سنا ہے بہت سستا ہے خون وہاں کا
ایک بستی جسے لوگ پاکستان کہتےہیں
دل دکھ سے پھٹ گیا کلیجہ چھلنی ہو گیا۔سانحہ پشاور نے ہر آنکھ اشکبار کر دی
ہر دل کو غم سے نڈھال کر دیا پوری قوم کیا پوری دنیا سوگوار ،شہر شہر نماز
جنازہ ،سرکاری عمارتوں پر سر نگوں پرچم اور سنسان سڑکیں بھی ماتم منا رہیں
ہوں جیسے ۔ کسی کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں تو کسی کے پاس بہت کچھ۔ ۔ ١٤٨جانیں
دہشت گردی کی نظر ہو گئں یا سیات کی یہ ایک الگ سوال ہے۔ کسی نے واقعے کی
مزمت کی تو کسی نے مزمت سے انکار کیا لیکن کیا کسی کے مزمت کرنے یا نا کرنے
سے ان ماؤں کے جگر گوشےانہیں واپس مل سکتے ہیں ؟ نہیں ان والدین کے دکھ کو
کوئ نہیں محسوس کر سکتاجنھوں نے اپنی نھنی کلیوں کو اپنے ھاتھوں سے دفنایا
ہے۔ اگر وہ معصوم فرشتے دہشت گردی کی نظر ھوے جنہیں اسلام کے ٹھکیدار جہاد
کہتے ہیں تو کیا ان معصوموں کی قربانی رائگاں جائے گی ؟ اسلام کے نام پر
بچوں کے خون سےہولی کھیلنے والےمسلمان ہو ہی نہیں سکتے۔اسلام تو ہمیں بچوں
پر شفقت کا درس دیتا ہےہمارے پیارے نبی صلی لله علیہ وآلہ وسلم جن کے لیے
دنیا بنی وہ جب جنگ کے لیے تشریف لے جاتے تو صحابہ کو نصیحت کرتے کہ عورتوں
اور بچوں کوکچھ مت کہنا بلکہ انہیں تحفظ دیتے۔عورتوں کو زندہ جلانے والے
اور بچوں کو خون میں نہلانے والے کون سے اسلام کا پرچار کر رہے ہیں۔ اور
اگر وہ ننھی کلیاں سیاست کی نظر ہوئیں تو وہ دن دور نہیں جب قہر الہی کا
نزول ہو گا اور اقتدار کی قبریں بنیں گی۔ کیونکہ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ
ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے۔تو ضرب عضب کے جاری ہونے پر حساس اداروں کو
تحفظات کیوں نہیں فراہم کیا گیا۔۔ خدارا یہ جانیں سستی نہیں ہیں جو کیڑے
مکوڑوں کی طرح مسل دی گئں یہ مائیں جنہوں نے اپنے لخت جگر کھوئے ہیں اگر آج
بھی ان کو انصاف نہ ملاتو حکمران تیار رہیں ان ماؤں کی آہیں اور سسکیاں ان
کا تختہ الٹ سکتی ہیں ۔ انصاف تو ہو گا اور ضرور ہو گا اب وقت یہ بتانے کا
ہے کہ یہ ارض وطن خون نہیں پیتی بلکہ خون پینے والوں کو خون کے آنسو رلاتی
ہے۔ اب یہ سمجھنا ہو گا کہ یہ کون لوگ ہیں جو ہم ہی میں رہ کر ہمارے گھروں
کو اجاڑ رہے ہیں ہماری نسلوں کو ختم کرنے پر تلے ہیں ان سے مقابلہ تو اب
کرنا ہو گا
میرے شہر میں میری نسل کو لوٹنے والو
پتہ ہے کس طرح بیٹا جوان ہوتا ہے |