کپتان کے ۱۲۶ دنوں کا احتجاج۔ واپسی دانشمندانہ اقدام

کپتان کا دھرنا اور احتجاجی جلسے پلان ’سی‘ کے مطابق فیصل آباد اور کراچی کے بعد تختِ لاہور کی بنیادوں کو ہلانے کے بعد ابھی پوری طرح اپنے گھروں کو پہنچا بھی نہ تھا کہ ۱۶ دسمبر کا خونی دن آن پہنچا ۔دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پشاور کے معصوم اور بے گناہ بچوں کو اپنی دہشت اور بربریت کا نشانہ بناتے ہوئے آگ اور خون میں نہلا دیا۔ عمران خان نے دانشمندی کا عملی ثبوت دیتے ہوئے اپنے۱۲۶ دن کا دھرنا اور احتجاج کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اختلاف اپنی جگہ دہشت گردی کے خلاف سب کو متحد ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے اتحاد کو وقت کی ضرورت قراردیااور حکومت سے تعاون کرنے کا اعلان کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب قومی سطح کے لیڈروں کے فیصلے اس کی حقیقی تصویر پیش کرتے وہی ہوا کہ عمران نے یہ فیصلہ کرکے خود کو غیر ذمہ دار سیاست داں کی بجائے قابل اعتبار قومی رہنما ثابت کیا۔انہوں نے اپنا سیاسی قد بڑھا لیا، اس فیصلے نے انہیں سیاسی سطح پر قد آور سیاست دان بنا دیا۔ لاہور کے احتجاج کے بعد تحریک انصاف اور حکومتی نمائندوں کے مابین مذاکرات تو شروع ہوچکے تھے لیکن دونوں جانب کے سیاسی لیڈروں کی بیان بازی یہ اشارہ دے رہی تھی کہ معاملہ اس قدر گھمبیر ہوچکا ہے کہ حکومت کسی بھی طور پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور کپتان محاز پر ڈٹے رہنے پر ہر صورت میں تیار ہے۔ حکومتی وزیروں کے بیانات سے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے محاز آرائی اور ٹکراؤ کے اندیشے ظاہر ہورہے تھے۔

اچانک ۴۸ گھنٹوں میں نیا پاکستان وجود میں آگیا۔ ۱۵ دسمبر صبح سے شام تک کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے محسو س ہورہا تھا کہ مذاکراتی عمل دنیا دکھا واہے۔ لیکن تختِ لاہور میں کپتان کے احتجاج کے دوسرے روز دہشت گردوں نے آرمی پبلک سکول و کالج میں جو خون کی ہولی کھیلی اس کے نتیجے میں کپتان نے دھرنا ختم کرنے اور احتجاج ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا ۔ کپتان کی اس حکمت علمی کو ہر محبِ وطن نے سراہا اور اسے ملک و قوم کے عظیم تر مفاد میں تصور کیا۔یہ واقعہ تھا ہی اس قدر درد ناک کے اس کے بعد ملک میں اتحاد و اتفاق کی ضرورت لازم ہوگئی تھی۔ دہشت گردوں کے اس عمل نے ان لوگوں کو بھی اپنی زبان کھولنے پر مجبور کر دیا جودہشت گردوں کے معاملے میں مصلحت کا شکار تھے۔ ملک کی ایک سیاسی اور مذہبی جماعت کے رہنما مولانا فضل الرحمٰن نے واضع طور پر کہا کہ ’نونہالوں کو خون آلود مستقبل دینے پر ہم شرمندہ ہیں۔ معصوم بچوں کے لہو سے ہولی کھیلنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ طالبان نے مذاکرات کا راستہ بند کردیا اس طرز عمل کو جہاد نہیں کہا جاسکتا ۔ انہوں نے کہا کہ قومی یکجہتی سے ہی بچوں کے خون کا حق ادا کرسکتے ہیں۔ سفاک قاتلوں نے ہمارے بچوں کو چھین لیا، سانحہ پشاور تاریخ کا سیاہ ترین واقعہ ہے‘۔مولانا صاحب نے دو ٹوک الفاظ میں دہشت گردی کی مذمت کی ۔ ملک کے تمام سیاسی جماعتوں نے بھی اس مکروہ فعل کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ جماعت اسلامی جو طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے نے اس واقعہ پر انتہائی دکھ اور افسو س کااظہار کیا۔ البتہ مولونا عبد العزیر لال مسجد کے سابق خطیب واحد ایسے فرد ہیں جنہوں نے اس درد ناک واقعہ پر طالبان کا دفاع کیا۔ عثمان احسان نے اپنے مضمون ’مسجد ضرار سے لال مسجد تک‘ میں مولانا عزیز کے اس نفرت انگیز بیان پر اپنے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ’ یہ ملا عزیز صاحب جو بڑے ٹیپوسلطان بنے پھرتے ہیں برقع پہن کر فرار ہوتے ہوئے پکڑے گئے اور غازی بن گئے جیسے دوارکا کا قلعہ فتح کرکے لوٹے ہوں۔ ملاجی کی جان تو بچ گئی مگر عزت و آبرو کا جنازہ نکل گیا۔ موصوف مولوی عبدالعزیز سے مولوی برقع بن گئے یہ برقع قبرتک ان کا پیچھا نہ چھوڑے‘۔ مولانا کے اس طرز عمل کو کسی بھی با شعور شخص نے اچھا نہیں سمجھااور اس کی کھلے الفاظ میں مذمت کی۔

