پاکستان آج ایک انتہائی اہم موڑ پر کھڑاہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے جس کا سدباب ہماری بقاء، امن اور
ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ پشاور والے انتہائی دردناک واقعہ کے بعد
پاکستان کی تمام کی تمام سیاسی جماعتیں اور عوام اس فیصلہ پر متفق ہیں کہ
ہمیں اس دہشت گردی کے خلاف اب فیصلہ کن حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ پارلیمنٹ کے
اندر موجود تمام جماعتوں نے باہمی مشورہ کے بعدجو دہشت گردی کے خلاف قومی
ایکشن پلان دیا ہے انتہائی جامع اور ٹھوس ہے اور قوم اس نتیجے پر پہنچی ہیں
کہ فوجی سربراہان کی نگرانی میں خصوصی عدالتوں کا قیام دہشت گردی کے خاتمے
کے لیے انتہائی ناگزیر ہے۔ اور اس کے لیے آئین میں ترمیم بھی کی جاسکتی ہے۔
یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ پوری قوم دہشت گردی کے خلاف متحد ہے اورقومی
ایکشن پلان واقعی قابل ستائش ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ نیا سال امن کی
خوش خبری کے ساتھ شروع ہوگا۔ مگر اس میں دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ ہماری
پوری قوم کی امیدیں فوج پرہیں اور اس کی بنیاد ہماری قوم کا اس ادارے پر
اعتماد ہے جس کی وجہ اس ادارے کے تربیت ہے جس کے نتیجے میں پروان چڑھنے
والی ان کی سوچ، جزبہ اور عمل ہے جس کی بدولت ان کو عوام کے دلوں میں محبت
اور فخر کے جزبات کے ساتھ انتہائی گہرا مقام حاصل ہے۔ اور یہ محبت، امید،
اعتماد اور فخر ہو بھی کیسے نہ، ہماری کوئی بھی مشکل ہو ، امن سے لے کر
ڈیزاسٹر تک ہماری فوج نے اس جزبہ سے اپنی قوم کی مدد کی کہ آج ہم فوج کو ہی
صرف نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ اوراتنی بڑی جانی قربانیوں کے باوجود کبھی بھی
ان کے حوصلہ میں کمی نہیں دیکھی گئی۔ اب اسی طرح فوجی افسران کی سربراہی
میں ٹرائل کورٹس کے قیام کا جو فیصلہ سامنے آ رہا ہے یہ بھی اسی امید اور
اعتماد کی ایک کڑی ہے۔ قوم جتنا بھی بوجھ ڈال دے وہ امیدوں سے بھی بڑھ کر
ریسپانس دیتے ہیں اور اس ذمہ داری پر ہمارے فوجی سربراہ کاعزم اور کل
متعلقہ اداروں کو قومی ایکشن پلان پر عمل کو یقینی بنانے کی ہدایات نے قوم
کو جزبہ عقیدت سے سرشار کر دیا ہے۔
فوجی عدالتوں کے قیام اور کام کے متعلق کچھ قانونی ماہرین کی آراء بھی
سامنے آئی ہیں جن میں کچھ ماضی کی ایسی ہی عدالتوں کا حوالہ بھی دیا گیا ہے
جس میں متبادل عدالتی نظام اور دوسرے خدشات کا اظہار بھی کیا گیا اور واضح
صورتحال تو قانونی مسودہ یا قیام کے بعد ہی سامنے آئے گا مگر وقت کے تقاضے
اور قومی ایکشن پلان کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ان ٹرائل کورٹس کا
قیام نہ صرف نا گزیر ہے بلکہ انتہائی کامیاب اور فائدہ مند بھی ہے ۔ اگر ہم
ہمارے موجودہ عدالتی نظام کے اندر دہشت گردی کے ٹرائل کے پس منظر میں
دیکھیں تو کئی ایک ایسی صورتیں دیکھنے میں آتی ہیں کہ جس سے پتا چلتا ہے کہ
امیدوں کے مطابق نتائج سامنے نہ آسکے اور اس کی وجہ عدلیہ کی کوئی عدم
دلچسپی نہیں بلکہ کئی ایک ایسی پروسیجرل اور دوسرے اداروں کے کردار کا عمل
