کچھ دنوں سے میں حویلی میں قائم
ہونے والے نئے اتحاد کی خبریں اخبارات میں پڑھ رہا ہوں اور حویلی کے لوگوں
کی معصومیت اوربے کسی پر ترس بھی آرہا ہے۔ اتحاد کو دیکھ کر خوب ہنسی بھی
آتی ہے کہ ذاتی مفادات اور پروجیکشن کے لیے انسان کس حد تک جا سکتا ہے اور
پھر کس حد تک واپس پاتال کی طرف ’’گر‘‘ سکتا ہے۔مجھے نئے سیاسی اتحاد
پرکوئی اعتراض نہیں لیکن سوا ل یہ ہے کہ کیا یہ اتحاد عوامی فلاح و بہبود
،علاقے کی تعمیر و ترقی،انصاف کی فراہمی،میرٹ اور قانون کی بالا دستی
،برادری ازم کا خاتمہ ،شہریوں کے بنیادی حقوق انکی دہلیز تک پہنچانے،کرپش
لوٹ مار اور تھانہ کچہری کلچر کے خاتمے کے لیے بنا ہے ؟جس کا جواب صرف اور
صرف ’’نہیں‘‘ میں ملے گا۔میں آپکو ماضی میں زیادہ دور نہیں لے کر جاؤں گا
آپ صرف 2006 سے سوچنا شروع کریں اور آج تک کے سارے سیاسی،معاشرتی حالات
کُھل کر آپ کے سامنے آ جائیں گے اور آپ بھی خوب ہنسیں گے،پھر اپنے آپ کو
کوسیں گے۔پھر خوب ہنسیں گے اور پھر اس دن پر روئیں گے جس دن آپکا ناطہ
حویلی سے جڑا تھا۔میں پہلے بھی عرض کر چُکا ہوں کہ مجھے سابق سنیئر وزیر
چوہدری محمد عزیز اور علماء اور مشائخ کی سیٹ کی حسرت دل میں لیے پہلے کشاں
کشاں پیپلز پارٹی پھر مسلم لیگ ن میں شامل ہونے والے اور چوہدری محمد عزیز
کے غرور کا جن نکالنے کے دعویدار پیر سید علی رضا بخاری کے اتحاد پر کوئی
اعتراض نہیں۔ آزاد کشمیر کی موجودہ نااہل حکومت کے خلاف اتحاد وقت کی ضرورت
ہے۔تاہم اس اتحاد سے پہلے چوہدری محمد عزیز صاحب اور سید علی رضا بخاری
صاحب کی سابقہ تقاریر بھی ملاحظہ فرمائیں۔۔۔
چوہدری محمد عزیز صاحب کی تقریر کا ریکارڈ موجود ہے جس میں انھوں نے کہا
تھا کہ کہ علی رضا بخاری اسمگلر ہے ،لوگوں سے نیاز کے پیسے بٹور کرعیاشی
کرتا ہے،زلزلہ متاثرین کے نام پر پوری دنیا سے فنڈز اکھٹے کر کے اپنی
عیاشیوں پر صرف کرتا ہے ،متاثرین کے نام پرکروڑوں روپے ڈکار گیا ہے ۔ اب ہم
پیٹ چیر کر وہ پیسہ نکالیں گے اور حق داروں تک پہنچائیں گے وغیرہ
وغیرہ۔۔۔میں وہ الفاظ یہاں تحریر نہیں کر سکتا کیونکہ پیر صاحب کے گھرانے
کے ساتھ بڑا احترام کا رشتہ ہے بالخصوص علی رضا بخاری صاحب کے والد محترم
کے ساتھ انتہائی عقیدت اور احترام کا رشتہ ہے لیکن میں چوہدری صاحب کی
تقریر کا مفہوم ضرور لکھوں گا جس میں انھوں نے علی رضا بخاری صاحب کے متعلق
فرمایا تھا کہ انکے عمامے اور نمازوں پر مت جانا یہ اسلام ،مذہب،دین کا
لبادہ اوڑہ کر لوگوں کو بیوقوف بناتے اور اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرتے
ہیں۔میرا چوہدری صاحب سے یہ سوال ہے کہ کیا علی رضا بخاری صاحب نے اسمگلنگ
بند کر دی ہے ؟ وہ کون سا طریقہ اختیار کیا گیا کہ بغیر پیٹ چیرے ہڑپ کیا
ہوا مال نکال لیا گیا ہے؟اور اب وہ مال کدھر خرچ ہو گا حق دار تو آج بھی
محروم ہیں جن کی محرومی کے درد کی مروڑ آپ سب کے پیٹ میں ہے لیکن اُس کا
علاج نہ آپ کے پاس ہے نہ موجودہ کرپٹ اور نااہل حکومت کے پاس۔علی رضا بخاری
