پچھلے ٦٧سالوں سے بھارتی نیتاؤں
نے مسلسل ایک ظلم وجبرکے نظام کے تحت مسئلہ کشمیرکودبانے کیلئے جس
قدرکوششیں کی ہیں اسی قدرکشمیرکے لوگوں کی لازوال قربانیوں نے اس مسئلہ
کوزندہ وتابندہ رکھاہواہے اوراب توبھارت کے کئی دانشوروںنے اس بات کااعتراف
بھی کرناشروع کردیاہے کہ جب تک بھارت کے گلے میں مسئلہ کشمیرکی ہڈی پھنسی
رہے گی تب تک بھارت میں خط ِغربت سے نیچے رہنے والی ٧٠فیصد آبادی میں نہ
صرف مزیداضافہ ہوتاچلاجائے گابلکہ ایٹمی جنگ کے سائے بھی اس سارے خطے کیلئے
سوہانِ روح بنے رہیں گے۔عام خیال کے مطابق مودی حکومت کے آنے کے بعداس
تنازع کواب ہندو رنگ میں رنگنے کی ایک مرتبہ پھر کوششیں جاری ہیں جوماضی کے
مقابلے میں اب زیادہ جارحانہ اندازمیں جاری وساری ہیں۔اس وقت مودی مقبوضہ
کشمیرمیں آئندہ انتخابات میں متعصب قیادت برسرِ اقتدارلانے کی مختلف النوع
سازشیں پروان چڑھانے کیلئے سرتوڑ کوششیں کررہاہے یہی وجہ ہے کہ تادمِ
تحریریہ پہلا بھارتی وزیر اعظم ہے جواس قدرمختصرعرصے میں مقبوضہ کشمیرکاچھ
مرتبہ انتخابی دورے کرچکاہے اوراس کی پوری کوشش ہے کہ بالخصوص جموں ،لداخ
اورکارگل جہاں ہندوؤں اورغیرمسلموں کی تعدادزیادہ ہے وہاں غیرمسلم امیدوار
اوربالعموم وادی جہاں مسلم اکثریت ہے،مسلم امیدواروں کومیدان میں لا کر
سادہ اکثریت حاصل کرکے مقبوضہ کشمیرکاآئندہ وزیراعلیٰ ہندوسامنے لا
کربھارتی آئین میں آرٹیکل ٣٧٠ کے تحت کشمیرکی خصوصی حیثیت کوتبدیل
کیاجاسکے۔
مقبوضہ کشمیر ،بھارت ،پاکستان اورانسانی حقوق کے مختلف فورمزپرمظلوم
کشمیریوں کے حق میں زیادہ توانائی کے ساتھ بلندکی جارہی ہے۔اس حوالے سے
مجرمانہ حدتک سستی ،ست روی یابعض مواقع پرکمزوری کااظہارکرتے ہوئے وزیراعظم
میاں نوازشریف نے ماضی قریب میں جوطرزفکروعمل اپنایا،مودی کی متکبرانہ
ڈھٹائی کے باعث اس میں زبردست تبدیلی آئی ۔میاں صاحب نے اقوام متحدہ کی
جنرل اسمبلی میں تنازع کشمیرایک بارپھرزندہ کرکے اس کی قیام امن کے حوالے
سے غیرمعمولی اہمیت واضح کردی جس کوپوری امن پسنددنیانے خوب سراہا۔وزیراعظم
نے اس سے قبل آزادکشمیرکونسل کے پچاسویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے
کہا:٦٧برسوں سے مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کی متعددقراردادوں کے باوجودحل نہ
ہونے اوربھارتی فورسزکے کشمیریوں پرانسانیت سوزمظالم کی وجہ سے یہ مسئلہ نہ
صرف پیچیدہ ہوگیا بلکہ انسانی حقوق کی پامالی کی تاریخ میں ایک شرمناک اور
بھیانک باب کااضافہ ہوگیاجس پراقوام متحدہ کی خاموشی باعث تشویش ہے۔
بھارت پاکستان پردہشتگردوں کوپناہ دینے کے بے بنیادالزامات لگاکراپنے گناہ
چھپارہاہے۔کشمیریوںپربھارتی مظالم انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔اس کے ساتھ
