آئینِ ہند اورملک کابھگواکرن
(محمدشارب ضیاء رحمانی, NEWS DELHI)
دستورہندنے بلاتفریق مذہب وملت
تمام شہریوں کو ایک لڑی میں پِرودیاہے۔آئین نے ملک میں غیرمذہبی جمہوریت
قائم کی ہے یعنی ملک کاکوئی مذہب نہیں ہوگااورنہ مذہب کی بنیادپرحکومت کی
جائے گی۔مطلب یہ ہواکہ مذہبی جذبات کوٹھیس پہونچانااس آئین کی سراسرخلاف
ورزی قراردی جائے گی جس کاحلف جمہوریت کے مندرمیں لیاجاتارہاہے ۔جمہوریت کی
گرچہ آج تعریف بین الاقوامی ڈکشنری میں بدل دی گئی ہولیکن ہمارے ملک کی
سرزمین مذہبی قدروں کی رہی ہے۔یہاں کے باشندے اپنی عائلی زندگی مذہب کے
مطابق گذارتے ہیں۔لہٰذااس تکثیری سماج کیلئے ضروری تھاکہ دستورمیں اس کی
اہمیت کوتسلیم کیاجائے۔چنانچہ آئین ہندمیں مذہب کی اہمیت کاواضح اعتراف
کیاگیاہے اورکہاگیا کہ حکومت ہرمذہب کااحترام کرے گی۔اس کاسیدھاترجمہ یہی
ہواکہ نہ کسی مذہب اورنہ کسی مذہبی کتاب کی برتری کادعویٰ کیاجائے گااورنہ
اسے کسی پر تھوپاجائے گا۔ مذہبی امورمیں کسی طرح کی مداخلت نہیں کی جائے گی
۔ہرشہری کواپنے مذہب کی تبلیغ واشاعت کاپوراحق ہے۔آئین میں اقلیتوں کوبھی
مذہبی اورتمدنی آزادی دی گئی ہے،انہیں اس کاحق دیاگیاہے کہ وہ اپنی تہذیب
وتمدن کی حفاظت کیلئے تعلیمی ادارے قائم کریں۔ساتھ ہی یہ وضاحت کی گئی ہے
کہ کسی ایسی آمدنی پرٹیکس کیلئے مجبورنہیں کیاجاسکتاجومذہب کی تبلیغ وترویج
پرخرچ کی جائے۔بالفاظ دیگر مدارس ،مساجداوراوقاف کی جائیدادپرٹیکس نہیں
لگایاجاسکتا۔ شخصی آزادی کاتحفظ بھی متعدددفعات کے ذریعہ کیاگیاہے۔ہرشہری
کوتقریروتحریر،اظہاررائے اورعمل کی آزادی دی گئی ہے۔اس طرح دستورنے کوشش کی
ہے کہ تمام شہری انفرادی اوراجتماعی دونوں حیثیتوں سے جمہوریت سے
پوراپورافائدہ اٹھائیں۔
دستورہندکے دیئے گئے انہیں حقوق کوبنیادی شہری حقوق کانام دیاگیاہے جوایک
رنگارنگ اورمختلف النوع لسانی ،مذہبی اورتہذیبی ملک کی شناخت ہے۔جمہوریت
کایہی رنگ اس کی پہچان ہے اورانہیں گلہائے رنگارنگ سے زینت چمن ہے۔ لیکن
نفرت کے علمبرداروں کومحبت کے سبق کہاں یادرہ سکتے ہیں۔جن کے وجودکاپس
منظربابائے قوم کی شہادت پر ہوانہیں جمہوریت کے مندرمیں گوڈسے کی تعریف سے
ہچکچاہٹ کیونکرمحسوس ہوگی۔اسی لئے اپوزیشن کے ہنگامہ کے بعدبی جے پی لیڈرنے
معافی مانگی بھی توانتہائی رعونت بھرے اندازمیں ۔گویاجرم نہیں،کوئی قابل
فخرکارنا مہ انجام دیاہو۔یہ ذہنیت وطن عزیزکی سالمیت کیلئے خطرہ کی گھنٹی
ہے۔جب سے ’’آرایس ایس کے ایک پرچارک ‘‘ وزیراعظم بنے ہیں(یہ جملہ خودسنگھ
پریوارکاہے)ایک مخصوص طبقہ پورے جمہوری ڈھانچہ کواسی طرح منہدم کرنے کے
درپے ہے جس طرح اس نے آج سے بائیس برس قبل بابری مسجدکوشہیدکرکے اس