بات نئے پاکستان کی شروع کی تھی کہ ۴۸ گھنٹوں میں پاکستان کی فضاء کیسے تبدیل ہوگئی۔ کہاں تو دو سیاسی قوتیں آمنے سامنے تھیں۔ تیر و نشتر چلائے جارہے تھے۔حکمراں جماعت اور ان کے اتحادیوں و حمائیتیوں کے نذدیک عمران خان اور تحریک انصاف پاکستان دشمن تھی ، عمران خان یہودیوں کے ایجنٹ تھے کہاں ایک ہی رات میں سب کچھ بدل گیامعروف تجزیہ نگار ہارون رشید کے مطابق’آرمی پبلک اسکول پشاور میں معصوم بچوں کا قتلِ عام کا واقعہ تو یاایسا المناک اور سنگین ہے کہ پاکستانی قوم کا اندازِفکر بدل گیا ، ترجیحات ہی تبدیل ہوگیں‘۔ عمران خان نے اپنا تمام تر احتجاجی پروگرام منسوخ کر دیا۔ حالات کا تقاضہ یہی تھا کہ ایسا کیا جاتا، عمران نے یہ فیصلہ کرکے انتہائی دانشمندی کا ثبوت دیا اور نواز شریف نے عمران کو جو اہمیت اور مقام دیا جس کے وہ مستحق تھے ایک اچھا قدم ہے۔دوسری جانب وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے عمران خان کے فیصلوں کی تعریف کرتے ہوئے انہیں سیاسی جماعتوں کی میٹنگ میں اہمیت دے کر ثابت کردیا کہ وہ بھی ملک و قوم کے مفاد کو مقدم رکھتے ہیں۔

کپتان اور تحریک انصا ف مخالفت میں بڑے بڑے لکھنے والے بھی نا جانے کہا ں سے کہا ں نکل جاتے ہیں اس کی ایک مثال عطا ء الحق قاسمی صاحب کی ہے جو پاکستان کے ایک محترم اور سینئر کالم نگار ، شاعر وادیب ہیں۔ بڑے اخبار میں ہفتہ میں کئی کئی کالم تحریری فرماتے ہیں ان کا مقام اپنی جگہ لیکن ان کے کالموں میں نوازشریف سے چاہت اور قربت کا عنصر غالب ہوتا ہے یا یوں کہیے کہ وہ پکے نوازیے ہیں۔ اس حوالے سے ان سے اختلاف کیا جانا کوئی بری بات نہیں۔ انہوں نے اپنے کالم’ فاشسٹ جماعت بمقابلہ جمہوری جماعت‘یہ کالم ۱۵ دسمبر روز نامہ جنگ میں شائع ہوا۔آ پ نے عمران خان کو فاشسٹ اور ان کی جماعت تحریک انصاف کو ایک غیر سیاسی جماعت قرار دیا اور لکھا کہ’ یہ ان غیر مہذب افراد کا ایک ٹولہ ہے جس کے لیڈر نے جھوٹ ،بہتان، گالی، تشدت اور دھونس ایسے گناہوں کو اپنا وتیرہ اور اسے معاشرے میں عام کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔جنہیں صرف دینی طبقے ہی نہیں ، سیکولر اور دہریئے طبقے بھی گناہ عظیم میں شمار کرتے ہیں اس جماعت کے بدزبان اور بد لگام لوگو ں کی اس روش کے خلاف آواز سے سے پہلے میں نے اٹھائی تھی‘۔جہاں تک لب ولہجہ اور زبان کا تعلق ہے تو نواز شریف کے وزراء پرویز رشید، سعد رفیق ، عابد شیر علی اپنی گفتگو میں پھول نہیں اگلے ان کی گفتگو بھی سب نے سنی ہے اور ریکارڈ پر موجود ہے۔ شکر ہے قاسمی صاحب نے عمران کے اس اقدام کی کہ عمران نے نواز شریف کی بلائی گئی ایمر جنسی میٹنگ میں شرکت کو تعریف کی نظر سے دیکھا آپ نے اپنے کالم ’مذہبی شدت پسندی (۱) ‘ شائع شدہ ۱۹ دسمبر میں لکھا ’وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے سانحہ پشاور کے پس منظر میں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے جتنے کم وقت میں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا ہے اور عمران خان اور جماعت اسلامی سمیت تمام سیاسی قائدین(سبحان اﷲ عمران خان سیاسی قائد بن گئے اور تحریک انصاف فاشسٹ جماعت سے سیاسی جماعت بن گئی ) نے جس طرح بلا حیل وحجت وزیر اعظم کی آواز پر لبیک کہا ، اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے‘۔ بہت خوب ! اب عمران خان سیاسی قائد بھی بن گئے اور ان کی جماعت سیاسی جماعت بھی بن گئی۔ رہا سوال اس بات کا یہ میٹنگ نوازشریف صاحب نے بلائی ، بے شک ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس درد ناک واقعہ پر عوامی ردِ عمل اس قدر شدت اختیار کرگیا اور ہونا بھی چاہیے تھا کہ وزیر اعظم صاحب کے پاس کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں بچا تھا۔ کچھ بھی صحیح یہ اقدام قابل تعریف اور لائق تحسین ہے۔