صاحب کی تقریر بھی موجود ہے کہ چوہدری عزیز غاصب ہے جس نے دس سال عوام کا
استحصال کیا ،برادری ازم کو پروان چڑھایا،تعمیر و ترقی کے نام پر کروڑوں
روپے کی کرپشن کی،زلزلہ متاثرین کے معاوضہ جات ہڑپ کئے اور ساتھ ہی ساتھ
متاثرین کی رضایاں ٹینٹ،اور شمسی توانائی والے چولہے تک ہڑ پ کر گیا،ایرا
اور این جی اوز اور بیرونی امداد سے بنی ہوئی سرکاری عمارتوں پر اپنے نام
کی تختیاں لگاکر سیاست چمکائی، عوام کے پیسے سے اپنی اور اپنے حواریوں کی
تجوریاں بھریں ہیں،نااہل اور جعلی سندیں حاصل کرنے والوں کو سرکاری
ملازمتیں دیں اور چھوٹی برادریوں کا استحصال کیا ۔ اب ہم سب مل کر چوہدری
عزیز کا جن نکالیں گے۔تختیاں لگانے والوں کی اب سختیاں شروع ہو چکی ہیں۔یہ
ا لفاظ میرے نہیں بلکہ علی رضا بخاری صاحب کے ہیں اور انکی تقاریر کی وڈیوز
موجود ہیں۔علی رضا بخاری صاحب سے میرا یہ سوال ہے کہ کیا چوہدری محمد عزیز
اب غاصب نہیں رہے اور مستقبل میں کیا ان سے ایسی توقع نہیں ہے؟کیا آج
برادری ازم کا پرچار ختم ہو گیا ہے ؟کیازلزلہ متاثرین کا معاوضہ واپس
متاثرین کو مل گیا؟کیا متاثرین کی لوٹی ہوئی ریلیف واپس ملی ؟کیا جعلی
اسناد پر سرکاری ملازمت حاصل کرنے والے نااہل لوگ برطرف ہو گئے اور انکی
جگہ اہل لوگ تعینات ہو گئے؟کیا چوہدری عزیز صاحب اور انکے حواریوں نے جو
تجوریاں بھریں تھی وہ خالی کر کے عوام کا پیسہ واپس انکو لوٹا دیا گیا
ہے؟اگر ان سب سوالوں کا جواب ہاں ہے تو پھر اتحاد پر مبارک باد قبول کیجئے
لیکن اگر ان سارے سوالوں کا جواب نہیں ہے تو پھر اس اتحاد کو کیا نام دیا
جائے؟آپ کا پرانا پاسبان اتحاد یا کچھ اور؟۔مجھے اتحاد پر کوئی اعتراض نہیں
عوامی فلاح و بہبود اور علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیے آزاد کشمیر کی موجودہ
کرپٹ اور نااہل حکومت کے خلاف اتحاد بہت ضروری ہے مگر کیا یہ اتحاد عوامی
فلاح و بہبود اور حلقے کی تعمیر و ترقی کے لیے بنا ہے؟ اس سوال کا جواب
ظاہر ہے کہ نہیں میں ہے ۔اور ہاں کہیں ایسا تو نہیں کہ چوہدری عزیز صاحب کا
جن نکالتے نکالتے وہ جن اب آپ کے ساتھ بھی چمٹ گیا ہے اور یہ رسمی اتحاد
کرنے پر مجبور کر رہا ہے ۔اب لوگوں کو بھی اپنی عقل کو ہاتھ مارنا چاہئے
اور سوچنا چاہئے کہ کیا ان میں سے کسی ایک نے کبھی یکساں نظامِ تعلیم کے
لیے احتجاج کیا ؟ جواب ہوگا’’ نہیں ‘‘۔کیا ان میں سے کسی ایک نے بھی آج تک
پٹواری اورتھانیدارانہ کلچر کے خلاف آواز بلند کی؟ جواب ہو گا نہیں۔کیا ان
میں سے کسی ایک نے بھی آج تک صحت کی سہولیات کے لیے احتجاج کیا؟ جواب ہو گا
نہیں۔کیا ان میں سے کسی ایک نے بھی آج تک تعلیمی اداروں کی عمارتیں جو بھوت
بنگلوں کا منظر پیش کر رہی ہیں کی تعمیریا مرمتی کے لیے کوئی اقدام اٹھایا؟
جواب ہو گا نہیں۔کیا ان میں سے کسی ایک نے بھی آج تک عوام کا معیار زندگی
بلند کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بنایا یا عوام کے سامنے یا حکومت کے سامنے