زہرکوپورے ملک میں سرایت کردینے کی کوشش کی تھی۔
کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ وزیراعظم اپنے روایتی سنگھی نظریہ کوچھوڑناچاہتے
ہیں۔اس ضمن میں مسلمانوں کی حب الوطنی سے متعلق ان کے بیان کوبطوردلیل پیش
کیاجارہاہے۔ لیکن یہ نہیں بھولناچاہئے کہ یہ زعفرانی رنگ بہت گہراہے ۔اس پس
منظرمیں پی ایم کی پارلیمنٹ میں پہلی تقریرکو سب واقعات اوربیانات کی
تمہیدسمجھ لیناچاہئے۔ اپنی پہلی تقریرمیں وطن عزیزمیں رواداری کی
شاندارروایت کی تاریخ کوانہوں نے اپنے ایک جملہ میں مسخ کرناچایاکہ
’’1200سال کی غلامی سے ہم نے نجات پالی ہے‘‘۔اورپھرامریکہ میں اسے فخرسے
دوہرایابھی ۔ وزیراعظم کایہ بیان آنے والے پانچ برسوں میں ملک کے تاریخی
اورسماجی بھگواکرن کی طرف واضح اشارہ تھا۔ نیزاوبامہ کے ہاتھوں میں
گیتاتھماکرانہوں نے سشماسوراج کے لئے مطالبہ کرنے کاجوازبھی پیداکرلیاجس نے
ایک نئی بحث کوجنم دے دیاہے۔ مودی کے ذریعہ تاریخی بھگواکرن کے بعدہی
جتیندرسنگھ نے دفعہ370پربیان دے ڈالا۔اس کے بعدتواس طرح کے متنازع بیانات
کاسلسلہ شروع ہوگیا۔ مینکاگاندھی، موہن بھاگوت،یوگی آدتیہ ناتھ،سادھوی
نرنجن جیوتی اورساکشی مہاراج نے اپنے لیڈرکی باتوں کوآگے بڑھایا۔کبھی لال
قلعہ پربھگواجھنڈالہرانے کی بات کہی گئی توکبھی کہاگیاکہ ملک میں پہلی
بارہندوحکومت قائم ہوئی اورحدتویہ ہوگئی کہ ملک کے ووٹروں کودوکٹیگری(حرام
زادوں اوررام زادوں) میں تقسیم کیاگیا۔
دوسری طرف مودی جی ’’سب کاساتھ سب کاوکاس‘‘ کی بات کررہے ہیں۔لال قلعہ کی
فصیل سے فسادات کوپانچ برسوں تک پیچھے چھوڑدینے ،ملک کی ہمہ جہت ترقی
اورپاک صاف سیاست اورپاک صاف حکومت کاوعدہ پی ایم نے کیاہے۔دوسری طرف انہوں
نے اپنی کابینہ میں ان لوگوں کوشامل کیا جن کے دامن صرف داغدارہی نہیں بلکہ
پورادامن گنداہے ۔اور تواورسشماسوراج جن کی شبیہ ایک صاف ستھری لیڈرکی رہی
ہے،وہ بھی موہن بھاگوت کی زبان بولنے لگی ہیں۔ادھراڈوانی جی نے بھی رامائن
اورمہابھارت پڑھنے کامشورہ دے دیاہے ۔ ان دوسنیئرلیڈروں نے طویل سیاسی
تجربہ کی بنیادپر اندازہ لگالیاہوگاکہ ان بیانات کے ذریعہ ہی پارٹی میں
اپناکچھ بھلاہوجانے کی امیدہے۔
کہناصر ف یہاں یہ ہے کہ اب وہ سب کچھ شروع ہوچکاہے جس کاخدشہ الیکشن کے وقت
ظاہرکیاجارہاتھا۔آنکھ بندکرکے یہ کہناکہ مودی نے اپنے اندرکوئی تبدیلی کرلی
ہے(خداکرے کہ ایساہی ہو)سراسرنادانی ہے۔اس سلسلہ میں دوہی پہلوہوسکتے
ہیں۔ایک یہ کہ یاتووزیراعظم اتنے کمزورہوگئے ہیں کہ بی جے پی لیڈران کی
لگام پران کی گرفت ڈھیلی پڑگئی ہے۔لیکن ایسانہیں کہاجاسکتاکیوں کہ جس حکومت
کے وزیرداخلہ اپنی مرضی سے اپنے نجی سکریٹری نہ رکھ پاتے ہوں (اور وزیراعظم
