بشیر احمد بلور شہید اوراختلاف در اختلاف

22دسمبر2012ء کوعوامی نیشنل پارٹی کے دلیر رہنما ء بشیر احمد بلور شہید ہوئے تو16 دسمبر 2014ء پشاور کے ایک اسکول میں سقوط پاکستان کے المیے کے دن سینکڑوں معصوم بچوں کو ماؤں کی گود سے چھین کر قبر کی آغوش میں اتار دیا گیا ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناقابل تلافی نقصان پہنچا آج بھی یہی کہا جاتا ہے کہ پشاور میں صرف دو شخصیات ایسی تھی جو دہشت گردی کے ہر واقعے پر سیکورٹی اداروں سے پہلے پہنچ جایا کرتے تھے ۔بشیر احمد بلور شہید اور غازی میاں افتخار حسین ۔۔بشیر احمد بلور شہید کا سیاسی کردار کیا تھا اور اے این پی کے حوالے سے ان کی کیا خدمات تھیں اس پر لکھنے والوں نے بہت کچھ لکھا ، بولنے والوں نے بہت کچھ کہا ، سننے والوں نے آنکھیں بند کرکے خوب سنا ہوگا اور کہا جاتا رہے گا۔ لیکن کسی نے اَن کی اس بات پر توجہ نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں سب کو متحد ہونا ہوگا ۔ یہ جنگ شمالی مغربی سرحدوں سے نکل کر کراچی کے سمندر تک پہنچ چکی ہے، سالوں سے جاری دہشت گردی کی اس جنگ میں ہزاروں شہیدوں کی قربانی کے باوجود اب بھی سیاسی و مذہبی جماعتیں یکجا نہیں ہوئی تو پھر پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس بات کا یقین تھا کہ دلیر بشیر احمد بلور شہید جس طرح دہشتگردی کے خلاف فرنٹ لائن پر ہیں انھیں شہادت کا رتبہ ضرور ملے گا ۔ اسی طرح مجھیآج بھی یقین ہے کہ قوم میں یہ سیاسی و مذہبی جماعتیں پھوٹ ڈالتی رہیں تو پھولوں کے شہر میں کبھی کوئی پھول خوشبو نہیں دے سکے گا میاں افتخار حسین اب بھی آپ کو اکیلے ہی ہر کاروائی پرتعزیت کے لئے جاناہوگا۔ اکلوتا بیٹا کھو کر بھی پایہ استقامت میں کوئی کمی نہیں آنے دی لیکن بشیر احمد بلور شہید کے جانے کے بعد آپ کو ہی نہیں بلکہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والے کے لواحقین کو بھی بشیر احمد بلور شہید کی بہت یاد ستا رہی ہوگی لیکن اب سینکڑوں شہیدوں کے دکھ میں مدوا بننے کیلئے جاتے جاتے آپ کہیں تھک تو نہیں گئے۔ بشیر احمد بلور شہید کے جنازے میں سیکورٹی کے جس طرح انتظامات کئے گئے تھے ایسے دیکھ کر یقین ہوگیا کہ پشاور ہی نہیں بلکہ پورا پاکستان غیر محفوظ ہے ۔ دہشت گردی کیا ہے ؟ دہشت کیسے کہتے ہیں ؟ ".خوف و ہراس اور وحشت کی فضا پیدا کرکے عدم تحفظ کا احساس پیداکرنا "۔ جس میں مٹھی بھر دہشتگرد کامیاب ہوجاتے ہیں۔اور انھیں کامیاب بنانے کے لئے سیاسی ، مذہبی اور سماجی جماعتوں سمیت حکومت کا مکمل تعاون رہا ہے، کیونکہ ان کے اپنے اقتدار کی ہوس نے تمام حساس اداروں کی توجہ دھرنوں اور احتجاجوں کی جانب مبذول کردی ، اوردہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوئی قوم کو متفق نہیں کرسکا ، کوئی سونامی خان بن گیا تو کوئی طالبان کا سہولت کار ، کسی نے طالبان کا نام لیا تو کسی نے امریکہ کا ، کسی نے