سانحہ کراچی..... ہماری اقتصادی
شہہ رگ پر ضرب کاری
دس محرم الحرام کو شہداء کربلا کی یاد میں یومِ عاشور پر کراچی میں ملک
دشمن دہشت گردوں نے ایک بار پھر کربلا برپا کردی، یوں عوامی توقعات اور
حوصلہ افزا امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے دہشت گردوں نے عاشورہ محرم کے مقدس
و محترم دن کے موقع پر کراچی میں عزاداروں کے مرکزی جلوس پر خودکش حملے میں
43افراد کو ہلاک اور 250 سے زائد کو زخمی کر دیا، دھماکے بعد نامعلوم افراد
نے ایم اے جناح روڈ پر واقع لائٹ ہاؤس کے تاریخی لنڈا بازار، ادویات کی ہول
سیل مارکیٹ، پیپر مارکیٹ، کوئٹہ مارکیٹ، فیروز مارکیٹ، بانو مارکیٹ، پلاسٹک
مارکیٹ، الیکٹرونک مارکیٹ اور موتن داس مارکیٹ سمیت پچیس سے زائد مارکیٹوں
کو نذر آتش کیا، جن میں کئی پرانی مارکیٹیں منہدم ہوگئی ہیں، شر پسندوں نے
میٹھادر تھانے میں قائم ٹریفک پولیس چوکیاں اور بلدیہ عظمیٰ کی تاریخی
عمارت سمیت 80سے زائد گاڑیوں اور متعدد دکانوں، نجی و سرکاری املاک،2پٹرول
پمپ اور 4بینک بھی نذر ِ آتش کردیئے گئے، دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ آواز
میلوں دور تک سنی گئی اور انسانی اعضاء سڑکوں کے ارد گرد موجود عمارتوں سے
چپک گئے جبکہ اطراف کی عمارتوں اور دکانوں کو بھی شدید نقصان پہنچا، دھماکے
کے بعد فضا میں دھوئیں کے بادل چھا گئے اور بھگدڑ مچ گئی، دھماکے بعد شہر
کے مختلف علاقوں میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور فائرنگ کی گئی، بعض اطلاعات کے
مطابق ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
ایک اخباری اطلاع کے مطابق نواسہ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بے مثال
قربانی کی یاد میں منائے جانے والے اس دن کے موقع پر اس المناک سانحہ نے
عزاداروں کی شہادت پر بڑی تعداد میں مشتعل افراد نے متعدد مین مارکیٹوں،
تجارتی و کاروباری اداروں اور 2500 سے زائد دکانوں کو نذر ِ آتش کر دیا جس
کی وجہ سے ان کے اندر پڑا ہوا سارا سامان جل کر خاکستر ہو گیا جس کی مالیت
اربوں روپے سے زائد تھی، اس تخریب کاری کی وجہ سے جلنے والی دکانوں کے
مالکان کی اکثریت نہ صرف زبردست مالی نقصان سے دوچار ہوئی بلکہ وہ زندگی
بھر کی جمع پونجی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی، شر پسندوں کی جانب سے لگائی گئی
آگ رات گئے تک بجھائی نہ جاسکی اور دوسرے دن بھی کئی عمارتوں سے دھواں
اٹھتا دکھائی دے رہا تھا،شر پسندوں کی جانب سے لگائی جانے والی آگ سے
تاجروں اور دیگر شہریوں کا اربوں روپے کا نقصان ہوا، اس ہنگامہ آرائی کے
دوران جو رات گئے تک جاری رہی، موصولہ اطلاعات کے مطابق پولیس اور رینجرز
غائب تھی، جبکہ ہنگامہ آرائی سے قبل میڈیا کے نمائندوں کو بھی تشدد کا
نشانہ بنایا گیا تاکہ واردات کرنیوالے کیمرے کی آنکھ سے محفوظ رہیں۔
ذرائع کے مطابق نامعلوم افراد نے یہ ہنگامہ آرائی انتہائی منظم اور جس
مشینی انداز میں سرانجام دی،اس کے بعد یہ سوچا جانا فطری امر ہے کہ بم
دھماکہ اور اس کے بعد کی ساری کاروائی ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ تھی، جس
منظم طریقے سے ملک کی سب سے بڑی ہول سیل مارکیٹوں کو جلایا گیا اور درجنوں
گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا وہ ایک لمحہ فکریہ ہے، حیرتناک بات یہ ہے کہ بم
دھماکہ کے فوری بعد خود کش حملہ قرار دے کر اپنی بچت کا جواز تراشنے والے
قانون کے رکھوالے اس تمام وقت کیوں خاموش تماشائی بنے رہے اور کس چیز نے
انہیں اس وحشیانہ عمل کے مرتکبین کے ہاتھ روکنے اور کوئی کاروائی نہ کرنے
سے روکے رکھا، جب مسلح شرپسند سڑکوں پر دندناتے بے قصور تاجروں کے سرمایہ
زندگی کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کررہے تھے، سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں
حکومت اور انتظامیہ کس کام کی جو بم دھماکوں پر قابو پانا تو کجا، دن دھاڑے
شہریوں کی املاک اور مین بازاروں کو پہنچنے والے نقصان سے نہ بچا سکے، خود
کش حملے کے بعد جس تیزی سے ایم اے جناح روڈ کی مارکیٹوں کو آگ لگائی گئی اس
سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عوام کا نہیں بلکہ کسی منظم گروہ کی سازش اور
دہشتگردی کا شاخسانہ ہے، اس تمام ہنگامہ آرائی میں سب سے زیادہ نقصان بولٹن
مارکیٹ میں ہوا جہاں ہزاروں دکانیں نذر آتش کی گئیں اور وہاں لگنے والی آگ
پر نو گھنٹے بعد قابو پایا جا سکا، اسی طرح میڈیسن مارکیٹ، پیپر مارکیٹ،
لنڈا بازار، چھیپا مارکیٹ، فیروز مارکیٹ اور نور چیمبرز کی کثیرالمنزلہ
عمارتیں بھی آتش زنی کی بھینٹ چڑھیں۔
اس المناک سانحہ نے کراچی میں قیامت صغریٰ کا منظر پیدا کردیا، ہر طرف
لاشیں اور انسانی اعضا بکھرے پڑے تھے، سکیورٹی حکام کے مطابق بم دھماکے میں
16کلو گرام بارود استعمال کیا گیا، اس سانحہ کا ایک خاص پہلو رینجرز اہلکار
عبدالرزاق کی جرات و بہادری تھا جس نے خودکش حملہ آور کو پکڑنے کی کوشش میں
اپنی جان دے کر شرکاء جلوس کو بہت بڑی تباہی اور جانی نقصان سے بچایا،
حکومت نے شہید رینجرز اہلکار عبدالرزاق کے لئے تمغہ شجاعت کے علاوہ لواحقین
کے لئے 5لاکھ روپے انعام کا بھی اعلان کیا ہے، لیکن اس سانحے کے بعد جو کچھ
ہوا وہ کسی قیامت سے کم نہیں تھا، خاص طور پر اُن لوگوں پر تو قیامت گزر
گئی جو چند لمحوں میں کروڑ پتی سے فقیر ہوگئے، کراچی چیمبر کے صدر کے بقول
دینے والے ہاتھ مانگنے والے ہاتھ بن گئے، اس سانحہ کے بعد بولٹن مارکیٹ اور
اس سے ملحقہ مارکیٹوں کے تاجروں کا کہنا ہے کہ ان کا تیس ارب روپے کا نقصان
ہوا ہے، انہوں نے حکومت سے معاوضے اور منہدم دکانوں کی دوبارہ تعمیر کا
مطالبہ بھی کیا ہے۔
شہر کے مرکزی علاقے کی ایک تاجر تنظیم اولڈ سٹی ٹریڈرس ایسوسی ایشن کے
چیئرمین جمیل چیمہ کا کہنا ہے کہ اگر آگ پر بروقت قابو پالیا جاتا تو دو سو
دکانوں میں لگی آگ دو ہزار دکانوں تک نہیں پہنچ پاتی، اُن کا کہنا ہے کہ
ابتدائی دو گھنٹوں تک فائر بریگیڈ کی صرف دو گاڑیاں پہنچ سکی تھیں جن کے
پاس آگ کو بجھانے کے لیے کوئی کیمیکل وغیرہ نہیں تھا اور ان کے پانی کی وجہ
سے آگ مزید بڑھ رہی تھی، تاہم کراچی کے سٹی ناظم نے ان الزامات کو مسترد کر
دیا ہے، گو کہ حکومت نے نقصان کے ازالہ کا وعدہ کیا ہے اور حکومت نے ایف
آئی اے کے ڈائریکٹر کی قیادت میں اس آتش زنی کی تحقیقات کے لیے ایک
تحقیقاتی ٹیم بھی قائم کردی ہے، لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ اس تخریب کاری
کا ارتکاب کس نے کیا؟ کیا یہ مشتعل افراد کا خوفناک ردعمل تھا یا منظم