تواپنے پسندکے سکریٹری رکھنے کیلئے پارلیمنٹ میں قانون کی ترمیم
کرڈالیں)توانہیں کمزورپی ایم کیسے کہاجاسکتاہے۔ خودامت شاہ چیخ چیخ کردعویٰ
کرتے پھررہے ہیں کہ ملک کوپہلی مرتبہ ایک مضبوط وزیراعظم ملاہے۔توبات واضح
ہے کہ کچھ بھی ان کی مرضی کے خلاف نہیں ہورہاہے۔ یہی وہ مودی جی ہیں جنہوں
نے یوپی اے حکومت میں ہوئے گھوٹالوں کیلئے سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کو
دونوں آستین چڑھاکرکوکوسنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی تھی توکیاتبدیلی مذہب کے
نام پرمچی غنڈہ گردی،لوجہادکے پروپیگنڈہ کے ذریعہ ملک کے ماحول کوخراب کرنے
کی کوشش،آئین ہندکوطاق پررکھ کرگیتاکوقومی کتاب کادرجہ دینے کے مطالبہ
،راجستھان کوہندواسٹیٹ قراردینے کے اعلان ،تاج محل پر سیاست اورپورے ملک
کوفرقہ پرستی کی آگ میں جھونکنے کی رچی جانے والی سازشوں کیلئے پی ایم کیوں
ذمہ دارنہیں ہوں گے جب کہ خودان کی پارٹی کے کئی لیڈران اس میں براہ راست
ملوث ہیں۔
اوراگران چیزوں کومودی کی منظوری ملی ہوئی نہیں ہے تو یہ تسلیم کرلیناچاہئے
کہ اس وقت ایک متوازی حکومت چل رہی ہے۔ایک طرف مودی ’’سب کاساتھ اورسب
کاوکاس‘‘کانعرہ لگاتے رہیں اوردوسری طرف ہندوتواایجنڈے کے نفاذکیلئے فرقہ
پرست پوری طرح سرگرم رہیں۔یہی حکمت عملی ابھی کام کررہی ہے۔پی ایم کے
’’اپنے ہونے‘‘ پربھاگوت بریگیڈ کو فخرہی نہیں ،پوری آزادی کے ساتھ اپناکام
کرنے پراطمینان ہے۔ملک میں بڑھتی مہنگائی کاکیاحال ہے سب دیکھ رہے ہیں۔پہلے
بجٹ میں ہی ریل کے کرایہ میں اضافہ ہوگیااورسننے میں آیاہے کہ جنوری میں
ریلوے کے ایک بارپھراچھے دن آنے والے ہیں۔چیخ وپکارکرنے والے مودی نے بلیک
منی پرہاتھ کھڑے کرلئے ہیں اورانہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ کتناکالادھن
بیرون ممالک جمع ہے۔ہرشہری اپنے بینک اکاؤنٹ چیک کررہاہے کہ وہ رقم آئی
یانہیں جس کاوعدہ مودی جی نے کررکھاہے ۔خیریہ توآنے والے دنوں میں دیکھنے
کی بات ہوگی کہ صرف بی جے پی لیڈروں کے ہی اچھے دن آئیں گے یاعوام کے
بھی۔چنانچہ انتخابی حلف نامہ داخل کرنے تک توگری راج کے پاس اثاثہ کی مالیت
چندلاکھ روپئے تھی لیکن صرف ایک مہینہ کے اندرہی ان کے گھرسے ایک کروڑروپنے
چوری ہوگئے ۔بابارام دیوبھی کالادھن پر آج کل چپی سادھے ہوئے ہیں کیوں کہ
ان کے اچھے دن آگئے ہیں اورزیڈپلس سیکوریٹی وزارت داخلہ نے مرحمت فرمادی
ہے۔
مودی جی کوسمجھناچاہئے کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں گیتاکی قسم نہیں کھائی ہے
،’’بھارت کے سمودھان ‘‘کاحلف اٹھایاہے۔ملک کی ترقی صرف اسی وقت ہوسکتی ہے
جب امن وامان ہو۔اس کیلئے انہیں اپنے گرگوں کولگام لگانی ہوگی ۔وہ اب
