آزادیِ پاکستان یا تقسیمِ ہندوستان دراصل
ایک ہی وقوعہ کے دو نام ہیں۔ قطع نظر اس بات سے کہ اس کوکیا کہا جائے ، یہ
ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ اس واقعے کو ہندوستان کے لیڈروں نے اپنی سب سے بڑی
شکست کے طور پر بادلِ نا خواستہ تسلیم کیا تھا۔ اس زمانے کے ہندو لیڈر اور
بعد میں لیڈر بننے والی ان کی اولاد اس واقعے کو کبھی ہضم نہ کر پائے۔ اس
کو بھارتی لیڈروں کی عقل کی کمی یا حقائق سے پردہ پوشی ہی کہا جاسکتا ہے جو
اس مسلمہ تاریخی حقیقت کو تسلیم نہیں کر پائے جو مملکتِ پاکستان کی صورت
میں دنیا کے نقشے پر ابھر آء تھی۔ اس آزاد مملکت کے قیام کے پیچھے ایک پوری
قوم کی جدوجہد اور جان و مال کی وہ قربانی تھی جو اس عظیم قوم نے آزادی کی
قیمت کے طور پر ادا کی تھی۔ ہر طرح کے حربے آزمانے کے بعد بھی جب ہندو لیڈر
قیامِ پاکستان کو کسی طور نہ روک سکے تو انہو ں نے نوزائدہ ریاست کو نقصان
پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اثاثہ جات کا روکا جانا، مہاجرین کا قتل و
غارت، لوٹ مار، نہری پانی کی بندش اور صبح شام فوج کشی کے زریعے پاکستان کو
دوبارہ ہندوستان کا حصہ بنانے کی دھمکیاں چند ایسے عوامل تھے جو بھارت کی
جانب سے روا رکھے گئے ۔
بھارتی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی پوری طرح سے اپنے بزرگوں والی انتقامی
ذہنیت رکھتی تھی۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس معاملے میں وہ اپنے
باپ دادا سے دو ہاتھ بڑھ کر تھی۔ جب اندرا گاندھی کے پِتا جی پاکستان پر
قبضہ کرنے کی خواہش دل میں لیئے جہنم واصل ہوگئے اور اندرا گاندھی کو
اقتدار سنبھالنے کا موقع ملا تو اس نے پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کی
دیرینہ خواہش ہر صورت پوری کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس سلسلے میں روائتی ہندو
سازشی زہنیت کو بروئے کار لاتے ہوئے چھُپ کر فریب و سازش کے زریعے پاکستان
کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی منصوبہ بندی شروع ہوگئی۔ گھوم پھر کر بھارت
والوں کی نظر مشرقی پاکستان پر آکر ٹھہر گئی۔ اپنے مخصوص سماجی اور عوامی
خدوخال کے باعث بھارت کیلئے مغرب کی نسبت مشرقی پاکستان کو نشانہ بنانا
آسان تھا۔ مرکز سے سینکڑوں میل کی دوری بھی بھارت کے فائدے میں تھی۔ بھارت
کے فائدے کی سب سی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ مشرقی پاکستان تین اطراف سے
بھارتی سرزمین کے درمیان گھرا ہوا تھا۔ دوسری طرف پاکستان کی سیاسی قیادت
نے آپس کی نااتفاقیوں اور مفاد پرستی کے باعث اپنے آپ کو کافی قدرکمزور کر
رکھا تھا۔ اس کمزوری کے باعث بھارتی ایجنسیوں کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع
مل گیا۔ یہ امر سمجھ سے بالا تر ہے کہ بنگالی سیاست دان عقل وفہم رکھنے کے
باوجود بھی بھارتی سازشوں کا آلۂ کار کیسے بن گئے ؟ اور یہ سمجھنے سے کیوں
قاصر رہے کہ بھارت والے ان کو جو سبز باغ دکھا رہے ہیں وہ محض دھوکہ و فریب
ہیں اور بھارت والے اپنا مقصد پورا ہوتے ہی چلتے بنیں گے ۔ بھارتی
ایجینسیوں نے شیخ مجیب الرحمٰن سمیت کئی اہم سیاست دانوں اور سرکاری
اہلکاروں کو کامیابی سے اپنا آلۂِ کار بنالیا۔
