے مابین نزاع کا باعث بننے والا مسئلہ کشمیر پر پاکستان
کے اصولی موقف کو فرسودہ قرار دیا گیا۔ بلکہ پاک بھارت سرحد پر بھی آئے روز
کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
بھارتی میڈیا میں نوبیل ایوارڈ کی سرخی اپنی جگہ بنانے سے قبل ان کے تیروں
کا رخ براہ راست پاکستان کی طرف تھا۔ جہاں جماعۃ الدعوۃ نے مینار پاکستان
پر لاکھوں افراد کو جمع کرکے تاریخی اجتماع کا انعقاد کیا۔ اگر دیکھا جائے
تو آج سے 74 سال قبل بھی بالکل یہی صورت حال درپیش تھی۔ جب مینار پاکستان
کے مقام پر اکابرین پاکستان نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر قرارداد منظور
کی، جسے قرارداد لاہور کہا گیا۔ ہندو پریس نے اس قرارداد کے منظور ہونے پر
اس قدر واویلا کیا کہ اسے قرارداد پاکستان قرار دے ڈالا۔ آج ایک بار پھر
بھارتی پریس میں کہرام برپا ہے۔ جس کا موضوع بحث نظریہ پاکستان کے عنوان پر
جماعۃ الدعوۃ کا مرکزی اجتماع ہے۔ مینار پاکستان گراؤنڈ میں ملک بھر سے جمع
لاکھوں فرزندانِ اسلام نے بھارت کے دفاعی اور سیاسی حلقوں سے لے کر صحافتی
حلقوں میں بھی سخت ہیجان کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ جماعۃ
الدعوۃ نے حکومت کی ناک تلے مینار پاکستان پر لاکھوں افراد جمع کرکے بھارت
سمیت امریکا کو بھی سخت نتائج بھگتنے کی دھمکی دی ہے۔ بھارتی میڈیا ایک طرف
جماعۃ الدعوۃ کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید پر دہشت گردی کے الزامات عائد
کر رہا ہے، تو دوسری طرف وہ پاکستان ریلوے کی طرف سے جماعۃ الدعوۃ کے
اجتماع کے لیے کراچی اور حیدر آباد سے خصوصی ٹرینوں کی روانگی پر بھی سخت
تشویش میں مبتلا ہے۔
بھارت کی بے چینی یہیں پر ختم نہیں ہوئی۔ مقبوضہ کشمیر میں حالیہ دنوں ہونے
والے تباہ کن حملوں کی کڑیاں بھی حافظ سعید سے ملائی جا رہی ہیں۔ حال ہی
میں بھارتی ایماء پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر نے حافظ محمد سعید کا
ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی ڈیلیٹ کردیا ہے۔ جس پر دنیا بھر سے 26 ہزار سے زائد
فالوورز موجود تھے۔ جن میں دانشوروں، سینئر صحافیوں اور معروف شخصیات کی
بڑی تعداد بھی شامل تھیں۔ یہ تمام تر ہتھکنڈے کشمیر میں بھارتی مظالم پر
جماعۃ الدعوۃ کی آواز کو دبانے کی خاطر اختیار کیے جا رہے ہیں۔ بھارتی
میڈیا نے اس پر بھی خوب واویلا کیا کہ حافظ محمد سعید کا ٹوئٹر اکاؤنٹ
ڈیلیٹ ہوتے ہی نیا اکاؤنٹ بنا دیا گیا۔ اب خبر یہ ہے کہ نئے بنائے گئے
اکاؤنٹ کو بھی بلاک کردیا گیا ہے۔
دراصل ان دونوں ممالک کے مابین برسوں سے نظریاتی کشمکش جاری ہے۔ تاریخ میں
نظریات کے بحث کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ نظریہ وہ لفظ ہے جس پر اہل
علم نے سب سے زیادہ قلم کی سیاہی صرف کی ہے۔ قوموں کے نشیب و فراز میں
نظریہ ہی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ بعض ریاستوں میں سیاسی افکار نے قوموں
کا مزاج بدل ڈالا، تو بعض خطوں میں معاشی نظریات نے حکومتوں کے تختے الٹ
دیے۔ کہیں حق و سچ کی آواز کو نظریے کے قالب میں ڈالا گیا، تو کہیں باطل
افکار پر ظاہری خوبصورتی کی پیوند کاری کی گئی۔ الغرض نظریات کی یہ جنگ ازل
سے جاری ہے اور ابد تک رہے گی۔ قیام پاکستان کا مطالعہ کیا جائے تو اس کی
جڑوں میں بھی عظیم نظریے کا رنگ غالب دکھائی دے گا۔ وہ نظریہ جس کی آبیاری
مسلم مفکرین ازل سے کر رہے ہیں۔ اسی لیے لفظ پاکستان کو محض چند حرفوں کا
مجموعہ نہیں بلکہ ایک نظریہ سمجھا جائے۔ اس نظریے پر ہر دور میں کاری ضربیں
لگائی گئی۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد اندرا گاندھی نے تو یہاں تک کہا کہ
ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ اس نظریے کو کیسے مسخ
کیا جا سکتا ہے، جس کے محافظین آج بھی لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوکر اس کے
دفاع کے لیے جان کی بازی لگانے پر تیار ہیں۔
رہی یہ بات کہ کیا امن کے مشترکہ ایوارڈ سے دونوں ممالک کے درمیان موجودہ
تلخی کو زائل کرنے میں مدد مل سکے گی۔ ملالہ کے بقول پاکستان اور بھارت کے
اہم مسائل تعلیم کا فقدان اور خواتین کو حقوق کا نہ ملنا ہے۔ میرے نزدیک یہ
دونوں ممالک کے ضمنی مسائل ہیں۔ بنیادی مسئلہ خطے میں امن و امان کی صورت
حال کا فقدان ہے۔ بالخصوص پاک بھارت کے مابین تنازع کشمیر، آبی جارحیت اور
سرحد پر تسلسل کے ساتھ ہونے والی جھڑپیں ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف پہلے ہی
کہہ چکے ہیں کہ مذاکرات کی گیند بھارتی کورٹ میں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ
بھارت کے حکومتی و دفاعی حلقوں سے لے کر رائے عامہ کو ہموار کرنے میں اہم
کردار ادا کرنے والا میڈیا موجودہ تلخ صورت حال کے خاتمے کے لیے کس قدر
سنجیدہ ہے۔ محض بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ سے جنگ تو ہوسکتی ہے امن قائم
کرنا ممکن نہیں۔ |