مذاکرات کی بحالی سے پہلے کشمیری قیادت سے ضرور مشورہ کیاجائے گا۔پاکستان
کشمیری عوام کی اپنے حق خوداردایت کیلئے جدوجہدکی اخلاقی،سفارتی اورسیاسی
حمائت جاری رکھے گا۔جموں کشمیرکے بارے میںپاکستان اپنے اصولی مؤقف پرثابت
قدم ہے۔ہرسال ٥فروری اور٢٧اکتوبرکوپاکستان اورپاکستانی عوام ملک اوربیرون
ملک کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں اوران کے ساتھ اپنی
حمائت کے عہدکی تجدیدبھی کرتے ہیں۔بھارت کومسئلہ کشمیرپرمذاکرات کیلئے
آمادہ کرنے کی خاطرعالمی برادری کے دباؤ کواستعمال کرنے کی ضرورت
ہے۔کشمیریوں کی حق خودارادیت کی جدوجہدکوعسکریت پسندی کے ساتھ جوڑنادرست
نہیں۔
یہ امربھی قابل ذکرہے کہ ٦فروری ٢٠١٤ء کوقانون سازاسمبلی اورقانون سازکونسل
کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے بھارت کو پرامن
طور پر مذاکرات کے ذریعے دعوت دیتے ہوئے کہاتھاکہ جب تک مسئلہ کشمیرحل نہیں
ہوتاعلاقے میں کشمکش اورغیریقینی فضابرقراررہے گی۔بھارت ہماری دعوت کامثبت
جواب دے اور کشمیری عوام کواپنی تقدیرکافیصلہ کرنے کاحق دے۔ کشمیریوں کوان
کاجائزحق دلاکررہیں گے،کشمیری شہداء کی قربانیوں کورائیگاں نہیں جانے دیں
گے اورمؤقف سے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا،ان کے حق میںہرپلیٹ
فارم سے آوازبلندکرتے رہیں گے۔
وزیراعظم نوازشریف کامؤقف حقیقت پرمبنی اورہرپاکستانی وکشمیری کی دل کی
آوازہے۔بھارت کاجارحانہ اورمجرمانہ روّیہ تاریخ کاحصہ بن چکاہے کہ بھارتی
حاکم نے وادیٔ کشمیر کے شہریوں کے بنیادی حقوق نہ صرف غصب کررکھے ہیں بلکہ
ان کی جدوجہدآزادی کودبانے کیلئے طاقت کابے رحمانہ استعمال بھی کیاہے اوراب
تک لاکھوں کشمیری آزادی کی خاطراپنی جانوں کانذرانہ پیش کرچکے ہیں جبکہ
بھارت کی درندہ صفت فوج نے ہزاروں کشمیری دوشیزاؤں کی چادرعصمت تارتارکردی
ہے۔بھارتی حکمرانوں نے وادیٔ کشمیرمیں اپنے فوجی درندوں کوکھلی چھٹی دے
رکھی ہے اوران کوکشمیرکے نہتے عوام پرظلم وجوراورتشددکے پہاڑتوڑنے کیلئے
پوٹااورٹاڈاجیسے سیاہ قوانین کی چھترچھایافراہم کی ہوئی ہے جس کے تحت
بھارتی فوج کسی بھی گھرکی تلاشی لے سکتے ہیں،کسی بھی شہرکوگرفتارکرسکتے
ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بھارتی فوجی آئے روز کشمیرمیں دہشتگردوں کی تلاش کے
بہانے چھاپے مارتے رہتے ہیں اورنوجوانوں کوگرفتارکرکے جبکہ دوشیزاؤں
کوبغیروجہ بتائے اٹھاکرلے جاتے ہیں۔۔بعدازاں گرفتارنوجوانوں کانشان ہی نہیں
ملتااورنہ ہی اغواء کی گئی دوشیزاؤں کا ۔ آخر کشمیری عوام کب تک
صبرکامظاہرہ کریں گے۔عالمی برادری اس ضمن میںسیاسی مفادات کاشکارہے اورکسی
ملک میں یہ جرأت نہیں کہ وہ بھارت سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پرعمل