پاکستان کو توڑ کر ایک الگ بنگالی ریاست بنانے کا ناپاک منصوبہ بھارت کے
شہر اگرتلہ میں تیار کیا گیا۔ 1965ء کی جنگ کے کچھ عرصہ بعد جیسے ہی اندرا
گاندھی کی حکومت بنی، بھارتی RAW اور IB کو یہ مشن سونپا گیا جس کی براہِ
راست نگرانی اندرا گاندھی اور اس کے حواری کر رہے تھے ۔ اگرتلہ شہر مشرقی
پاکستان کی سرحد سے محض دو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ اسی وجہ سے اس
منصوبے کا مرکز یہاں بنایا گیا تاکہ حسبِ ضرورت بنگالی قیادت کو یہاں بغیر
ویزہ و پاسپورٹ طلب کیا جاسکے اور کے علاوہ یہاں سے مشرقی پاکستان میں
اسلحہ اور دیگر تخریبی مواد کی ترسیل بھی بآسانی کی جا سکے ۔ اسی حوالے سے
مقامی رابطے کا کام ڈھاکہ میں قائم بھارتی سفارتخانے کے فرسٹ سیکریٹری کے
ذمہ لگایا گیا جو اس نے صفارتی سہولیات کی آڑ میں بخوبی نبھایا۔ مشرقی
پاکستان سے تعلق رکھنے والے مقامی سرکاری اہلکاروں نے بھارتی سفیر کو اس
کام کیلئے مکمل تحفظ اور سہولت فراہم کیئے رکھی۔
اس ناپاک منصوبے کو پکڑنے کا سہرا ISI کے سر جاتا ہے ۔ اس منصوبے کی پہلی
کڑی ڈھاکہ میں تعینات ISI کے انچارج کرنل کا قتل تھا۔ اس مقصد کیلئے ایسٹ
بنگال رجمنٹ کے ایک حاظر سروس افسر کو چُنا گیا جو غداروں کے ساتھ مل چکا
تھا۔ غالباً یہ تمام منصوبہ بندی جلد بازی میں کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ
قاتل اور اس کی تربیت کرنے والوں کے اناڑی پن کے باعث منصوبہ ناکام ہوگیا۔
ISI کے کرنل نے حملے میں نہ صرف اپنی جان بچالی بلکہ بھرپور تعاقب کے بعد
حملہ آور کو گرفتار بھی کر لیا۔ شروع میں یہی سمجھا گیا کہ یہ حملہ ایک سر
پھرے نوجوان نے کیا ہے جس کا مقصد شہرت اور شیخ مجیب جیسے بنگالی
سیاستدانوں کی خوشنودی حاصل کرنے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔
ISI کو ابھی تک یہ علم نہیں تھا کہ یہ منصوبہ یہاں تک محدود نہیں ہے ۔ حملہ
آور سے حاصل کی گئی معلومات کی روشنی میں جب مزید تحقیقات کی گئیں تو ہوش
اُڑا دینے والی تفصیلات سامنے آنے لگیں۔ بہت جلد ISI نے بھارتی سفارت کار
کو بے نقاب کر دیا جسے کے زریعے سے مقامی لوگوں سے رابطے کیئے جاتے تھے ۔
اس کے بعد ISI کو اس مقصد کیلئے جمع کئے گئے اسلحہ کے ذخائر اور دیگر خفیہ
مقامات تک پہنچنے میں کچھ زیادہ وقت نہیں لگا۔ یوں تو اس سازش میں بہت سے
لوگ شریک تھے مگر اس کے روحِ رواں 35 عدد سول و فوجی اہلکار تھے جو براہِ
راست شیخ مجیب کی سربراہی میں کام کر رہے تھے ۔ جبکہ شیخ مجیب کی ڈوریاں
بھارتی RAW اورIB والے ہلا رہے تھے ۔یہ پہلی مرتبہ تھی کہ آزاد بنگالی
ریاست کی خبر منظرِ عام پر آء تھی۔ مزید تفصیلات آنے پر دنیا کو پہلی مرتبہ
اس ریاست کے نام، جھنڈے ، اورقومی ترانہ وغیرہ کا پتہ چلا۔یہ تمام تفصیلات
نہائیت سنسنی خیز اور غیریقینی کی حد تک ناقابلِ یقین تھیں۔
یہاں تک تو سب ٹھیک تھا مگر صدر ایوب خان کی انتظامیہ نے اس تمام مسلئے کو
نہائیت غلط اور بے ڈھنگے انداز میں لیا۔ اس موقع پر ایک نہایت غلط فیصلہ یہ
کیا گیا کہ اس مسلۂ کو زیادہ سے زیادہ شہرت دے کر اچھالا جائے تاکہ لوگوں
کو شیخ مجیب اور اس کے ساتھیوں کی غدارانہ اور ملک دشمن سرگرمیوں کا اچھی
طرح علم ہو سکے ۔ دوسری طرف اس کیس کی سماعت کیلئے ایک عدالتی ٹریبیونل
