جِس ٹی۔ وی ٹاک شو کو دیکھیں اور
جو بھی خبر اخبار پڑھ لیں ہر کوی جمہوریت پر بحث ومباحث کرتا نظر آتا ہے ۔اب
تو یہ عالم ہے کہ عوام کو جمہوریت کا لفظ سُن سُن کر اُکتاہٹ سی محسوس ہونے
لگی ہے ،میں تو حیران ہوں اِن ٹی۔وی ٹاک شوز میں صرف اُن حضرات کو ہی کیوں
مدعو کیا جاتا ہے جن کا جمہوریت کی روح کو سمجھنا تو درکنار وہ تو جمہوریت
کی الف ب سے بھی آشنا نہیں ہیں اور ماسؤاے بھڑکیں مارنے کے کہ جمہوریت کو
ڈی۔ریل نہیں ہونے دیں گے،جمہوریت کی خاطر قربان ہونا پڑا تو بھی دریغ نہیں
کریں گے اورکوئی اِنکوکام ہی نہیں ۔میں نے کچھ عرصہ قبل اپنے ایک کالم میں
لکھا تھا کہ جمہوریت کے لیے عوام کا پڑھا لکھا ، با شعور اور عقل مند ہونا
لازم ہے ۔ورنہ اِس کی مثال ایسے ہے جیسے میٹھی کھیر کی ایک دیگ بندروں کے
آگے رکھ دیں اور پھر دیکھیں کہ وہ ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
کل میں ایک ایسے درخت کے پاس سے گزرا جو ایک سال قبل بڑا سایہ دار اور سر
سبز و شاداب تھا لیکن آج بیمار ،ذرد اور پت جھڑ کے عالم میں ۔وہ اِس لیے کہ
اِسپر امر بیل کا راج تھا ۔اِن تاروں کی خاصیت یہ تھی کہ اِنہوں نے اپنی
جڑیں درخت کے تنے اور ٹہنیوں میں پیوست کر رکھی تھیں اور درخت کی خوراک یہ
تاریں چوس رہی تھیں اور پورے درخت کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا ۔یہ سب کچھ
دیکھ کر مجھے تو پاکستانی جمہوریت کے پودے پر یہ بھڑکیں مار نے و الے
سیاستدان دکھائی دینے لگے-
جمہوریت جمہور سے اور جمہور یہ عوام ،جو اپنے بنیادی حقوق کی تلاش میں اِس
اندھیر نگری میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور جمہوریت کی شمع تو جلنے کا نام ہی
نہیں لیتی ۔آفریں جمہوریت کے اُن علمبرداروں پر ’’کہ فرات کے کنارے اگر
بھوک سے ایک کتا بھی مر گیا تو مجھے اﷲ کی عدالت میں اُس کا بھی جواب دہ
ہونا پڑے گا ‘‘ لیکن جمہوریہ پاکستان میں کتے تو درکنار یہاں تو انسانیت
فاقوں سے لُقمہ اجل بن رہی ہے ۔تھر کے حالات سے کون واقف نہیں معصوم بچے
بھوک سے بلک بلک کر موت کی آغوش میں جا رہے ہیں،دو وقت کی روٹی کے لیے با
پر دہ خواتین بھیک مانگنے پر مجبور ہیں، سفیدپوش طبقہ حالات پر ماتم کناں
ہے ،تعلیم یافتہ نوجوان چوریاں اور ڈکیٹیاں کرنے پر مجبور ہیں، ننھے بچے
چمکدار گاڑیوں کے شیشوں کے ساتھ ہاتھ پھیلائے چمٹے ہوئے ہیں عصمت فروشی کی
منڈیاں لگی ہوئی ہیں ۔ٹاک شوز میں بھڑکیں مارنے والے کِس جمہوریت کی بات کر
رہے ہیں ؟؟واہ بھئی واہ ۔’’جمہوریت کو ڈی۔ریل نہیں ہونے دیں گے‘‘جمہوریت
نام کی تو کوئی چیز ہے ہی نہیں اگر ہے تو بتائیں ۔
