باب پاکستان کا منصوبہ شہباز شریف کی توجہ کا محتاج

وہ قومیں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں جو اپنے ہیرو ز کی قربانیوں کو فراموش کردیتی ہیں ۔ قیام پاکستان کے وقت ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے لاکھوں مسلمان پاکستانی قوم کے حقیقی ہیرو تھے جنہوں نے آگ اور خون کا دریاعبور کرکے اپنی زمین جائیداد اور گھر بار چھوڑ کرسرزمین پاکستان پر قدم رکھا بلکہ مدت دراز تک بے پناہ مسائل کا اس لیے شکار ہوئے کہ وہ ایک آزاد اور خود مختار اسلامی ریاست پاکستان میں زندگی گزار نا چاہتے تھے انہیں ہندووں کی غلامی قبول نہ تھی ۔پاکستان میں داخل ہونے کے بعد ان کا پہلا پڑاؤ والٹن کیمپ میں پڑا ۔ جہاں ہیضے کی وبا ایسی پھیلی کہ ہزاروں مہاجرین کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا ۔ یہ وہ مقدس جگہ ہے جہاں شہیدوں کے لہو کی آج بھی خوشبو آتی ہے یہ وہ مقدس جگہ ہے جہاں حضرت قائداعظم محمد علی جناح اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جنا ح بھی تشریف لائے تھے ۔زندہ قوم ایسے اہم ترین مقامات کو کبھی فراموش نہیں کرتیں لیکن پاکستانی حکمرانوں کی توجہ اس اہم ترین منصوبے سے یکسر ہٹ چکی ہے ۔باب پاکستان کے نام سے والٹن میں قومی یادگار تعمیر کرنے کا سب سے پہلا خیال گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی خان کو آیا انہوں نے اس منصوبے کے بارے میں جنرل محمد ضیاء الحق کو بریف کیا جنہوں نے اس منصوبے کی تعمیر میں گہری دلچسپی کااظہارکرتے ہوئے حکم دیا کہ یہاں ایک ایسی یادگار اور قومی پارک تعمیر کیاجائے جو اعلی تعمیراتی روایات کا امین بھی ہو ۔اس منصوبے کے لیے آرمی زمین مہیا کرے گی کیونکہ یہ زمین آرمی یونٹ کے زیر قبضہ تھی اور یہاں بوائے سکاؤٹ کی تعمیرات بھی موجود تھیں ۔ 114 ایکڑ پر مشتمل رقبے پر قومی یادگار باب پاکستان میں ایک خوبصورت پارک ٗ لائبریری/ آڈیٹوریم / ٗ میوزیم / آرٹ گیلری ٗ جدید طرز تعمیر اور سہولتوں سے آراستہ مسجد ٗ یادگار / عمارت ٗ خرید و فروخت کے لیے تجارتی مراکز ٗ ریسٹورنٹ وغیرہ شامل تھے ۔چند سال محکمانہ خط و کتابت میں گزر گئے جنرل غلام جیلانی خان کی رخصتی اور جنرل ضیاء الحق کی شہادت کے بعد یہ منصوبہ کاغذوں میں دفن ہوکر رہ گیا ۔اس منصوبے کو نئی زندگی دینے والے وزیراعلی پنجاب غلام حیدر وائیں تھے جنہوں 1993ء میں اس منصوبے کو پایہ تکمیل پہنچانے کا عزم کیا لیکن ان کی رحلت کے بعد پھر یہ منصوبہ کولڈ روم میں جاپہنچا ۔ 1995ء میں وزیراعظم کی حیثیت سے نواز شریف نے اس منصوبے میں گہری دلچسپی کااظہار کیا لیکن یہ منصوبہ تعمیراتی شکل اختیار نہ کرسکا ۔جنرل پرویز مشرف کو 2005 ء میں جب اس اہم ترین منصوبے کے بارے میں بریف کیاگیا تو انہوں نے چوہدری پرویز الہی کو نہ صرف منصوبے کی فوری تعمیر شروع کرنے کا حکم دیا بلکہ آرمی سے مطلوبہ اراضی لے کر حکومت پنجاب کے سپرد کرنے کے علاوہ 244 ملین روپے کے فنڈ بھی مختص کردیئے ۔