درآمدکامطالبہ کرے یاملنے والی اجتماعی قبروں اورلاپتہ کشمیریوں کے حوالے
سے کوئی سوال کرے۔
بھارت کی من مانی اورظلم وتشددپرمبنی پالیسیاں کب تک چلیں گی،کشمیری شہداکی
قربانیاں رائیگاں نہیں جاسکتیں۔آزادی کشمیرکی تحریک کشمیرکے نشیب وفرازسے
آگارارباب بصیرت جانتے ہیں کہ ہرسال پاکستان میں یوم یکجہتی کشمیرمقبوضہ
وادی کے حریت پسندکشمیری مجاہدین کے حصول آزادی اورتحفظ آزادی کاجذبہ دو
آتشہ کرتاہے ۔یادرہے کہ نام نہادلائن آف کنٹرول کے دونوں جانب یہ دن منانے
کاآغاز١٩٩١ء میں کیاگیاجس روزپوری پاکستانی قوم حلف اٹھاتی ہے کہ مقبوضہ
وادی سے بھارتی افواج کے انخلاء اورایک کروڑ ٢٠لاکھ مسلم عوام کی کامل
آزادی تک وہ اپنی جاں نثارانہ اورسرفروشانہ مثالی جدوجہدجاری رکھیں گے۔یہاں
اس بات کاذکربھی ازبس ضروری ہے کہ مقبوضہ وادی کے مسلم عوام کے ساتھ بھارتی
افواج نے ١٢ستمبر١٩٤٨ء سے وحشیانہ اوربہیمانہ تشددکاجوسلسلہ جاری کیاتھاوہ
١٩٨٨ء میں کشمیرمیں ایمرجنسی،ہنگامی حالات اورکالے قوانین کے نفاذ کے
بعدانتہاء کوپہنچ چکا تھا ۔تب وہ کشمیری عوام جو١٨٥٠ء سے غلامی کی سیاہ رات
کاسامناکررہے تھے ۔تنگ آمدبجنگ آمدکے مصداق سروں پرکفن باندھ کرمیدان عمل
میں اتر پڑے ۔
انہوں نے مقبوضہ کشمیرمیں قائم دہلی کٹھ پتلی حکومت کے خلاف سول نافرمانی
کی تحریک شروع کردی اوروادی کے طول وعرض میں ظلم وتشددکابازارگرم کرنے والے
بھارت کے درندہ صفت فوجوں کی چھاؤنیوں اورکانواؤں پرمسلح حملوں کی تحریک کی
داغ بیل ڈالی۔ مقبوضہ وادی سے بھارتی غاصب افواج کے قدم اکھڑتے دکھائی دے
رہے تھے۔ کشمیری مجاہدین کی تحریک آزادی ١٩٩٨ء تک بامِ عروج تک پہنچ چکی
تھی۔١٩٩٩ء میںوہ لمحہ آچکاتھاکہ اگرعالمی دباؤقبول نہ کیاجاتاتومجاہدین
مقبوضہ کشمیرکوآزادی کی دولت سے ہمکنارکرا چکے ہوتے۔ فروری ٢٠٠٨ء کوجب
ڈکٹیٹرپرویزمشرف کی حکومت مسئلہ کشمیرکوحل کیلئے بھارت پردباؤ دالنے کی
مسلمہ پالیسی سے انحراف کرچکی تھی تب جدوجہدآزادیٔ کشمیرکے رہنماء سیدعلی
گیلانی ان خیالات کے اظہارپرمجبورہوئے :''شومئی قسمت سے پاکستان کے حوالے
سے کشمیریوں کے اندرمایوسی پیداہوئی۔حکومت پاکستان کارویہ معذرت خواہانہ ہے
، ہمارے دل پاکستان کیلئے دھڑکتے ہیں،ہماری منزل پاکستان ہے،بین الاقوامی
ایجنڈاخواہ کچھ ہولیکن کشمیرکے اندرجدوجہدجاری تھی اورجاری رہے گی''۔
بحمداللہ آج کشمیریوں کی قربانی کی وجہ سے حالات مختلف ہیں اورپاکستان کے
منتخب وزیراعظم واشگاف الفاظ میں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمائت کرتے
ہوئے عالمی برادری کو آگاہ کررہے ہیں کہ اس جدوجہدکوعسکریت پسندی سے
تعبیرنہ کیاجائے۔عالمی برادری یہ جان چکی ہے کہ جنوب مشرقی ایشیامیں اس وقت
تک امن قائم نہیں ہوسکتااورنہ ہی پاکستان اوربھارت کے مابین جامع مذاکرات
