سانحہ پشاور۔پاک افغان بارڈرسیل کرنابھی ضروری ہے

وطن عزیزپاکستان کو درپیش بنیادی چیلنجوں میںدہشت گردی بھی شامل ہے، قومی سلامتی پر اس کے مضمرات واضح ہیں، جن سے صرف نظرکرنے کی وجہ سے ہی پشاورجیسے الم ناک،اندہ ناک ،جگرپاش ودل خراش سانحے وقوع پذیرہوتے ہیں،لہذا پاکستان کے مستقبل کے لیے زیادہ نتیجہ خیز اسٹریٹیجک پالیسیوں کابراہ راست تعلق ان چیلینجزسے ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اندرونی چیلنجز کئی طریقوں سے پاکستان کے بیرونی ماحول سے بھی منسلک ہیں، اس لیے کہ ایک پرامن پڑوس پاکستان کے لیے انتہائی ضروری ہے تاکہ بیرونی محاذسے یک سوہوکر ملکی مسائل کو حل کرنے پر توجہ دی جاسکے۔ بدقسمتی سے پاکستان کوافغانستان اوربھارت کی طرف مسلسل خطرات کاسامناہے۔ دونوں محاذ پائیدار سیکورٹی مخمصوں کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان کئی سالوں سے دو محاذوں پر الجھنے سے بچنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔امریکی محور بھی پاکستان کے سیکورٹی چیلنجوں کے لیے کافی نتیجہ خیز ہے۔

برطانوی ویب سائٹ ٹویٹر پر ملٹی نیوز پی کے نامی اکانٹ نے اپنے ٹویٹ میں دعوی کیا ہے کہ سیکورٹی فورسز نے پشاور میں آرمی اسکول پر دہشتگرد حملے کے ماسٹر مائنڈ کو تلاش کرلیا ۔بھارتی قومی سلامتی کے مشیر، انٹیلی جنس افسر اجیت دوول پشاور حملے کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔ایک اوررپورٹ کے مطابق پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کی منصوبہ بندی پاک افغان سرحدی علاقے میں ہوئی۔ان رپورٹوں سے بھی معلوم ہوتاہے کہ ہمیں بھارت اورافغانستان کے حوالے سے چوکس رہناہوگا۔

بھارت توہے ہی ہماراازلی دشمن،جہاں تک افغانستان کاتعلق ہے تواسے ہم نے خودہی اپنادشمن بنارکھاہے۔کیوں کہ جب سے افغانستان میں امارت اسلامیہ کاسقوط ہواہے،ہماری مغر بی پٹی حالت جنگ میں ہے،پھرشمال میں اپنوں کی بے تدبیری سے جوآگ لگی ہوئی ہے ،اس نے اس معاملے کی حساسیت میں مزیداضافہ کردیاہے،بدنام زمانہ ڈکٹیٹرکی جانب سے ایک فون کال کے نتیجے میں ملک کے ہوائی اڈے دشمن کودینے اوراس کی جنگ کودرامدکرنے سے ملک میں دہشت گردی میں اضافہ ہی نہیں ہوا،بلکہ ہماری مغربی سرحدبھی نہ صرف غیرمحفوظ ہوکررہ گئی ،بلکہ افغانستان میں بھارت نوازحکومت کے قیام سے ہمارے دشمن بھارت کوایک طاقت ورحامی اورہمیں ایک ایسے دشمن سے سابقہ پڑگیا،جوآستین کے سانپ کی طرح ہمارے دشمنوں کونہ صرف پناہ دے رہاہے ،بلکہ ان کے لیے ایک محفوظ کمین گاہ بھی بن گیاہے،کہ وہ وہاں سے جب چاہیں حملہ کردیں۔سانحہ پشاورکے بعدآرمی چیف کے افغانستان کے ہنگامی دورے اوراشرف غنی سے دشمن کی حوالگی کے مطالبے سے اس تاثرکومزیدتقویت ملی ہے۔

افغان صدر اشرف غنی کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران سیکورٹی اور معاشی تعاون کی بحالی کا قابل ذکر مثبت آغاز ہوا اور سیکورٹی، تجارت اور ترقیاتی تعاون کے امور کے ایک سلسلے پر تیزی سے سمجھوتے ہوئے ،سیکورٹی مکالمے کا ایک کلیدی عنصر یہ سمجھوتابھی تھا کہ دونوں ممالک اپنی اپنی سرزمین کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے،اس حوالے سے معاہدے کو امیدکی کرن سمجھاجارہاتھا،تاہم سانحہ پشاورنے تمام خوش فہمیوں کوفضامیں تحلیل کرکے رکھ دیا۔ایک بارپھرافغان صدر اشرف غنی نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، ایساف کمانڈر جان ایف کیمبل نے بھی آرمی چیف کو اپنے دائرہ اختیار میں آنے والے علاقوں میں دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے،اللہ کرے افغانستان کی بھارت نوازحکومت اپنے وعدے وفابھی کرے۔