بنایا گیا جس نے کھلی عدالت میں اس کیس کی سماعت شروع کر دی۔ بعد کے واقعات
سے یہ ثابت ہوا کہ یہ تمام نہائیت غلط فیصلے تھے ۔ ایسا کرنے سے اس تمام
قصے کو اس قدر شہرت ملی کہ بنگالی ریاست کا تصور ایک سازش سے نکل کر حقیقت
کا رخ اختیار کر گیا۔ مشرقی پاکستان کے عوام میں یہ تصور زور پکڑنے لگا
اورگرفتار شدہ افراد عزت کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے اور عوام کی جانب سے ان
افراد کی رہاء کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ اس سے قبل 1951ء میں سامنے آنے والے
راولپنڈی سازش کیس کو بالکل مختلف انداز میں سلجھایا گیا تھا۔ نہ صرف یہ کہ
اُس سارے معاملے میں مکمل رازداری سے کام لیا گیا تھا، بلکہ اس کی سماعت
بھی بند عدالت میں کی گئی تھی۔ اس رازداری کے باعث کوء عوامی ردِ عمل سامنے
نہیں آیا اور راولپنڈی سازش کے تمام ارکان کو بند عدالت میں سزائیں سنا کر
چُپ چاپ جیل بھجوا دیا گیا ۔
جبکہ اگر تلہ کے معاملے میں ناقص حکمتِ عملی کے باعث یہ سارا معاملہ فساد
اور اجتجاج میں تبدیل ہوگیا۔ رفتہ رفتہ یہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔
مشرقی پاکستان میں اسے بالکل بے بنیاد اور بنگال کے اعلیٰ لیڈروں کو بدنام
کرنے کی مغربی پاکستان کی سازش قرار دیا جانے لگا۔ نظر بند افراد کی رہاء
کیلئے بھی عوامی زور بڑھتا چلا گیا۔ حفاظت کے پیشِ نظر تمام نظر بند افراد
کو ڈھاکہ سینٹرل جیل سے ڈھاکہ چھاؤنی منتقل کر دیا گیا۔ پھر ایک روز مشتعل
عوام نے اس اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس پر حملہ کردیا جہاں اس ٹریبیونل کی سماعت کرنے
والے جسٹس اے آر رحمٰن قیام پذیر تھے ۔ محترم جج صاحب نے بمشکل اپنے بیرے
کے کواٹر میں چھپ کرجان بچاء۔ اس کے بعد وہ فوراً اگلی پرواز سے لاہور چلے
آئے ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایوب خان کی حکومت زوال پذیر تھی اور امورِ
سلطنت تیزی سے ان کے ہاتھ سے نکل رہے تھے ۔ عوامی و سیاسی دباؤ میں آکر
انہوں نے اس کیس کو ختم کرنے کا فیصلہ کر دیا۔ چنانچہ، 23 فروری 1969 کو
شیخ مجیب سمیت تمام ملزمان کو رہا کر دیا گیا۔ ان افراد کو ڈھاکہ کے ریس
کورس میدان میں ایک بڑی عوامی تقریب میں وہ پذیراء دی گئی کہ وہ آناً فاناً
ملزم سے عوامی ہیرو بن گئے ۔ شیخ مجیب نے اس موقع پر ایک نہائیت شعلہ بیان
تقریر کر کے عوم کے دل جیت لیئے ۔
ان ملزمان میں ایک کیپٹن سخاوت بھی تھے جو بعد میں سیاستدان بن گئے اور
بنگلہ دیش کی پارلیمان کے اسپیکر بھی رہے ۔ انہوں نے 2010ء میں یہ تسلیم
کیا کہ ان تمام افراد پر اگرتلہ سازش کے حوالے سے لگائے جانے والے تمام
الزامات بالکل درست تھے اور وہ لوگ واقعء شیخ مجیب کی زیرِ قیادت اس مقصد
کیلئے کام کر رہے تھے ۔
بہرحال، قطع نظر اس بات سے کہ اس کیس کو غلط انداز میں چلایا گیا، اس حقیقت
سے کوء انکار نہیں ہے کہ دراصل 23 فروری 1969ء ہی وہ بدقسمت دن تھا جب
پاکستان کی قسمت میں ٹوٹنا اور بنگلہ دیش کا بننا لکھا گیا تھا۔
پاکستان کو توڑ کر بنگلہ دیش بنانے کا منصوبہ بھارتی شہر اگرتلہ میں
بھارتیRAW اور IB نے بنایا تھا۔ اندرا گاندھی اور اس کے حواری اس منصوبے کی
ذاتی نگرانی کر رہے تھے ۔ |