میرے دیس میں ہے دہشت کا راج

خوبصورت مہکتے پھول کیسے اچھے نہیں لگتے، بالکل اسی طرح چھوٹے چھوٹے نھنے مننے بچے کیسے اچھے نہیں لگتے، صبح کے وقت اپنے ماں باپ کے ہاتھوں کی انگلیوں کو تھام کر اسکول جاتے بچوں کو دیکھ کر تو دل چاہتا ہے کہ کھڑے ہوکر بس انکو دیکھتے ہی رہو، بچوں کے ساتھ کھیلنا مستیاں کرنے سے تو یقین جانیے دن بھر کی تھکان دور ہوجاتی ہے، اور فریش پن کا احساس ہونے لگتا ہے، سارا دن بچوں کی ناز برداریاں کرتے مائيں تو تھکتی نہیں، ہلکا پھلکا ڈانٹ دے تو فورا سینے سے لگا لیتی ہے ماں، انسان کے دو خالق ہوتے ہیں، ایک اللہ دوسری ہستی ماں ہے، ماں کا رشتہ کائنات کا خوبصورت رشتہ ہے، اللہ نے عورت کو ماں کا درجہ عطا فرما کر جنت بھی ماں کے قدموں میں ڈال دی ہے،

صبح اسکول جاتے بچوں کے بیگ مائیں چیک کرتی ہیں کہ کہیں میرے لعل کی کوئی چیز نہ رہے جائے کہ ڈانٹ پڑے، پھر اپنے بچے کے لنچ باکس کی فکر جیسے ماں بڑے جتن سے تیار کرتی ہے، اور کہتی ہے کہ بیٹا بھوک لگے تو فورا کھا لینا بھوکے نہیں رہنا، ماں کو تو اسکول بریک کی فکر بھی نہیں ہوتی اسے تو بس اپنے بچوں کی فکر ہوتی ہے، بیٹا آج صبح ناشتہ مجھ سے تھوڑا ٹھیک نہیں بنا بیٹا ٹھیک سے ناشتہ کیا ہے نا آپ نے جی امی میں نے ٹھیک سے ہی ناشتہ کیا ہے، بیٹا آج کچھ دل گھبرا رہا ہے، سب کام بھی الٹ پلٹ ہورہے ہیں، رات ٹھیک سے سوئی بھی نہیں کروٹیں بدلتی رہی، عجیب سے بے چینی ہے، امی آپ آرام کرلینا میرے جانے کے بعد آپ میری اتنی فکر نہ کیا کریں، میں اب بڑا ہوگیا ہوں، امی میں بہت تنگ کرتا ہوں نا آپ کو ارے میرے پھول آپ جوان بھی ہوجائو گے، تو میرے لیے چھوٹے مننے ہی رہوگے،

بیٹا آپ تو میرے چندا ہوں، میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں، میرے دل کی دھڑکن ہوں، اچھا امی وین آگئی اب میں چلتا ہوں، اپنا خیال رکھنا بیٹا آپ بھی خیال رکھنا امی اللہ نگہبان بیٹا، بیٹے کو اسکول روانہ کرنے کے بعد بھی ماں نے آرام نہیں کیا۔ اور پھر سے کام میں مگن ہوں گی، رات سے ہی کچھ بوجھل پن تھا طبعیت میں، ارے مننے کے ناشتے کے برتن دھونا تو بھول ہی گئی، ماں کو کیا پتہ تھا کہ یہ میرے بچے کے آخری لمحات ہیں کہ آج میرا جگر گوشہ مجھ سے جدا ہوجائے گا، فرمان نبی کے مطابق علم کا اصول لازمی ہے، 16 دسمبر کو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آج ایک قیامت برپا ہوگی، 16 دسمبر تو ویسے بھی سقوط ڈھاکہ کی تلخ یاد کا دن ہوتا ہے، کیا پتہ تھا کہ آج مائوں کے جگر گوشے اپنی مائوں کو روتا بلکتا چھوڑ جائے گے، ماضی میں سقوط ڈھاکہ الگ ہوگیا، اور 16 دسمبر 2014 کو مائیں اپنے بچوں سے الگ ہوگی،

بچے بچیاں اسکول پہنچ گے، کوئی نہیں جانتا تھا کہ آج کیا ہونے والا ہے،، شیطانی انسانی درندے صفت لوگوں نے معصوم پھولوں پر قیامت ڈھا دی، ظلم بربریت کی انتہا کردی، آنکھیں ساکت دل دھڑکنے بھول گے، کانوں کی سماعت ختم ہوگی، پیر زمین میں دھنس گے، بد بخت آنکھوں نے وہ نظارے دیکھے کہ ہر شے خدا کی پناہ مانگنے لگی، ایسا لگا کہ روز حشر بپا ہوگیا، چنیگزی ہلاکو بھی کانپ گے، معصوم کلیوں کو بیدردی سے مسل دیا گیا، خون کی ندیاں بہے گی، مائوں کے سینے پھٹ پڑے، اقوام عالم میں یہ حولناک منظر دیکھا گیا،یہ جو شیطانی انسانی شکلوں والے درندوں نے خون کی ہولی کھیلی کیا انہیں کسی ماں نے نہیں جنا ہوگا، کیا یہ سانپوں کی نسلوں میں سے ہیں، کیا یہ دودھ کی جگہ خون پی کر پلے ہیں، یہ تو حیوانیت سے بھی بدتر ہیں،بچوں کو مارنا بہادری نہیں بزدلی ہیں،