دہشت گردوں کو شہید کہا تو کسی نے شہیدوں کو دہشت گرد، جو بچ گیا اس نے بھارت کو آڑے ہاتھوں لیا تو کسی کی تان، داغستان ، کرغستان ، تاجک یا روس پر جا اٹکی ، شمالی مغربی سرحدیں غیر محفوظ ہوئیں تو بلوچستان غیر اعلانی طور پر الگ ہوچکا ہے اور حکومت کی رٹ قائم نہیں ہورہی ، بلوچستان غلط پالیسیوں کے سببعلیحدگی کے دہانے پر کھڑا ہے ، آہ ، میرے مولا ، کیسا منظر تھا کہ ایک جانب پاکستانی فوج کے سربراہ اور وزیر اعلی بلوچستان بلوچ جوانوں کی پاسنگ آٗوٹ پریڈ مییں بلوچ جوانوں پر فخر کر رہے تھے اور اعلی کارکردگی ریکروٹس کے حوصلے بلند اور اعزات دے رہے تھے تو دوسری جانب ملک و مسلم دشمن دہشت گرد معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیل رہے تھے انھیں شہادتیں دے رہے تھے، ، سینکڑوں معصوم تڑپتے لاشے زمین پر پڑے تھے کوئی کرسی کے پیچھے چھپ رہا تھا تو کوئی میز کے عقب میں ، لیکن موت ان کے تعاقب میں تھی اور دوسری جانب سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا ایک دوسرے کے خلاف الزمات کا سلسلہ جاری تھا۔ یہ سلسلہ یہیں پر تھما نظر نہیں آتا، پاکستان کے نامعلوم ہاتھوں نے بلوچستان ، خیبر پختونخوا ، سندھ اورکراچی میں خود ساختہ ریاستوں کے قیام کی جانب سے ایسی اصلاحات کیں جا رہی ہیں کہ بہت جلد وہاں سے بھی علیحدگی کی آوازیں اٹھانا شروع ہوجائیں گی۔پاکستان کا اولین مسئلہ دہشت گردی کا خاتمہ ہے لیکن اس کے بجائے سب اپنے اپنے فروعی ایجنڈے پر عمل پیرا کروانے کے لئے سردھڑکی بازی لگا رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح بشیر احمد بلور شہید ہونے کے باوجود بھی دہشت گردی کیخلاف سب کو یکجا کرنے میں ناکام ہوگئے اور جان قربان کرگئے ،یہ سینکڑوں معصوم شہید و زخمی بچے بھی ان سیاسی جماعتوں کو اکھٹا کرنے میں ناکام ہو جائیں گے۔حیرت ناک طور پر تمام سیاسی،مذہبی جماعتوں نے اتنے بڑے سانحے سے بھی سبق نہیں حاصل نہیں کیا اور اس کا عبرت ناک مظاہرہ صرف مذمتی بیانات اور سوگ کے نام پر دنیا کو بے وقوف بنانے کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔۔۔ ملک بھر میں سوگ کے اعلان کے باوجود ملک بھر میں شہری زندگی رواں دواں رہی تو سب سے بڑی اہم بات بناسپتی سیاست دانوں کی منطقیں تھیں جس میں انتخابی حوالے سے آئین کی تمام شقوں کی تفسیر تو بیان کردیتے ہیں لیکن انتہا پسندی اوردہشت گردی کے ذمے داروں کے خلاف لب کشائی سے گریز کی راہ اختیار کرتے ہیں ۔ نام نہاد گول میز کانفرنسوں میں باہمی اتحاد کے اختلاف میں اندرونی و بیرونی ایجنسیوں کا ہاتھ نہیں ہے لیکن یہ نہیں بتا یا جاتاکہ ڈرون حملوں ، افغانستان سے در اندازی ، بلوچستان میں مداخلت ،کراچی بد امنی، خیبر پختونخوا میں کن عناصر کا ہاتھ ہے ۔ تمام زور کس بات کیلئے ہے ایسے سمجھنے سے کوئی قاصر نہیں کیونکہ عوام تو سب جانتی ہے کہ انھیں کس قسم کے نمایندوں کو منتخب کرنا چاہیے لیکن جب وہ اس سسٹم کو توڑ نا ہی نہیں چاہتے تو پھرکروڑوں روپے خرچ کرکے کس کے ایجنڈے پر عمل در آمد کروانے کی کوشش کی جارہی ہے۔