دخل ہے کہ خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آ سکے۔ اور اس طرح کی طوالت دوسری
نوعیت کے مقدمات میں تو چل سکتی ہے مگر دہشت گردی کے متعلق معاملات میں اور
زیادہ خرابی کا سبب بنتا ہے۔
اور کسی خاص مقصد اورخاص وقت کے لیے اس طرح کی ٹرائل کورٹس کا قیام متبادل
عدالتی نظام کے زمرے میں قطعا نہیں لیا جا سکتا بلکہ ایسے ہی سمجھیں کہ
جیسے سروس ٹربیونل وغیرہ کام کر رہے ہیں۔ اور اگرفوجی ٹرائل کورٹس کو مکمل
خود مختاری دی جاتی ہے تو پہلے سے انٹر نیشنل سطح پربھی اس طرح کی حالتوں
میں ایسی ہی عدالتوں کی مثالیں موجود ہیں۔ اور ان عدالتوں میں جوڈیشل مائنڈ
کے اپلائی کرنے کا جہاں تک تعلق ہے تو کوئی ایسی صورتحال پیدا کی جاسکتی ہے
کہ حاضر سروس ججز کو بھی ان عدالتوں میں تعینات کیا جاسکے اور ان عدالتوں
کا اصل مقصد تو سپیڈی جسٹس ہے نہ کہ کوئی متبادل عدالتی نظام۔ اور اگرہمارے
قانونی نظام کے پس منظر میں دیکھا جائے تو ہمارے پروسیجرل قوانین واقعی بہت
پرانے ہیں جو وقت کے تقاضے پر پورے نہیں اترتے اور ان میں کافی ریفارمز کی
ضرورت ہے مثلا سمن ایجنسی کی دفعات ہی دیکھ لیں اورپھر ہمارے پولیس نظام کو
دیکھ لیں جن کے پاس وہ تمام سہولتیں موجود نہیں ہیں جو وقت کے تقاضے پر
پورا اتر سکیں اور اس طرح ہمارے شہادت کے متعلق قانون میں بھی بہت ساری
چیزیں وقت کے تقاضے پر پوری نہیں اترتیں اور ہم ابھی تک اسے نئی ایجادات کے
ساتھ ہم آہنگ نہیں کر سکے۔ آج بھی ہماری عدالتوں میں کوئی شہادت دینے کے
لیے راضی نہیں ہے کیونکہ کسی بھی قسم کا کوئی تحفظ نہیں ہے اور لوگ دشمنیاں
پالنے سے بہتر سمجھتے ہیں کہ اس سے کنارہ کش ہی رہا جائے۔ یہ چند ایک
مثالیں میں نے دی ہیں جو دہشت گردی کے مقدمات کی حساسیت اور پیچیدگی کے پیش
نظرحالات کے تقاضہ پر پوری نہ اترتی ہیں۔ اور دوسری طرف جیسے کہ میں نے
پہلے بھی عرض کیا کہ فوج کی تربیت، جزبہ ، وسائل اور شواہدات تک رسائی ایسے
عوامل ہیں کہ ہم ان فوجی ٹرائل کورٹس کے قیام کے تناظرمیں دیکھیں تو بہت
ساری ایسی نا ممکن چیزوں سے نجات حاصل کرکے انصاف کے عمل کو بہتر بنا یا
جاسکتا ہے۔
رہی بات آئینی حدود کی تو یقینا حکومت ان عدالتوں کو آئینی حدود میں لانے
اور دوسری نوعیت کے تمام خدشات اور تحفظات کے ، ماہرین کے مشورہ کے بعد ،
ازالہ کی پوری کوشش کرے گی۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اتنا سازگار سیاسی ماحول
پاکستان میں پہلے کبھی نہیں ملا اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج پوری قوم
متحد ہے تو اس صورتحال سے ہمیں پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے اور ہمارا سب
سے بڑا مسئلہ جو نہ صرف امن اور سلامتی کے لیے انتہائی ضروری ہے بلکہ ہماری
ترقی میں حائل بھی سب سے بڑی رکاوٹ ہے کا قلہ قمہ کرنے کا موقعہ ہاتھ سے
نہیں جانے دینا چاہیے۔ عالمی برادری میں ہمارا خطہ اس دہشت گردی کی وجہ سے
انتہائی خطرناک سمجھا جاتا ہے اور ایسے حالات میں کسی بھی سرمایہ دارکا
یہاں پرسرمایہ کاری اور دوسرے مالی اور کاروباری معاہدات کا عمل میں لانا
ناممکن ہے۔اور اگر ہم اس خطرے اور چیلنج پر قابو پا لیتے ہیں تو ہمارا ترقی
کا خواب بہت جلد پورا ہو سکتا ہے ۔ |