سواکروڑعوام کے نمائندہ ہیں۔فرقہ پرست تنظیموں کے حوصلے بی جے پی حکومت میں
ساتویں آسمان پرہیں،اس سے ان کی شبیہ خراب ہوگی۔ملک کابھگواکرن جمہوریہ
ہندکی روح کے منافی ہے۔اس ذہنیت کوکیاکہئے کہ جب تبدیلی مذہب کے مسئلہ
پراپوزیشن نے حکومت کوگھیراتو پارلیمنٹ میں8 مرکزی وزیروینکیانائیڈونے یہ
بیان دیاکہ حکومت تبدیلی مذہب پرپابندی لگانے کیلئے بل لائے گی۔یہ بھی
سراسرغیرآئینی اوربنیادی شہری حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ ہرشہری کوکسی مذہب کے
قبو ل کرنے اوراس پرچلنے کاآئینی حق ہے لیکن کسی طرح کی کسی پرکوئی زبردستی
نہیں کی جائے گی۔حکومت کوان دونوں پہلوؤں سے سوچ کرفرقہ پرستوں پرشکنجہ
کسناہوگا۔خودبھی آئین کے دائرہ میں رہناہوگااوراپنے نمائندوں کوبھی قابومیں
رکھناہوگا۔اسی میں ملک کا بھلاہوگااورہندوستان جس کی شان یہی رنگارنگی
اورگنگاجمنی تہذہب ہے،ترقی کی راہ پرگامزن ہوگا۔
بابری مسجدکامعاملہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے لیکن عدالت کے حکم کوبالائے
طاق رکھ کرجس طرح بی جے پی لیڈروں( بشمول آئینی عہدہ پربراجمان یوپی کے
گورنر )کے مسلسل بیانات آرہے ہیں،اس پرعدالت کونوٹس لیناچاہئے۔یہ مسئلہ
عدالت کے حکم کے احترام کاہے اورعدلیہ کی بالادستی کاہے ۔ایک بات اورکہ اس
درمیان بی جے پی کے مسلم نمائندے حکومت کوبے قصورقراردے رہے ہیں۔ ظاہرہے کہ
ایم جے اکبرکوابھی ایک عددعہدہ کی سخت ضرورت ہے۔ گذشتہ دنوں صابرعلی نے بھی
علماء کے ساتھ میٹنگ کی۔(یہ نہیں معلوم ہوسکاکہ وہ علماء کون تھے ،ظاہرہے
کہ اس وقت حکومت کچھ مسلم چہروں کومسلمانوں کانمائندہ بتاکرپیش کرکے
اپناالوسیدھاکرنے والی ہے۔اس کے ساتھ ان بزرگوں کابھی بڑازبردست اقتصادی
فائدہ ہونے والاہے)جدیوکے مفرورلیڈرنے حکومت کے تئیں شکوک وشبہات کودورکرنے
کی کوشش کرتے ہوئے کہاکہ مودی حکومت نے مسلمانوں کے خلاف کوئی ایساکام نہیں
کیاہے جس پرسوال اٹھایاجاسکے۔ظاہرہے کہ یہ ان کے اپنے اس ضمیرکامعاملہ ہے
جس نے چھ مہینے میں فرقہ پرستوں کے اشتعال انگیزنعروں کوسننے نہیں دیا۔اپنے
اوپرلگے سنگین الزام پربھی جو ضمیرانہیں ملامت نہ کرسکا،اس سے اورکیاتوقع
رکھی جاسکتی ہے۔ایم جے اکبرہوں یاصابرعلی انہیں سمجھ لیناچاہئے کہ
مختارعباس نقوی بننے کیلئے انہیں اوربہت کچھ کرناہوگا۔آخری بات یہ کہ ایسے
وقت میں جب کہ منافرت کازہرملک کی سیکولراکثریت میں گھولنے کی کوشش ہورہی
ہے،ملی قیادت کواتحادویگانگت اوربھائی چارگی کی تحریک چلانی ہوگی اورملک کے
سامنے ہندوستانی آئین کوواضح کرناہوگاکہ آئین ہرشہری کوبرابرحقوق دیتاہے۔یہ
قابل اطمینان پہلوہے کہ ملک کی اکثریت سیکولرہے انہیں اپنے ساتھ کھڑاکرکے
اس چیلنج کامقابلہ کیاجاسکتاہے ۔ |
|