دیکھنا ہے زور کتنا بازو ئے قاتل میں ہے

نائیجریا کی شدت پسند ’ بوکو حرام ‘ مسلح تنظیم ہے ۔ اس تنظیم کا پورا نام جماعتہ اہل السنتہ للدعوۃ الجہاد ہے۔یہ تنظیم مغربی طرز تعلیم کو حرام سمجھتی ہے اس لئے اس کا نام ’بوکو حرام ‘پڑ گیا اور اسی نام یہ مشہور ہے ۔’باؤ سا‘زبان میں بوکو حرام کا لفظی مطلب "مغربی تعلیم حرام " ہوتا ہے۔اپریل2014ء میں شمالی نائیجریا کے ایک اسکول سے تین سو طالبات کو اغوا کرکے فروخت کردیا گیا۔اس تنظیم کی ابتدا محمد یوسف نامی سکالر نے رکھی تھی جو 2009میں مارے گئے اس کے بعد اس گروپ کے کئی دھڑے ہوگئے۔ سب سے مضبوط دھڑا ابوبکر شیخاؤ کی ہے ، اس تنظیم نے 2009ء میں نائیجریا کے خلاف بغاوت شروع کی جس کے بعد سے اب تک ہزاروں مخالفین ہلاک کئے جاچکے ہیں۔لندن میں قائم ایک غیر سرکاری ادارہ بیورو آف انوسٹیگیٹو جرنلزم ڈرون حملوں اور اس کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تفصیلات جمع کرتا ہے اس کے مطابق آٹھ سال قبل باجوڑ کے علاقے ڈمہ ڈولہ کے ایک مدرسے پر ڈرون حملے میں 86کے قریب طالب علم جاں بحق ہوئے ، ادارہ کے مطابق اس حملے میں سب سے کم سن بچے سہیل کی عمر صرف سات سال تھی۔سی آئی اے امریکہ کی جانب سے پاکستان میں 2004۔ 2014 میں کل406حملے کئے گئے جس میں مجموعی طور پر 3892افراد جاں بحق ، جس میں 959 عام شہری جبکہ بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد 204ہے جبکہ کل1706افراد زخمی ہوئے۔یمن میں 2004-2014 میں ڈروں حملوں میں 46 بچے جاں بحق ہوئے۔جبکہ صومالیہ میں 2007-2014تک میں دو بچے ہلاک ہوئے۔امریکہ کے مطابق مدارس میں مغرب کے خلاف تعلیم دئیے جانے اور تشدد کے فروغ میں طالبان ملوث ہیں، طالبان کے لفظی معنی طالب علم ہیں، لیکن مغرب نے طالبان کو دہشت گرد قرار دیکر جہاں پاؤ قتل کردو کی پالیسی اپنائی اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ڈرون حملوں میں مدارس پر جنھیں یہ خود کش بمبار بنانے کی فیکڑیاں سمجھتے ہیں ، معصوم بچوں کی بڑی تعداد ہلاک ہوئی۔ اسی طرحطالبان کو دو ممالک کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ایک، افغانستان کی تحریک اسلامی طالبان ہے جس کی قیادت ملا عمر کر رہے ہیں طالبان پر افغانستان حکومت کیجانب سے الزام عائد کیا جاتا ہے کہ افغانستان میں حالیہ تشدد اور دہشت گردانہ حملوں کی لہر کے بعد بانچ سو اسکولوں کو بند کردیا گیا اور 30ہزار سے زائد طلبا ء علم حاصل کرنے سے محروم ہوگئے ہیں۔ افغانستان کے 16ہزار اسکولوں میں 83لاکھ کے قریب طلباء زیر تعلیم ہیں۔جس میں سے39فیصد لڑکیاں ہیں۔ جبکہ افغانستان حکومت نے تحریک طالبان پر یہ بھی الزام لگایا کہ افغانستان کے صو بے نحار میں گذشتہ مہینوں کے دوران لڑکیوں کے چار اسکولوں پر حملے کے دوران پانی میں زہر ملا دیا گیا جس سے سینکڑوں طالبات کو طبی امداد دینی پڑی۔ایسی طرح پاکستان میں طالبان کی تحریک جس کی قیادت ملا فضل اﷲ کر رہے ہیں پر الزام عائد کیا گیا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں گذشتہ پانچ برس کے دوران محکمہ تعلیم فاٹا کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہاشم خان آفریدی کے مطابق چار سو پچاسی اسکول تباہ کئے گئے جس کی وجہ سے پانچ لاکھ بچوں کا تعلیمی سلسلہ متاثر ہوا۔