الیکڑونک میڈیا نے تو حق ادا کردیا کہ جس قدر اشتہارات ملے اس کا نمک بھی ادا کرنا تھا ۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ دھرنے بازوں کو نئے پاکستان بنانے کی اتنی فکر ہے کہ جس صوبے نے ایسے امن کے نام پر مینڈیٹ دیا اس کے ذمے داران رقص و سرور کی محافل سے ہی فرصت حاصل کرنے کو تیار نہیں، حکومت بھی تفریح کے اتنے مواقع میسر ہونے کے باوجود اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کرے کیونکہ وہ بھی جانتی ہے کہ عوام بے وقوف ہیں یا پھر یہ وہی ـ"فرشتے "تو نہیں جو عوام کی مرضی کے بغیر ووٹ ڈال جاتے ہیں۔یہ فرشتے صرف انتخابی دنوں میں نظر آتے ہیں اور پاکستان کے تمام مشکوک انتخابات میں اپنا بھر پور کردار ادا کرکے چلے جاتے ہیں۔جاگیرداری ، سرمایہ داری ،وڈیرانہ اور کوانین نطام کے خلاف سب آواز اٹھاتے ہیں لیکن ان کی اپنی صفیں ان ہی فصلی بیٹروں سے بھری ہوتی ہیں۔ روٹی کپڑا مکان کے لئے پیپلزپارٹی سے بڑھ کر کس نے آواز اٹھائی ہوگی ۔ مسلم لیگ الف سے لیکر ی تک بنتی چلی گئی قائد اعظم کا پاکستان نہیں بنا سکی ،تحریک انصاف ،طالبان خان سے سونامی خان بن گئی ، پھر بزدل خان بن گئے لیکن بدلے تو صرف نہ بدلے ، پاکستانی عوام نہیں بدلے۔ دہشت گردی کے روک تھام کے نام اپوزیشن جماعتوں آئندہ الیکشن میں قوم کی ہمدردریاں ضرور حاصل ہوجائیں گی لیکن باد النظر نہیں لگتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑنے والے سپہ سالاروں کی شہادتوں کے بعد کسی جماعت کو اپنی پالیسی تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس ہو اور جو فصل کے بیج ماضی میں لگائے گئے تھے اس کی کاٹنے کے پختونوں کی مزید خون کی قربانی دینے سے باز آجائے۔ہم بہ حیثیت پاکستان قوم واحدہ نہیں بلکہ منتشر قوم ہیں۔ قوم کے جذبات سے اور معصوم بچوں کے خون سے کھیلنے والے لوگ آتے رہیں گے ، عوام کو بے وقوف بناتے رہیں گے ہم بے وقوف بنتے رہیں گے ۔ا قتدار اور کرسی بچانے کیلئے یہ پتلی تماشہ کیوں ہورہا ہے اس کی صاف وجہ یہی نظر آتی ہے کہ کیسی بھی طور پر بیرونی نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کی جائے۔جب دہشت گردی کے خلاف قوم میں اختلاف در اختلاف ہو تو اس کا واضح مطلب ہے کہ احساس کی رمق تک موجود نہیں ہے ، ریاست بچاؤ یا سیاست بچاؤ ، گو نواز گو یا رو عمران رو کرتے جاؤ ، دہشت گرد ، کربلا برپا کرتے چلے جائیں گے ، نوحے مائیں ، بہنیں کریں گے ، ماتم باپ اور بھائی کریں گے۔ کوئی کچھ نہیں کریگا۔۔ لیکن خدا کے واسطے ۔۔بے گناہ عوام آپ اپنے آپ کو ہی تختہ مشق بنانے سے بچاؤ۔۔ !! تم کب یکجا ہوگے ، آخر کب ؟؟؟؟
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744170 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.