کپتان نے وقت ، حالات اور موقع کی نذاکت کو دیکھتے ہوئے جو فیصلہ کیاحالانکہ اس فیصلے کی اس کی اپنی پارٹی میں کچھ مخالفت بھی تھی لیکن اس ردِ عمل کے باوجود عمران خان نے اپنے سیاسی لائحہ عمل کو تبدیل کرتے ہوئے حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ۔ اس کے اس فیصلے کو عوام کے ہر طبقہ ہائے فکر نے سراہا اور اسے درست قراردیا۔تمام تر مخالفت، سیاسی رنجش اور مخالفت اپنی جگہ ملک اور قوم پر کڑا وقت آئے ، قوم مشکل میں ہوتو عقل مندی کا تقاضہ یہی ہے کہ اپنے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ملک و قوم کے مفاد میں کام کیا جائے۔ ایک سمجھدار، قوم کا درد رکھنے والا، ملک کے مفاد میں سوچنے ولا قومی لیڈر وہی ہوتا ہے جو ملک وقوم کے مفاد کو ہمیشہ مقدم رکھے ۔ اپنے ذاتی، اصولی یا پارٹی کے مفادات کو قومی مفادات پر قربان کردے۔

۱۶ دسمبر کے درد ناک واقعہ نے پاکستان کے عوام کو ہی نہیں بلکہ دنیا کے عوام کو ھلا کر رکھ دیا۔ہر شخص اس نتیجے پر پہنچا کہ اب اتحاد و اتفاق سے ہی دہشت گردی سے نمٹا جاسکتا ہے۔وزیر اعظم پاکستان میاں نوازشریف نے گورنر ہاوس پشاور میں پاکستان کی پارلیمانی سیا سی جماعتوں کی قومی کانفرنس طلب کی ۔ وزیر اعظم کے اس اقداک کوہر طبقہ فکر نے سراہا ۔ سیاسی و مذہبی جماعتیں ایک پیچ پر آگئیں۔ عمران خان جو گزشتہ ۱۲۶ دنوں سے انتخابات ۲۰۱۳ کے خلاف بھر پور مہم چلارہے تھے۔ اسلام آباد میں مستقل دھرنا اور پاکستان کے بڑے شہروں فیصل آباد، کراچی اور لاہور میں اپنی سیاسی قوت اور حکومت پر دباؤ بڑھانے میں بڑی حد تک کامیاب نظر آتے تھے۔ ان کے اسی دباؤ کی بدولت حکومت تحریک انصاف سے دوبارہ مذاکرات پر آمادہ ہوئی۔ اچانک پشاور واقعہ نے جہاں دیگر جماعتوں کو اتحاد و اتفاق پر مجبور کیا وہاں عمران خان نے بھی اپنا تمام تر احتجاج کو ملتوی کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس مشکل گھڑی میں حکومت کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ سیاسی قیادت نے شدت پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف کاروائی کو اپنی جنگ قرار دیتے ہوئے شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف افواج پاکستان کے ساتھ برابر کا ساتھ دینے کا عَزم کیا ۔ دیگر جماعتوں کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف بھی اگلی صف میں کھڑی نظر آئی۔ یہی عمران خان کی سیاسی بصیرت قومی رہنما ہونے کی دلیل ہے۔ کپتان کے اس فیصلے کو میاں نوازشریف اور ملک کے باشعور عوام نے سراہا اور اسے ایک دانشمندانہ فیصلہ قرار دیا۔(۲۳ دسمبر ۲۰۱۴ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437470 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More