پیش کیا ؟جواب ہو گا نہیں۔کیاان میں سے کسی ایک نے بھی چھانجل ہائیڈل پاور
پراجیکٹ کی تکمیل کے لیے آواز بلند کی جو گزشتہ پچیس سالوں سے التواء اور
کرپشن کا شکار ہے ؟ جواب ہو گا نہیں ۔کیا ان میں سے کسی ایک نے بھی کبھی
حویلی کے واحد ہسپتال کے لیے اکلوتی ایمبولینس جو باغ میں وزیر صحت سردار
قمر الزمان نے دبا رکھی ہے کے لیے احتجاج کیا ؟جواب ہو گا نہیں۔کیاان میں
سے کسی ایک نے بھی آج تک کبھی جنگلات کی غیر قانونی اور بے دریغ کٹائی کو
رکوانے کے لیے کو ئی اقدام کیا؟ جواب ہو گا نہیں۔کیا ان میں سے کسی ایک نے
بھی آج تک تھانہ کچہری کلچر کو روکنے اور عوام کی اس سے جان چھڑانے کے لیے
عملی طورپر کوئی کام کیا ؟جواب ہو گا نہیں۔کیا ان میں سے کسی ایک نے بھی آج
تک محکمہ تعلیم کو غیر سیاسی کرنے کے لیے اور اساتذہ کی حاضری کو سو فیصد
یقینی بنانے کے لیے کوئی آواز اٹھائی؟جواب ہو گا نہیں۔کیا ان میں سے کسی
ایک نے بھی آج تک حویلی کے واحد اکلوتے گرلز ڈگری کالج کے یونیورسٹی کے
ساتھ الحاق کے لیے کوئی احتجاج کیا کسی پلیٹ فارم سے کوئی آواز بلند کی
کوئی پریس کانفرنس کی؟کوئی کمیٹی تشکیل دی ؟جواب ہو گا نہیں۔کیا ان میں سے
کسی ایک نے بھی آج تک کبھی اس بات پر احتجاج کیا کہ موجودہ حکومت کے حواری
پیسے لیکر نااہل اور کرپٹ لوگوں کو سرکاری محکموں میں بھرتی کر رہے ہیں ؟اس
کی روک تھام کے لیے کوئی قدم اٹھایا ؟جواب ہو گا نہیں اور بالکل نہیں۔اگر
ان تمام سوالوں کا جواب نہیں ہے تو پھر عوام یہ جان لیں کہ یہ اتحاد اور
ملن ذاتی مفا دات کے لیے ہے یہ احتجاج صرف اور صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ
ہے۔اور عوام کو بھکاری بنانے کی ایک سازش ہے جو کہ اکتوبر 2005سے ہو رہی ہے
اور ہمارے سیاستدان اور لیڈر حکومت اور اپوزیشن اس سازش میں کامیاب
ہیں۔عوامی اور مجموعی مفادات کے لیے ان میں سے کوئی بھی احتجاج نہیں کرتا
خواہ وہ کسی بھی پارٹی سے ہو۔حکومتی پارٹی ہو یا اپوزیشن پارٹی کرپشن پر
انکا مُک مُکا ہو جاتا ہے اور عوام کو پتہ ہی نہیں چلتا ۔یہ سب سیاسی لوگ
احتجاج اس جگہ کرتے ہیں جہاں انہیں کرپشن سے حصہ نہیں ملتا جہاں لوگوں کو
مفت میں پیسے ملتے ہوں وہاں انکا احتجاج شروع ہو جاتا ہے عوام کے درد کے
مروڑے ان کے پیٹ میں پڑنے لگتے ہیں اور جو نہی کرپشن سے حصہ بقدر جثہ انکو
مل جاتا ہے یہ سب اپنے اپنے گھروں کی راہ لیتے ہیں کوئی راولپنڈی اسلام
آباد میں اور کوئی مظفر آباد میں شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ زندگی گزار رہا
ہوتاہے ۔وہاں انکوحویلی کے عوام کے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں نظر نہیں
آتیں۔ اب بھی اگر عوام کی آنکھیں نہیں کھلتیں تو چوہدری عزیز صاحب ،علی
رضابخاری صاحب آ پکو پاسبان حقوق حویلی جیسا یہ اتحاد مبارک ہو۔اور عوام
کومستقبل قریب میں موجودہ حکومت جیسی ایک اور لولی لنگڑی اور استحصالی
حکومت کی ایڈوانس میں مبارک باد قبول ہو۔ |