شرپسندوں نے جلتی پر تیل چھڑکا، جو دھماکے کے فوراً بعد ہی گاڑیوں کو آگ
لگانے، صحافیوں، کیمرہ مینوں اور پولیس اہلکاروں پر حملے شروع ہوگئے تھے،
متاثرہ دکانداروں اور عینی شاہدین کے مطابق پولیس اور رینجرز کے سامنے
دکانیں جلائی جارہی تھیں لیکن وہ بے بس کھڑے تھے، یہ شرپسند کون تھے، کہاں
سے آئے، اس کا تعین بہت ضروری ہے ۔
جہاں تک دہشت گردی اور عسکریت پسندی کا تعلق ہے بلاشبہ اس نے ملک کے ایک
بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے لیکن روشنیوں کا شہر کراچی اور
پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی مرکز اب تک ایسے المناک واقعات سے بڑی حد تک
محفوظ تھا، لیکن ایک انتہائی مقدس تہوار کے موقع پر جس میں ہزاروں افراد
نواسہ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے عقیدت و محبت کا مظاہرہ کرنے کے لئے
شریک ہوتے ہیں اس قسم کاالمناک سانحہ نہ صرف بدترین دہشت گردی کی ایک مثال
ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک تیزی کے ساتھ
پھیلتا جارہا ہے اور وہ قومی اتحاد و یکجہتی کو پارہ پارہ کر کے فرقہ
واریت، فروعی اختلافات، نسلی، لسانی اور صوبائی عصبیت کی آگ بھڑکا کر وطن
عزیز کی سلامتی کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں، درحقیقت کراچی میں اپنی
نوعیت کے اس پہلے المناک سانحہ سے دہشت گردوں کے جو عزائم کھل کر سامنے آئے
انہیں بہتر طور پر سمجھنے اور انہیں ناکام بنانے کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے
کے تمام طبقے بالخصوص مذہبی و سیاسی جماعتیں اور تمام مکاتب ِ فکر کے لوگ
وسیع تر قومی و ملکی مفادات کے پیش نظر پوری طرح حرکت میں آئیں اور ہر قسم
کے فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وطن عزیزکی سلامتی،آزادی،
خودمختاری اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو اولین ترجیح قرار دے کر دہشت
گردی کی اس لہر پر قابو پانے کے لئے بلاتاخیر نتیجہ خیز اور بارآور اقدامات
کریں۔
لیکن یہ اسی وقت ہی ممکن ہے جب معاشرے کا ہر طبقہ دہشت گردوں کے ان عزائم
کا گہرا ادراک کرتے ہوئے ان کے عزائم و مقاصد کو بھی پیش نظر رکھے اور
انہیں ناکام بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے،اس کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کی
بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے نہ صرف عوام اور
تمام طبقوں کو تیار کریں اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے پس پردہ عوامل
کا ادراک کرتے ہوئے ملک میں سیاسی استحکام اور جمہوریت کی جانب مثبت پیش
رفت کے لئے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں تاکہ انتخابی منشور
اورمیثاق جمہوریت میں عوام سے کئے گئے وعدے پورے کئے جاسکیں،اس میں کوئی شک
نہیں کہ دہشت گردوں کے اپنے مقاصد ہیں جو ہمارے مکار دشمن کے عزائم کی
تکمیل کیلئے اسکی ایجنسی سے تربیت اور مالی کمک کے ساتھ وطن عزیز میں اپنی
مذموم کارروائیوں میں مصروف ہے۔
ہماری قومی یکجہتی و سا لمیت کیخلاف دشمن اپنی سازشوں میں کامیاب ہوتا نظر
آرہا ہے مگر اپنی لوٹ مار کے تحفظ کی فکر میں مبتلا ہمارے حکمران اس نازک