غیروں کی جنگ کواپنی جنگ سمجھنے اورنام نہادانسداددہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ میں اتحادی بننے ہی کی وجہ سے آج ملک میں یہ عدم استحکام ہے،ملک کے باسی انھی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی فوج کے مقابل آئے ،جس کاملک دشمن قوتوں نے بھرپورفائدہ اٹھایا،جن میں بھارت ،اسرائیل اورافغانستان سرفہرست ہیں،ان دشمن ممالک کے تشکیل کردہ ''طالبان''کی حقیقت ماضی میں بھی کئی باران کے جسموں پرکھدے ٹیٹوکے نشانات ،ان کے غیرمختون ہونے جیسے ناقابل تردیددلائل سے سامنے آچکی ہے۔نوبت بایں جارسیدکہ اب اچھے برے طالبان کی تمیزختم ہوکروطن عزیزمیں لفظ''طالبان''دہشت گردی کااستعارا بن چکاہے،جس کاعلاج اب مذاکرات کے حامی سیاست دان بھی آپریشن ہی کوتجویزکررہے ہیں اورقائدجمعیت مدبرسیاست دان مولانافضل الرحمن نے بھی فرمادیاہے کہ علاج کارگرنہ ہوتونشترہی لگایاجاتاہے۔آپریشن ضرب عضب کے ثمرات سے انکارنہیں ،تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اصل ملزمان کی ایک بڑی تعدادافغانستان اوردیگرممالک کوفرارہوچکی ہے،جسے واپس لائے اورکیفرکردارتک پہنچائے بغیرشایدمکمل امن کی گارنٹی نہ دی جاسکے،اس لیے کیاہی اچھاہوتاکہ ہماری سیاسی وعسکری قیادت سزائے موت کی بحالی کے ساتھ ساتھ پاک افغان بارڈرسیل کرنے کابھی اعلان کردیتی۔ہمارے سیکورٹی ادارے اس با ت سے بہ خوبی آگاہ ہیں کہ افغانستان میں ہی دہشت گردپناہ لیے ہوئے ہیں اورجب چاہتے ہیں اپنامکروہ کھیل کھیل کرفرارہوجاتے ہیں۔


سانحہ پشاورکے حوالے سے قوم یک آوازہے۔رات کے اندھیرے سے صبح کی روشنی پیداکرنے والے رب نے اس شرسے ایک خیریہ بھی پیدافرمائی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تمام قومی جماعتیں بھی اپنے اختلافات بھلاکر متحدہوچکی ہیں،بے مقصددھرنوں سے بھی قوم کونجات مل چکی ہے اورامیدہے کہ معصوم طلبہ کی قربانی کی برکت سے وطن عزیزمیں پائیدارقیام امن کی کوئی سبیل نکل آئے گی،ایسے میں چندموسمی بٹیرے اس واقعے کی آڑ میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف مہم جوئی میں مصروف ہیں،محب وطن مذہبی ودینی جماعتوںکے خلاف اپناپرانابغض ظاہرکرکے موقعے سے فائدہ اٹھانے کے درپے ہیں،جوایک طرف توسیاسی مجرموں کی پھانسی کی صورت میں ملک جام کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں تودوسری طرف محب وطن دینی جماعتوں کوالقاعدہ،طالبان ولشکرجھنگوی کے ساتھ ملانے پرمصر ہے۔یوںاپنے آقاؤں کی نمک حلالی کرتے ہوئے قوم کے حکومت وپاک فوج پرغیرمتزلزل اعتمادکوتباہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ان شاء اللہ وہ اس مکروہ مقصدمیں کام یاب نہیں ہوں گے۔وہ دن دورنہیں ،جب آرمی پبلک اسکول پشاورمیں فرعون کے نقش قدم پرچل کرقوم کے مستقبل کے معمارننھے منے بچوںکے خون کی ہولی کھیلنے ،ادھ کھلے گلابوں کوپیروں تلے مسل ڈالنے اورظلم وسربریت کی سیاہ ترین تاریخ رقم کرنے والوں کے پالیسی ساز،مالی معاون،ماسٹرمائنڈ،تھنگ ٹینک اورپشتی بان وبہی خواہ اپنے بدترین انجام سے دوچارہوں گے،آہ!وہ پھول جو اپنی لطافت کی دادپانہ سکے اوربن کھلے مرجھا گئے،وہ پھول جنھوں نے ابھی پائلٹ، ڈاکٹر، صحافی، سیاستدان، انجینئر، فوجی، بینکار بن کر اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنی تھی، وہ بچے جن کی ماؤں نے ان کے سہرے کے پھول دیکھنے تھے، سب منوں مٹی تلے جا سوئے۔میرارب غیورہے،اس کے ہاں دیرہے اندھیرنہیں ،وہ ان کے معصوم خون کابدلہ اس دنیامیں ہی لے گاورضرورلے گا۔ان شاء اللہ!


آمدم برسرمطلب،دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہماری عسکری وسیاسی قیادت نے کئی ہنگامی اقدامت کیے ہیں ،جولایق تحسین ہیں ،تاہم صرف سزائے موت سے پابندی اٹھالیناکافی نہیں ،بلکہ اس کے بلاامتیازنفاذکی بھی ضرورت ہے۔اسی طرح افغانستان سے مجرموں کی حوالگی کے مطالبے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ بلاتاخیرپاک افغان بارڈرسیل کردیاجائے،تاکہ آیندہ کسی قسم کی دراندازی کاخطرہ نہ رہے۔اس صورت میں معاشی نقصان سے انکارنہیں ،لیکن اہ ل وطن کی جانیں اس سے زیادہ عزیزہیں۔کاش!ڈرون حملوں میںبے گناہ انسانوں کی قربانی پیش کرکے ڈالرسمیٹنے والے حکمرانوں کویہ بات سمجھ میں آجائے۔

 M Jehan Yaqob
About the Author: M Jehan Yaqob Read More Articles by M Jehan Yaqob: 2 Articles with 1295 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.