جبکہ تحریک طالبان کے مذہبی علما ؤں نے اسکولوں کو نذر آتش کرنے کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے مذہبی عالم ولی محمد نے کہا کہ "کسی اسکول کو نذرآتش کرنا غیر اسلامی اور غیر انسانی فعل ہے۔اسکولوں کو نذر آتش کرنیوالے افغانستان اور اس کے مستقبل کے دشمن ہیں۔ مساجد ، اسکولوں اور ان تمام مقامات کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے جہاں لوگ کچھ نہ کچھ سیکھتے ہوں ۔"ایسی طرح ایک سینئر صحافی کے مطابق انھیں طالبان کے سابق ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے ۲۸ مارچ کی ای میل میں ملا عمر کا موقف دیا ہے کہ" ملا عمر تعلیم و تربیت کی اہمیت کو جانتے ہیں اور وہ دنیا اور آخرت کی کامیابی کاذریعہ علم کے حصول ہی کو سمجھتے ہیں۔ سابق ترجمان کے مطابق طالبان کبھی بھی افغان عوام کے لئے بنائے گئے تعلیمی اداروں ، اسپتالوں اور عوامی مقامات کو بموں سے اڑانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ایسا کرنے والوں کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں۔" افغانستان میں 30لاکھ بچوں کو اسکول میسر نہیں جبکہ ملک میں موجود کل سولہ ہزار اسکولوں میں سے لگ بھگ سات ہزار مناسب عمارات سے محروم ہیں اور طلبہ کو خیموں اور کھلی جگہوں پر تعلیم دی جارہی ہے۔افغان خواتین کی فلاح و بہبود کے سرگرم تنظیم "ویمن فار چینج"کی رضا کار آرزو امید کا کہنا ہے کہ ان حالات کے باوجود افغاں لڑکیوں کا اسکول جانا ضروری ہے-

۸۵۹ عیسوی میں خواتین کی پہلی یونیورسٹی مراکش میں قائم کی گئی تھی ۔ اب جدید تعلیم سے آراستہ نام نہاد قوتیں امریکہ اور اس کے سابقہ آقا برطانیہ کیجانب سے جس طرح مسلم ممالک پر لشکر کشی کی جاتی ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔ان کی جنگجو پالیسیوں کی وجہ سے ہی مرد اپنے زمیں کے حفاظت کیلئے جہاد کے نام پر اپنی جانیں قربان کرتا ہے تو دوسری جانب خواتین ان کی عدم موجودگی میں تمام خاندانی نسق و انتظام سنبھالتی ہیں۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو فورس نے افغان عوام کا جو حال کیا سو کیا ، اس کی بربادی داستانوں پر اب رویا بھی نہیں۔ اسی طرح عراق پر کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کے منصوبے پر جب عراق پر جنگ مسلط کی گئی تو طے شدہ منصوبے کے مطابق عراق کو تین حصوں میں تبدیل کردیا گیا ، ایک سنی مسلمان ، دوسرے شیعہ اور تیسرے کرد۔ اگر عراق میں امریکی جارحیت کے ایک مختصر جائزے میں دیکھا جائے تو عراق نامور مسلم خواتین شخصیات جس میں بغداد یونیورسٹی ، فزکس ڈیپارٹمنٹ کی حفیہ الوان ہلالی کو ستمبر2003، ماہا عدیل قادر ، بغداد یونیورسٹی ، کالج آف ہومنیسٹ،محترمہ محمدجسیم السیدی ، بغداد یونیورسٹی کالج آف ایڈمنسٹریشن ،سائرہ محمد مشہدنی ، یونیورسٹی ( مارچ 2006ء) ، امل ممالیجی المنصور یونیورسٹی آئی ٹی پروفیسر(جولائی2008ء) , لئیا عبدالسعاد ، موصل یونیورسٹی ، ڈین لا کالج،(جون2004) کفیہ حسین صالح یونیورسٹی آف بصرہ کالج آف ایجوکیشن( 28مئی 2004ء )زنیبیہ عبدیل حسین یونیورسٹی آف بصرہ ، کالج آف وٹینرری میڈیسن(19جولائی 2006) محترمہ لیز مچان ،ڈیلیا یونیرسٹی میڈیشن کالج،(19اپریل 2006)،خولیہ محمد تقی زاوان، کفیہ یونیورسٹی ، کالج آف لا ۔