صورتحال سے عہدہ براء ہونے میں کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہے، سیاسی
تجزیہ کاروں کے مطابق خدا نخواستہ اگر ایسا ہے تو پھر شدت پسندوں کی یہ
حکمت عملی بہت خطرناک ہوسکتی ہے کیونکہ کراچی ملک کی اقتصادی شہہ رگ ہے اور
دہشتگردی کی آگ سے بری طرح جھلسے ہوئے پاکستان کیلئے آخری امید کی کرن بھی،
کون نہیں جانتا کہ کراچی شہر کی سیاسی بساط لسانی بنیادوں پر کھڑی ہے، ایسے
میں اگر شدت پسند یا غیر ریاستی عناصر اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اس
شہر کو بھی دہشتگردی کی آگ میں جھونکنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اسکے سدباب کے
لیے مقامی اور قومی سیاسی قیادت کو بھی اپنے گروہی مفادات کو پس پشت ڈالنا
ہوگا۔
اس وقت وطن عزیز کو سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی کے باعث
جس سنگین دہشت گردی کا سامنا ہے اور جس طرح ہمارے شاطر دشمن کو ہماری
اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر
فوری توجہ ضروری ہے، مگر صد افسوس دشمن کے مفادات پر مبنی پرائی آگ میں
کودنے کے شوق میں مبتلا ہمارے حکمران اس جنگ کو اپنی جنگ قرار دیکر آخری
دہشت گرد کے مارے جانے تک آپریشن جاری رکھنے کے اعلانات کا اعادہ کرنا
ضروری سمجھتے ہیں، حیرت کی بات ہے کہ جب حالات و واقعات بھی گواہی دے رہے
ہیں اور حکومتی ایجنسیوں کی رپورٹوں کا لب ِ لباب بھی یہی ہے کہ حالیہ
دہشتگردی اور ہنگامہ آرائی ہماری سالمیت کیخلاف ایک سوچی سمجھی سازش ہے تو
ہمارے ارباب اختیار دشمن کے مفادات کی جنگ سے خود کو وابستہ رکھنا کیوں
ضروری سمجھ رہے ہیں جبکہ اس کے ردعمل میں سینکڑوں بے گناہ معصوم انسانوں کی
قیمتی جانیں ہی ضائع نہیں ہوئیں، سرکاری اور نجی املاک تباہ ہونے اور قومی
معیشت کا بھٹہ بیٹھنے سے بھی اب تک ملک کو اربوںِ کھربوں روپے کا ناقابل
تلافی نقصان ہو چکا ہے۔
یہ درست ہے کہ دہشت گردوں نے جو ذہن، فکر اور سوچ تشکیل دی ہے اسے مکمل طور
پر ختم کرنا فوری طور پر ایک مشکل کام ہے لیکن اس کے بغیر ملکی وقومی
سلامتی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی، درحقیقت یہ ہمارے اندرونی محاذ کو انتشار
اور افتراق کا شکار بنانے کی منظم سازش ہے جس کے تحفظ، سلامتی اور بقاء
حکومت کی اوّلین ذمہ داری ہے، جو محض نیک خواہشات، توقعات، تمنائیں، دعائیں
اور امیدوں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ہی پوری ہوسکتی ہے، چنانچہ اس
تناظر میں سانحہ کراچی حکمرانوں کیلئے ہوش کے ناخن لینے کیلئے کافی ہونا
چاہئے، اگر دشمن ہماری سالمیت کیخلاف صف آراء ہے اور ہماری کمزوریوں سے
فائدہ اٹھانے پر تلا بیٹھا ہے تو ملکی و قومی سلامتی کا ہر تقاضہ پورا کرنا
ہمارے حکمرانوں کی ذمہ داری بنتی ہے، اب یہ فیصلہ کرنا ارباب اختیار کا کام
ہے کہ وہ اسکے اہل ہیں یا نہیں، چنانچہ ملک کے موجودہ حالات حکومتی، سیاسی،
عسکری حلقوں کیلئے لمحہ فکریہ ہیں، انہیں ملک کو بچانے اور اسکی سالمیت
کیخلاف دشمن کے گھناﺅنے عزائم کو ناکام بنانے کیلئے محض زبانی بیانات کی
نہیں بلکہ اُس ٹھوس، جامع منصوبہ بندی اور عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے
جو وطن عزیز کو عدم استحکام، معاشی ابتری اور دشمن کے ناپاک منصوبے کی
تکمیل سے بچا سکے۔ |