میری گجر قوم کا ارسطو اور سقراط جاوید چوھدری اکثر
کالموں میں غیر منطقی اور لایعنی سی باتیں لکھتا رہتا ہے ۔ ماشآالله جناب
اچھے قصہ گو ہیں مگر کسی بھی لحاظ سے دانشور نہیں ہیں ۔ جناب کو دنیا
گھومنے کا بہت شوق ہے دنیا کے بیشتر ممالک کا وزٹ کرچکے ہیں - ظاہر ہے اپنی
جیب سے خرچ کرتے ہیں مجھے کیا اعتراض ہوگا مگر ایک پرابلم ضرور ہے موصوف کو
ایک مرض یا عارضہ لاحق ہے - یہ جو بھی چیز بیرون ملک دیکھ کر آتے ہیں آکر
کالم لکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ وہ چیز ہمارے ملک میں بھی ہونی چاہئیے ۔
مثال کے طور پر انکو کسی ملک میں صاف پانی کی چھوٹی چھوٹی نالیاں نظر آگئیں
بس پھر کیا جناب نے کالم لکھ ڈالا اور فرمایا کہ ہمارے شہروں میں بھی
نالیاں ہونی چاہئیں پھر ان نالیوں کے فوائد بھی گنوائے - حالانکہ ہر ملک کی
اپنی ثقافت اور زمینی حقائق ہوتے ہیں ۔ ہمارے ہاں اتنی گرد اڑتی ہے کہ
نالیوں میں پانی صاف رہ ہی نہیں سکتا ۔ اور بھی بہت سی لایعنی سی خواہشیں
کا اظہار کرتے رہتے ہیں جو کہ میں پڑھکر اکثر مسکرا دیتا ہوں کہ کیسی
بچگانہ خواہشیں ہیں - ایک چوہے کو کہیں سے ایک جڑی بوٹی مل گئی اسنے شور
مچا دیا کہ میں پنسار کی دکان کھولوں گا - ہمارے اکثر دانشوروں کا حال بھی
ایسا ہی ہے کہیں سے کوئی دانش کی بات سن لیتے ہیں تو دانشوری کی ہٹی سجاکر
بیٹھ جاتے ہیں - خیر آجکل شائد کسی سیکولر ملک کی یاترا سے لوٹے ہیں کیونکہ
موصوف چاہتے ہیں کہ پاکستانی ریاست سے بھی مذہب کو نکال دینا چاہئیے ۔ لفظ
با لفظ نقل کرتا ہوں موصوف نے کیا دانشوری بکھیری ہے ملاحظہ کریں ۔
مجھے یقین ہے کہ پاکستان کے بے شمار طبقے میری اس بات سے اتفاق نہیں کریں
گے لیکن ہمیں سماج کو فساد سے نکالنے کے لئیے مذہب کو بہرحال انفرادی حثیت
پر لانا ہوگا ملک میں دو عیدوں کے علاوہ کسی تہوار کو سرکاری حثیت حاصل
نہیں ہونی چاہئیے ۔
مجھے یہ زہرآلود تحریر پڑھ کر شدید دکھ پہنچا ہے مجھے یہ دو قومی نظریے اور
پاکستان بنتے وقت چھ لاکھ شہیدوں کی ارواح کو گالی لگی ہے کیونکہ انفرادی
حثیت میں مذہب تو اکھنڈ بھارت میں بھی موجود تھا پھر دو قومی نظریے اور الگ
وطن کی کیا ضرورت تھی ؟ پاکستان وہ واحد ملک ہے ریاست مدینہ کے بعد جو
نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا - اسکا نظریہ پہلے ہے اور جغرافیہ بعد میں
۔ ہمارے دو قومی نظریے کو سمندر میں اندرا گاندھی تو غرق نہ کرسکی مگر
ہمارے اپنے ہی چند نیم دانشوراس نظریے کو اپنے کالموں کی سیاہی سے دھندلانا
چاہتے ہیں ۔ میں کئی سال سے ایک سوال کے جواب کی تلاش میں تھا - میں نے عقل
و خرد کے بہت گھوڑے دوڑائے مگر جواب نہ ملا جبکہ آج بغیر کسی محنت کے جواب
میری آنکھوں کے سامنے ہے - وہ ایسا کونسا سوال ہے ؟ سوال اکثر میرے ذہن میں