کی کوششیں بارآورہوسکتی ہیں جب تک کشمیری عوام کواقوام متحدہ اورسلامتی
کونسل کی منظورشدہ قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت اورحق رائے شماری نہیں
دیاجاتا۔
کشمیرکامسئلہ ایک لاکھ سے زائدشہداکے علاوہ دیگربے شمارقربانیوں کی وجہ سے
اس وقت زندہ رہے گاجب تک یہ اپنے منطقی انجام یعنی کشمیریوں کی حق
خوداردایت کوتسلیم کرکے ان کواپنی قسمت کافیصلہ کرنے کامکمل اختیا رحاصل
نہیں ہوجاتاجس کیلئے عالمی برادری کو مزیدتاخیرکے بغیر اس کے حل کی
ناگزیرضرورت کافوری احساس کرکے اس خطے سے ایٹمی جنگ کے خطرات کوختم
کرناہوگا۔اس مسئلے کے زندہ ہونے کاسب سے بڑاثبوت یہ ہے کہ بھارت نے جموں
وکشمیرکے چھوٹے سے خطے میں سات لاکھ سے زائداپنی افواج تعینات کررکھی ہے
حالانکہ جب عراق پرامریکی اوراس کے اتحادی استعمار کی لشکرکشی عروج پرتھی
تب بھی وہاں ان کی تعدادایک لاکھ ٦٦ہزارسے زائدنہیں تھی۔مقبوضہ کشمیرمیں
کون سی جنگ ہورہی ہے جو وہاں بڑے پیمانے پرفوج تعینات ہے ؟مقبوضہ
کشمیرپرکسی بیرونی حملے کابھی کوئی خطرہ نہیں پھربھارتی حکومت کوایسی کیا
ضرورت پیش آگئی ہے کہ وہاں سات لاکھ سے زائدفوج کوتعینات رکھاجائے؟
مقبوضہ کشمیر میں اتنی بڑی فوج رکھنے کے جواب میں بھارت کااستدلال یہ ہے کہ
یہ اس کاحصہ ہے اوردوسری طرف پاکستان سے دراندازی کاخطرہ موجودرہتا
ہے۔پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں،ان دونوں کے درمیان
کبھی بھی کوئی تنازعہ خطرناک شکل اختیارکرسکتاہے۔بھارتی قیادت بھی اس سے
بخوبی واقف ہے مگراس کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ پاکستان سے دراندازی کے
باعث جموں وکشمیرمیں معاملات پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔وہ پاکستان کی طرف سے
دراندازی یاحملے کے خطرے کوہمیش بہانہ بنا کر عالمی برادری پریہ جتانے کی
کوشش کرتارہتاہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں سات لاکھ سے زائدفوجی تعینات
رکھناضروری ہی نہیں،درست بھی ہے۔ایسے میں یہ سوال پیداہوتاہے کہ اگر بھارت
کویہ شکائت ہے کہ پاکستان کی طرف سے دراندازی ہوتی رہتی ہے توپھربھارتی
قیادت ایساکیوں نہیں کرتی کہ بین الاقوامی سرحداورکنٹرول لائن کی نگرانی
اقوام متحدہ کے غیرجانبدارمبصرین کے حوالے کردے۔
بھارت نے پاکستان کی طرف سے دراندازی روکنے کیلئے کئی اقدامات کررکھے
ہیں۔ایک طرف توطویل ترین باڑلگارکھی ہے اورساتھ ہی موشنزسینسرکے ساتھ ساتھ
تھرمل امچنگ ڈیوائسزکے علاوہ الارمزبھی لگارکھے ہیں یعنی اگرکنٹرول لائن
پرکوئی معمولی سے بھی حرکت ہوتوجدیدترین آلات سے فوری پتہ چل جاتاہے۔یہ بات
بھی قابل غورہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جوزمین ہے اس پرجگہ جگہ بارودی