لیکن بدقسمتی سے چوہدری پرویز الہی کی توجہ خود وزیر اعظم پاکستان بننے اور جنرل پرویز مشرف کو باوردی صدر بنانے پر مرکوز رہی اور یہ منصوبہ ان کی ذاتی توجہ حاصل نہ کرسکا ۔شواہد کے مطابق آرمی نے باب پاکستان کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد اس کی تعمیر کا کنٹر یکٹ ایک نجی کنسٹرکشن کمپنی کو دے دیا ۔ آج ایک ادھوری عمارت کے علاوہ وہاں جنگل کا گمان ہوتا ہے ۔ پرویز مشرف اور پرویز الہی کی رخصتی کے بعد ایک طویل عرصے تک یہ پراجیکٹ سرد خانے میں پڑا رہا بلکہ اب بھی وہاں جنگل کا گمان ہوتاہے ۔شنید ہے کہ 14 نومبر 2014ء کو طویل مدت کے بعدخواجہ سعد رفیق نے باب پاکستان پراجیکٹ کے منصوبے کے حوالے سے ایک اجلاس کی صدارت کی ہے لیکن اس پراجیکٹ کے لیے پہلے سے جاری فنڈ 244 ملین کہاں گئے اور اب اس منصوبے کی تکمیل کے لیے مزید کتنے ارب روپے درکار ہیں اور کب یہ اہم ترین منصوبہ پایہ تکمیل کوپہنچے گا اس کے حوالے سے کوئی بھی بتانے کو تیار نہیں ہے ۔ یہ اہم ترین منصوبہ شریف برادران کی ذاتی توجہ کامحتاج ہے انہوں نے جس جذبے سے میٹرو بس کا پراجیکٹ تعمیر کروایا ہے اسی جذبے سے باب پاکستان کی تعمیر ممکن ہوسکتی ہے۔ اسی طرح انتہائی اہمیت کے حامل منصوبے نالج سٹی جس کی تعمیر کے لیے گزشتہ سال دنیا کی 7 بڑی اعالمی شہرت رکھنے والی یونیورسٹیوں سے معاہدوں پر باقاعدہ دستخط بھی ہوچکے ہیں اس مقصد کی تکمیل کے لیے حکومت پنجاب نے ڈیرہ چاہل گاؤں بیدیاں روڈ لاہور کے ملحق ساڑھے آٹھ سو ایکڑ اراضی مختص کرنے کی خبریں بھی اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود نالج سٹی کامنصوبہ بھی شہبازشریف کی نظروں نہ جانے کیوں اوجھل ہے ۔اسی طرح والٹن روڈ جو باب پاکستان کے قریب سے گزرنے والی اہم اور مصروف ترین شاہراہ ہے پچاس فٹ کی دو رویہ یہ سڑک ڈیفنس چوک سے شروع ہوکر والٹن فلائی اوور ( قینچی تک ) جاتی ہے اس کے اردگرد بھی پچاس پچاس فٹ کی گرین بلٹ موجود ہیں ۔ لیکن شہباز شریف کی ذاتی توجہ سے والٹن فلائی اوور تو کم ترین مدت میں تعمیر ہوکر ٹریفک کے لیے کھل بھی چکا ہے لیکن چار کلومیٹر طویل والٹن روڈ کی خستہ حالی وزیر اعلی کی حیثیت سے شہباز شریف کی تعمیرکاوشوں کے لیے چیلنج بن چکی ہے ۔جہاں میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اوروزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کی توجہ باب پاکستان جیسے اہم ترین منصوبے کی جانب دلانا چاہتا ہوں وہاں نالج سٹی کی جلد تعمیر اور والٹن روڈ کی از سر نو تعمیر اور ارد گرد خوبصورت پارک بنانے کی بھی درخواست کرتا ہوں ۔اگر والٹن ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی سے گرزتی ہوتی تو اس کی تعمی اب تک ہوبھی چکی ہوتی ۔ لیکن ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی جانے والے تینوں راستے والٹن روڈ سے ہی نکلتے ہیں جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں گزرتی ہیں اجڑے ہوئے پارک ٗ سڑک کی ٹوٹ پھوٹ اور روڈ لائٹس نہ ہونے کی وجہ سے حادثات معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 787779 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.