محض جمہوریت کا لفظ پڑھ لینے یا لکھ لینے سے جمہوریت نہیں آتی ۔یہ تو ایک
نظام کا نام ہے جس کی اساس عدل و انصاف ہے اور اخلا قیات اِس نیلم پری کے
پر ہیں اور پروں کے بغیر پری کو پری کہنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے
۔جمہوریت میں عوام کے بنیادی حقوق روٹی ،کپڑا،مکان،تعلیم وغیرہ بزمہ ریاست
ہوتے ہیں اگر تو عوام کو انکے بنیادی حقوق ریاست پورے کر رہی ہے تو ٹی وی
ٹاک شوز میں بھڑکیں مارنے والوں کے ساتھ میں بھی شریکِ نعرہ ہوتا ہوں کہ ہم
جمہوریت کو ڈی ۔ریل نہیں ہونے دیں گے۔
بلاشبہ جمہوریت ایک بہترین نظام ہے او دنیا بھر میں اَسی فیصد ممالک میں
حکومتیں اِسی نظام کے تابع ہیں لوگوں کے بنیادی حقوق اور اُن کے جان و مال
کے تحفظ کی وہ حکومتیں پاسبان ہیں ۔اُنکی جمہوریت میں عدل و انصاف کا نظام
کار فر ما ہے ۔محکموں میں چیک اینڈ بیلنس اور اکاونٹیبلٹی کا نظام متحرک ہے
۔اپنے پڑوس کی جمہوریت کو دیکھ کر تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے کیسی خو بصورت
جمہوریت کہ محض وزیر یا آفیسر یا کسی فوجی جرنیل پر اِدھر کر پشن کا الزام
ہی لگتا ہے تو اُدھر وہ فوراََمستعفی ہو کر اپنے آپ کو قانون کی عدالت میں
پیش کر دیتا ہے وہاں تو کرپشن ثابت ہونے پر وزراء اور فوجی جرنیلوں کو
سزائیں بھی ہوئی ہیں لیکن ہماری جمہوریت تو گھمن گھیریوں میں ،جس کی لاٹھی
اُس کی بھینس ،پیسے لگاؤ دھاندلی کرو ،الیکشن جیتو ،مار دھاڑ کرو ،دونو ں
دونوں ہاتھوں سے خوب لوٹو، عوام کو آپس میں لڑاؤ مرواؤ اور خود عیش کرو۔
اگر تو عوام کی حالتِ زارو نزع ہی جمہوریت ہے تو پھر کوئی پاگل اور احمق ہی
ہو گا جو اِس کے دیدار کا منتظر ہو ، یہ کیسی جمہوریت جو اخلاقیات سے
مُبّراکہ اسلمبیوں میں گالی گلوچ ،ایک دوسرے کے لیے ڈاکو ،چور ،بدمعاش، لچا
لفنگا،کمی کمین اور مسلّی کے الفاظ اور کئی قسم کے غلیظ طعنے۔آپس میں
گریبان پکڑنا تو در کنار گھونسوں،مکوں اور لاتوں کی بھرمار ۔پھر جونہی پارا
نارمل ہوتا ہے تو عقل کے اندھے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو جمہوریت کاحُسن ہے
۔اگر تو جمہوریت کا یہی حُسن ہے تو پھر شیخ رشید اور عمران خان کی باتیں
اِنکو کیوں چبھتی ہیں ؟وہ تو جمہوریت کے اِس حُسن کو چارچاند لگا رہے ہیں
۔کیوں پھر مقدمات اُنکے خلاف درج ہوتے ہیں؟مجھے تو ڈر ہے کہ اگر بھڑکیں
مارنے والے اپنی اِس روش پر قائم و دائم رہے اور ظلم و بربریت و ناانصافی
کی اِس مورتی کو جمہوریت سمجھ کر سجدے کرتے رہے تو وہ وقت دور نہیں کہ
اقتدار کے ایوانوں میں ایسے ارکانِ پارلیمنٹ داخل ہوں گے جنکے ہاتھوں میں
کاشنکوفز ہوں گی اور وہ کہیں گے کہ مرنا مارنا تو جمہوریت کا حُسن ہے۔ |