سرنگیں بھی بچھی ہوئی ہیں۔بھارت نے اب تک یہ کہتے ہوئے دنیاکویہ
بھرپوردھوکہ دینے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کی طرف سے لاحق خطرات کے باعث
وہ مقبوضہ کشمیرمیں بڑے پیمانے پرفوج رکھنے پرمجبورہے۔حقیقت یہ ہے کہ بھارت
کیلئے اصل خطرہ پاکستان نہیں بلکہ خود کشمیری عوام ہیں۔ کشمیری عوام کوحق
خودارادیت سے محروم رکھنے کے علاوہ ان پربے پناہ ظلم وستم کے پہاڑ توڑنے کے
بعدبھارت نے خودان کواپنادشمن بنارکھاہے۔بھارت مختلف حیلے بہانوں سے
کشمیریوںکومجبورکرتاہے کہ وہ اپنے حق خوداردایت سے دستبردارہوکربھارت کاحصہ
بن جائیںلیکن ہردفعہ اس کومنہ کی کھانی پڑتی ہے۔وہ اپنے حقوق کیلئے
ہردورمیں جدوجہداورقربانیاں دیتے چلے آرہے ہیںلیکن جب پرامن طریقے سے بات
نہ سنی گئی توپھرانہوں نے مسلح جدوجہدشروع کردی ہے۔بھارت نے اس کے جواب میں
ہٹ دھرمی کامظاہرہ کرتے ہوئے اس جدوجہدکوکچلنے کیلئے تمام ظالمانہ ہتھکنڈے
استعمال کئے ہیں لیکن کشمیریوں کے عزم میں رتی بھرفرق نہیں آیا۔
کچھ عرصہ قبل مودی نے کہاتھا:''عالمی امن کیلئے ہمیں آپس کے اختلافات
بھلاکرایک ہوجاناچاہئے،یہ بات بہت اچھی لگتی ہے مگرسوال یہ ہے کہ اس پرعمل
کون کرے گا؟ خودبھارتی برہمن کی عیاری ومکاری کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر
پرناجائزتسلط تادیرقائم نہیں رہ سکتا۔خودمودی کی جانب سے پاکستانی سفیرکی
حریت لیڈروں سے ملاقات کوبہانہ بنا کردونوں ممالک کے سیکرٹری لیول کے
مذاکرات کومنسوخ کردیاگیاجبکہ ایسی ملاقاتیں توپہلے بھی ہوتی رہی ہیںاوراس
مسئلے کے پائیدارحل کیلئے آئندہ بھی کشمیری لیڈروں کو اعتمادمیں
لیناانتہائی ضروری ہے۔نریندرمودی نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریرمیںدہشتگردی
کے خلاف ایک بین الاقوامی منشورتیارکرنے کی بات کی تھی مگراصل سوال یہ ہے
کہ برہمن جنتانے جوکچھ اب تک کشمیرمیں کیاہے کیاوہ دہشتگردی کی تعریف میں
نہیں آتا؟
نریندرمودی نے جس اقوام متحدہ سے منشورتیارکرنے کی درخواست کی ہے ،آخراسی
ادارے نے کشمیریوں کی حق خودارادیت کی قراردادیں منظورکی ہیں اوران
قراردادوں پر چاربڑی عالمی طاقتوں کے علاوہ دیگرچھ ممالک نے بطورضامن دستخط
کئے ہیں اوربھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرونے باقاعدہ اس
قراردادپرعملدرآمدکااقوام عالم سے وعدہ کیاتھا۔نریندرمودی کشمیرمیں
انتخابات کی آڑمیں جس مکروہ منصوبہ پرعمل درآمدکے خواہاں ہیں اس سے مودی
بھاجپااوربھارت ایک ایسے ایٹمی بم کودولتی مارنے جارہے ہیں جو خود بھارت
اوراس خطے کوآنِ واحدمیں بھسم کرکے رکھ دے گا! اس لئے مہاشے جی!اب یہ مکاری
نہیں چلے گی!
ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے
کبھی تم بھی سنو یہ دھرتی کیا کچھ کہتی ہے |