ایک بار پھر دہشت گردوں نے آرمی
سکول پشاور میں بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا ڈالاوحشی درندوں اور
ناسوروں کی طرف سے معصوم بچوں پر یہ کوئی پہلا حملہ نہیں تھابلکہ اس سے قبل
بھی وہ کئی بار ہمارے پھولوں کو مسل چکے ہیں ان حیوانوں کے ظلم سے ہماری
عبادت گاہوں سے لیکرتعلیمی درسگاہوں تک ،بسوں ویگنوں سے لیکر ہوائی جہازوں
تک ،فٹ پاتھوں سے لیکر جلسے جلوسوں تک ،قبرستانوں ،درگاہوں اور درباروں سے
لیکر شادی ہالوں تک اور این جی اوز کے دفاتر سے لیکر جی ایچ کیو تک کوئی
بھی جگہ محفوظ نہیں رہی جہاں وہ چاہتے ہیں وہی پر دہشت گردی کی کاروائی
کرڈالتے ہیں جسے ہم ان دہشت گردوں کی بزدلانہ کاروائی کہتے ہیں تو کبھی اسے
بربریت کا نام دے دیتے ہیں جب بھی پاکستان کے کسی بھی شہر میں ایسی کوئی
کاروائی ہوتی ہے تو حکومت میں موجود وزیر اعظم سے لیکر ایک مقامی تھانے میں
بیٹھا ہوا منشی تک یہ بیان جاری کردیتا ہے کہ ہم ان دہشت گردوں سے آہنی
ہاتھوں سے نمٹیں گے ہمیں اس دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہوئے تقریبا 20سال
ہونے کے قریب ہیں مگر ان 20سالوں میں کسی بھی حکمران نے ان دہشت گردوں سے
آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی کوشش کرنا تو درکنار اپنے گوشت پوست کے ہاتھوں سے
بھی لڑنے کی زحمت گوارا نہیں کی بلکہ آج تک ہوتا تو یہی آیا ہے کہ جیسے
جیسے ملک میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں اضافہ ہوا ویسے ویسے ہی ہمارے
حکمرانوں انکے بچوں اور انکے حواریوں کی سیکیورٹی مزید سخت ہوتی گئی ایک
گارڈ کے ساتھ نکلنے والا سیاستدان اب پورے پروٹوکول کے ساتھ باہر نکلتا ہے
رہی بات حکمران طبقے کی ان کے لیے تو سینکڑوں گاڑیوں کا قافلہ انکی حفاظت
کے لیے سات چلتا ہے اور سڑکوں کو مکمل بند کردیا جاتا ہے جن کے ووٹوں سے یہ
سیاستدان حکمران بنتے ہیں بعد میں پھر انہی ووٹروں کو مرنے اور مارنے کے
لیے آزاد چھوڑ دیتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے ملک میں جمہوریت اور حکومت
نام کی کوئی چیز نہیں ہے جسکے ہاتھ میں ڈنڈا ہے اسی نے سب کو آگے لگایا ہوا
ہے ایک طرف خیبر پختون خواہ کی پوری حکومت احتجاجی دھرنوں اور جلسے جلوسوں
میں مصروف ہے تو دوسری طرف حکومت انہیں سبق سکھانے پر اپنا پورا زور لگا
رہی ہے ملکی معیشت کا جنازہ پچھلے پانچ سالوں میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے
نکال دیا تھا جو رہی سہی کسر باقی تھی وہ موجودہ حکومت پوری کرنے میں دل
وجان سے کوشش کررہی ہے ملک کا سارا نظام درہم برہم ہوچکا ہے ایک طرف عوام
بھوک ،افلاس اور غربت سے تنگ آئے خود کشیاں کرنے میں مصروف ہیں تو دوسری
طرف دہشت گرد ہمیں تباہ برباد کرنے میں لگے ہوئے اس وقت ملک میں خوشحال
طبقہ صرف وہی ہے جو دیہاڑی باز ہے کسی نہ کسی طریقے سے انہوں نے اپنا الو
سیدھا کررکھا ہے انہیں نہ تو غریب عوام سے ہمدردی ہے اور نہ ہی ملک کے ساتھ
کوئی حب الوطنی کا چکر ہے رہی سہی کسر ہمارے سیکیورٹی کے اداروں جن میں
پولیس اور انٹیلی جنس اداروں نے پوری کررکھی ہے جن کی اکثریت ایسے افسران
پر مشتمل ہے جو مختلف صحافیوں اور انکی رپورٹوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوتے
ہیں ہمارے ان اداروں کی کارکردگی بہت اعلی رہتی اگر ان میں سیاسی بھرتیاں
اور سیاسی اثرو رسوخ نہ ہوتا یہی وجہ ہے کہ آج ان سیاستدانوں کی وجہ سے
ہمارے ہر ادارے کا برا حال ہو چکا ہے کہیں کوئی کام کا آدمی نہیں ہے اگر ہے
تو اسے کام کرنے نہیں دیا جاتا بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گذرنے
والی گذشتہ نصف نے ہماری تربیت ہی ایسے کردی ہے کہ ہم لوٹ مار کا کوئی بھی
موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور ہر جانے والے دن کے ساتھ ہی ہم اپنی
قدریں بھی کھو رہے ہیں ملک اس وقت عجیب قسم کی صورتحال سے گذر رہا ہے ایک
طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہے تو دوسری طرف لوٹ مار کرنے والے للچائی ہوئی
نظروں سے لوٹ مار کرنے والوں کی طرف دیکھ رہے ہیں یہاں موقعہ ملنے کی آس
میں سبھی انتظار کررہے ہیں کہ شائد کسی نہ کسی طرف سے ایک صاف ستھری اور
لمبی دیہاڑی لگ جائے تو پھر باقی کی زندگی سکون سے گذر جائیگی ہر انسان
اپنی ضروریات کو پوری کرنے کے چکر میں پہلے اپنی خواہشوں کا گلہ گھونٹ رہا
تھا اب اس نے دوسروں کا گلا دبانا شروع کردیا ہے صنعت کار طبقہ مزدوروں کا
خون پی رہا ہے اور شوگر مل مافیا ہمارے غریب کسانوں کا رس نکال رہا ہے اور
رہ گئی حکمران طبقے کی بات وہ نہ تو کسی کی بات سنتے ہیں اور نہ ہی کسی کو
قریب آنے دیتے ہیں جو انکے قریب ہیں وہ صرف انکی ہاں میں ہاں ملانے والے
ہیں کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرینگے تو پھر انکی وزارت اور مشاورت خطرے میں
پڑ جائیگی گذرنے والے ہر دن کا اگر ہم موازنہ کریں اور دنیا میں ترقی کی
رفتار دیکھیں تو ہماری آنکھیں کھل جائیں گی کہ ہم تو ترقی یافتہ قوموں سے
صدیوں پیچھے ہیں اور یہ فاصلہ دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے کیونکہ ہمارے
حکمرانوں نے ہمیں جس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے اسکی تو کوئی منزل
ہی نہیں ہے اور خود ہمارے لیڈروں نے اپنی آنے والی نسلوں کو بھی حکمرانی کے
لیے تیار کرلیا ہے رہ گئی بات عوام کی وہ اور انکی نسلیں اپنی مدد آپ کے
تحت بچ جائیں تو غازی دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ جائیں تو پھر شہید۔ |