(12مئی2006) صالح النصراوی خفیہ یونیورسٹی کالج آف لا ء (22اگست2007)نافیہ معود خلفہ، بغداد یونیورسٹی عربیک ڈیپارٹمنٹ، ریب فلع ، ٹیکنالوجی یونیورسٹی العلم الغوراری ، سعاد العابدی ، یویورسٹی آف موسل فزکس ڈیپارٹمنٹ ، ایمرہ الربائی، نجات شعالع ، موستنصریہ یونیورسٹی سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ (1اکتوبر2006)۔یہ تصدیق شدہ دستاویز نو مارچ 2011کو بیلجئم میں منعقد انٹرینشنل سمینار آف عراقی اکیڈمی ، جینٹ یونیورسٹی میں پیش کیا گیا۔اب کیا اقوام متحدہ میں بہترین مقرر یہ بتا سکتا ہے کہ عراق کی جنگی جنونی جنگ میں ان نابغہ روزگار شخصیات کا نعم البدل کون پیدا کر سکے گا ۔ انسانی حقوق کی شامی تنظیم آبزوریٹری کے مطابق شام کے شہر حلب کے دریا کیو وائق جوکہ جنوب مغرب میں بہتا ہے وہاں 68لاشیں ملیں جس میں نو عمر بچوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ ان سب کو کیپٹن ابو صدا کے مطابق بشار الاسد کی حکومت نے قتل کیا ۔ یہ کوئی پروپیگنڈا نہیں ہے بلکہ انسانی حقوق کی آبزرویٹری نے ایک ویڈیو یو ٹیوب پر جاری کی جس میں کیمرہ مین دریا کے کنارے چلتا جا رہا ہے اور کنکریٹ کے راستے پر پچاس لاشیں نظر آرہی ہیں۔ اکثر لاشوں کے ہاتھ کمر کی پشت پر بندھے ہیں ، چہرے زرد اور بدن پھولے ہوئے ہیں ان میں سے اکثریت نو عمر لڑکوں کی ہے جو جینز پہنے ہوئے ہیں۔

گنجلگ اعداد و شمار کے ساتھ کالعدم تحریک طالبان، پاکستان میں اسکولوں کو نقصان پہنچانے کی بھی طویل تفصیلات ہے ، لیکن پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر جس طرح حملہ کرکے سینکڑوں بچوں کو شہید و زخمی کیا گیا ۔میں نے آپ سب کے سامنے چیدہ چیدہ واقعات اور کچھ اعداد و شمار رکھ دئیے ہیں کہ معصوم بچوں پر ظلم کرنے والے جو بھی ہیں ،ان کا تعلق صرف دہشت سے ہے۔ دہشت گردی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔کسی عمل کے ردعمل میں بچوں کو نشانہ بنانا کسی بھی مذہب قوم یا کسی بھی مذہب کی تعلیم نہیں ہے۔لیکن دنیا بھر جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ذمے دار کون ہے ؟۔پاکستان میں ایسا تک ہوتا رہے گا ،امت مسلمہ کب تک متفرق رہے گی اور باطل قوتیں کب تک ظلم و ستم کرتی رہیں گی ہم سب کو اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکھنا ہوگا۔کیا ہم نے ان تعلیمات پر عمل کیا جو ہمیں ہمارا مذہب دیتا ہے۔ تو پھر یہ کونسا مذہب ہے کہ وہ تعلیم کا اس قدر مخالف ہے کہ تعلیم کے لئے بچوں کوجہاں پاؤ قتل کردو ۔۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744621 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.