ہر ماں نوحہ کنا ہیں، آہیں سسکیاں آہ و بکا ہیں، دل چھلنی ہیں، ہفتہ بھر بیت جانے کے بعد بھی فضا سوگوار ہیں، ہر دل دکھی ہیں، سانحہ پشاور کا ایک اور زخمی پھول ابرار جو ایک ہفتے موت و زندگی کی کشمکش میں رہنے کے بعد شہادت کے مرتبے پر فائز ہوکر تاریخ ميں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے، اس شہید بچے کی ماں کا دل بھی پھٹ پڑا ہے، لوگ کہتے ہیں بی بی چپ ہوجائو میڈیا انٹر ویو لائیو کررہا ہے، فارغ ہولے پھر جی بھر کے رو لینا سر زمیں پاک تو سوگوار ہیں، مگر جنت میں بہار کا سماں ہے، جنت کے پھول حیران ہیں کہ دیکھوں شہر پشاور سے ہم سے بھی اچھے پھول آگئے ہیں، جنت کی رونق بڑھ چکی ہیں، شہید کبھی مرتے نہیں شہید تاریخ میں ہمیشہ امر رہتے ہیں، شہید اپنے لہو سے نئی تاریخ رقم کرجاتے ہیں، بچے سانجھے ہوتے ہیں شیہد کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہیں،

دسمبر کے دن شامیں تو ویسے ہی اداس ہوتے ہیں، اور پھر 16 دسمبر کی شام نے بھی دہشت کا لبادہ اوڑ لیا میرے دیس میں ہے دہشت کا راج ہم کتنے اذیت پسند ہوگے ہیں، ظلم کی تشہیر ایسے کررہے ہیں، جیسے بہت اہم معرکہ انجام دے رہے ہوں، سوشل میڈیا پر شہید و زخمی بچوں کی تصاویر کو شئیر کررہے ہیں، لائک کیا جارہا ہے، زخموں کو کریدا جارہا ہیں، ایک ماں کا دکھ ایک ماں ہی سمجھ سکتی ہے، ماں کے دکھ کا مداوا نہیں ہے، ماں کے زخم کبھی نہیں بھرتے، اب مائيں دہشت اور خوف میں مبتلا ہے، آج ہمارے بچے اور نوجوان ذہنی کرب کا شکار ہوچکے ہیں، آزادی سے پڑھ لکھ نہیں سکتے نہ گھوم پھر سکتے ہیں، تفریح مقامات باغوں میں جانے سے کتراتے ہیں، سیرو تفریح سے تو ذہنی نشو و نما کو فروغ ملتا ہے، ظلم جب بڑتا ہے تو مٹ جاتا ہے، سیدنا حضرت حسین کا فرمان ہے کہ ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے، اتنی ہی زیادہ قربانیاں دینا پڑے گی، یہ جو مزاکرات کی طوطی رٹ لگانے والے سانحہ پشاور پر چپ کیوں ہے، دیکھ لیا نا مزاکرات کا نتیجہ جب مزاکرات چل رہے تھے تو ان وحشیوں نے کراچی ائر پورٹ کو نشانہ بنایا، واہگہ پر خون کی ہولی کھیلی، اب معصوم بچوں کے چہروں اور سروں پر اندھا دھند فائرنگیں کیں، ٹیچر پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئیں، اسکول پرنسپل طاہرہ قاضی کو ہم زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہیں کہ شہید طاہرہ قاضی نے زندگی کا موقع ملنے کے باوجود راہ فرار اختیار نہیں کیا، اور بچوں کی حفاظت کے خاطر جام شہادت نوش کیا،

سانحہ پشاور پر پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن چکی ہیں، پوری قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ ہے، دشمن ہمیں کمزور نہ سمجھے، ہم زخم کھا کر بھی مسکرانے والی قوم ہیں، کوئی سازش ہمارے جذبوں اور عزائم کو متزلزل نہیں کرسکتی۔ یہ وطن عزیز ہم نے بڑی قربانیوں اور جدو جہد سے حاصل کیا ہے، بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے، لہذا سانحہ پشاور پر بھارت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اور ملک کے اندر موجود کالی بھیڑوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جو ظالمانوں کے ہمدرد ہیں،
 
Mohsin Shaikh
About the Author: Mohsin Shaikh Read More Articles by Mohsin Shaikh: 69 Articles with 61134 views I am write columnist and blogs and wordpress web development. My personal website and blogs other iteam.
www.momicollection.com
.. View More