اٹھتا تھا کہ مولانا طارق جمیل صاحب بڑے فنکاروں ، گلوکاروں ، بڑی
پرسنیلٹیز ، کھلاڑیوں ، ادیبوں اور مشہور صافیوں کے پیچھے کیوں پڑتے ہیں
اور انھیں تبلیغ کرتے ہیں انکی پروفائل میں ایک بھی عام غریب آدمی آپکو نظر
نہیں آئے گا - اسکی وجہ یہ ہے کہ مولانا نے ان شخصیات کا انتخاب کیا جو کہ
ذہن سازی اور رآئے بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ عام آدمی ان سے
متاثر بھی ہوتا ہے اور انھیں رول ماڈل بھی سمجھتا ہے جو کام علمائے دیوبند
فتوؤں اور اسلحے کے زور سے نہیں کروا سکے وہ اب نیم دانشوروں کے قلم سے
کروانا چاہتے ہیں ۔ جاوید چوھدری صاحب فرماتے ہیں کہ صرف دو عیدیں سرکاری
طور پر منائی جائیں بس ۔ موصوف کھل کر نہیں فرما رہے کہ انھیں عید میلاد سے
تکلیف ہے - کہتے ہیں کہ اس سے سماج میں فساد نہیں پھیلے گا ۔ جناب میلاد تو
قیام پاکستان سے پہلے کا اس خطے میں منایا جارہا ہے تب تو فساد نہیں تھا ۔
فساد تب سے شروع ہوا جب آپکے پسندیدہ مسلک کے لوگوں نے امریکی ڈالروں کے
عوض افغانستان میں جنگ لڑی اس میں ایک بھی میلادی اور درود والا نہ تھا ۔
پھر اسی خاص مسلک کے مسلح جتھے حکومتوں کی آشیرباد سے پروان چڑھتے رہے جو
آجتک چڑھ رہے ہیں - فساد تب پھیلا جب پاکستان کے مامے وہ لوگ بن گئے جن کے
آباؤ اجداد نے قیام پاکستان اور دو قومی نظریے کی مخالفت کی تھی - کبھی اس
پر بھی کالم لکھو کہ شبیر احمد عثمانی کے سوا تمام علمائے دیوبند نے
پاکستان کی مخالفت کی تھی ۔ کل تک جو قیام پاکستان کے دشمن تھے آج انھی کی
اولادیں استحکام پاکستان کی دشمن ہیں ۔ آجتک میلاد منانے والوں نے کتنے قتل
کیے ہیں ؟ نشتر پارک سے جامعہ نعیمیہ ، داتا دربار لعشیں ہم نے اٹھائیں
بارود ہم پر برسا مگر جواب میں ہتھیار ہم نے نہیں اٹھائے کیونکہ ہم سمجھتے
ہیں ہتھیار وہ اٹھاتے ہیں جنکا نظریہ اور عقیدہ کمزور ہوتا ہے اور انکے پاس
دلائل کی کمی بھی ہوتی ہے پھر وہ اپنا کمزور نظریہ بندوق کے زور پر دوسروں
پر مسلط کرنے کی کوشیش کرتے ہیں ۔ الحمد الله نہ ہمارا عقیدہ کمزور ہے نہ
دلائل کی کمی ہے اسی لئیے ہی نہ کبھی دانشوروں کی ضرورت پڑی ہے نہ اداکاروں
گلوکاروں کی بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑا ہے ۔
آقا تیرے ٹکڑوں پہ پلے ہیں غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کر صدقہ تیرا
پورے قد سے جو کھڑا ہوں تو تیرا ہے کرم
مجھکو جھکنے نہیں دیتا یہ سہارا تیرا
ہر سال میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم گذشتہ سال سے زیادہ شان و شوکت سے
منایا جاتا ہے اور کیوں نہ منایا جائے ۔ کیونکہ
آئی ہے دنیا میں جم جم عید میلاد رسول
کھوئے گی ساری دنیا کے غم عید میلاد رسول
ایک پلے میں وہ دونوں ایک پلے میں یہ ایک
دونوں عیدوں سے نہیں ہے کم عید میلاد رسول
صلی الله علیہ وسلم ---- صلی الله علیہ وسلم |