ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو
(Malik Abdul Rehman Jami, Abbotabad)
وطنِ عزیز میں پچھلے تین ساڑھے
تین عشروں سے بدامنی دہشت گردی کا آسیب بھیس بدل بدل کے عوام کو ڈنگ مارے
چلا جا رہا ہے۔انفرادی غلطیاں معاف کر دی جاتی ہیں لیکن قوم کی اجتماعی
خطاؤں پہ سزا ملتی ہے۔پاکستانی خوش قسمت ہیں کہ پہاڑ جیسی غلطیاں کرتے ہیں
اور قدرت انہیں ایک نیا موقع فراہم کر دیتی ہے۔افغانیوں کے لئے ہم نے بارڈر
ہی نہیں کھولا تھا دیدہ ودل بھی فرشِ راہ کر دئیے تھے۔ اس کا بدلہ انہوں نے
یوں چکایاکہ معیشت،کاروبار، سماج غرض ہر شے پہ قبضہ کر لیا۔اب کاروبار
افغانی کرتے ہیں اور پاکستانی ان کا پانی بھرتے ہیں۔مورخ جب پاکستان کی
تاریخ لکھے گا تو اسے قلم دانتوں میں دبا کے کافی دیر حیرت کے سمندر میں
ڈبکیاں لگانی پڑیں گی کہ بے نظیر جیسی لبرل خاتون ام الطالبان لکھی جائیں
گی جو بالآخر انہی کے ہاتھ سے اپنے انجام کو پہنچیں۔آج رحمان ملک انہیں
ظالمان کہتے نہیں تھکتے۔جنرل راحیل نے پاک فوج کی کمانڈ سنبھالتے ہی اس
خطرے کا ادراک کر لیا تھا ۔سیاسی قائدین لیکن گومگو کی کیفیت میں
تھے۔مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا لیکن اس ڈول کا جو حشر ہوا وہ قوم کے سامنے ہے۔
ملک کی دو نوں حکمران جماعتیں بوجوہ فوج سے خار کھاتی ہیں اور اپنے تئیں
فوج کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔یہی وجہ تھی کہ
فوج کے اصرار کے باوجود سول حکومت آپریشن کے فیصلے تک پہنچنے کے لئے لیت
ولعل سے کام لیتی رہی۔کہتے ہیں کہ فوج کو ضربِ عضب اپنے طور پہ ہی شروع
کرنا پڑا۔کوئی چارہ نہ پا کے حکومت بھی شامل باجا ہو گئی۔باقی سیاسی قوتوں
کے پاس بھی آپریشن ضربِ عضب کی حمایت کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔یہ افواج کا
پریشر تھا یا عوام کا اس کے بارے میں قارئین بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں۔ردِ
عمل کی توقع تھی لیکن اب کی بار دہشتگردوں نے ایک سو تینتیس معصوم پھول
انتہائی بے دردی سے مسل ڈالے۔ہم اس جنگ میں پچاس ہزار سے زیادہ لاشیں اٹھا
چکے لیکن ان معصوموں کی لاشے اتنے بھاری تھے کہ قوم انہیں کندھا دیتے بالکل
بے دم ہو گئی۔یہ اﷲ کریم کا کمال ہے کہ وہ انتہائی برے کام کا اچھا نتیجہ
نکال کے اپنے بندوں کو عبرت دلاتا ہے۔
اس معصوم خون کا ابال اور اچھال ایسا تھا کہ اٹھارہ کروڑ لوگوں کے چہرے
گلنار ہو گئے۔مدتوں بعد پہلی بار فوج سیاستدان اور عوام ایک ہی صفحے پہ آ
گئے۔وہ بھی جو اس سے قبل طالبان کے ظلم کی تاویلیں تلاش کرتے تھے۔وہ بھی جو
ان کے دفاتر کھولنے کی بات کرتے تھے اور وہ بھی جو ان سے مذاکرات کی بات
کیا کرتے تھے۔سبھی جان گئے کہ ان بدمعاش کتوں کا نہ تو کوئی مذہب ہے نہ
مکتبہ فکر۔یہ مسلک کی صرف آڑ لیتے ہیں۔ان کا تو سرے سے کسی مذہب ہی کے ساتھ
کوئی تعلق نہیں۔یہی وہ لمحہ تھا جب ان کے انتہائی ہمدردوں کو بھی اعلان
کرنا پڑا کہ طاقت کے استعمال کے سوا اس ظلم سے نجات کا کوئی راستہ نہیں۔یہ
اس قوم پہ اﷲ کا احسان ہے کہ اس نے ایک بڑے امتحان کے بعد اس قوم کو اپنی
حالت بدلنے کا ایک اور موقع فراہم کر دیا ہے۔سانحہ پشاور کے بعد ساری سیاسی
قیادت اکٹھی ہوئی۔ اس سارے معاملے میں پہلی بار حکومت سنجیدہ نظر آئی۔وزیر
اعظم نواز شریف نے نیک نیتی کے ساتھ اس آپریشن کی اونر شپ لی۔عمران خان جو
گذشتہ انتخاب میں دھاندلی پہ آتش زیرپا تھے۔انہوں نے قوم کے درد کو محسوس
کرتے ہوئے اپنے سیاسی کیرئر کو داؤ پہ لگاتے وئے دھرنا اٹھا کے دہشت گردی
کے خلاف جنگ میں حصہ دار بننا منظور کیا۔مولٰنا فضل الرحمن نے حکومت کا کھل
کے ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ جماعت اسلامی کے سراج الحق زمینی حقائق کا
ادراک کرنے والے سیاسی رہنماء ہیں۔انہوں نے بھی قوم کی امنگوں کے مطابق
فیصلہ کیا۔پیپلز پارٹی اے این پی سبھی نے دکھ کا اظہار کیا۔پھانسیاں دینے
کا سلسلہ شروع ہوا اور محسوس ہونے لگا کہ قوم اب کی بار یکمشت ہے۔لوگ جان
چکے کہ اگر آزادی کی حفاظت کرنی ہے۔ریاست بچانی ہے تو بحیثیت قوم سخت فیصلے
کرنا ہوں گے اور ہر طرح کے تعصب سے بالاتر ہو کے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔فوج
اس مشکل گھڑی میں قوم کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ اب کی بار
قوم اپنے قائدین کی طرف نہیں دیکھ رہی بلکہ انہیں مجبور کر رہی ہے کہ وہ
مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کے ان کی امنگوں کے مطابق فیصلے کریں۔یہی وجہ ہے
کہ یورپی یونین کے دباؤ کو مسترد کر کے پھانسی کی سزا کو بحال رکلھنے کا
فیصلہ کیا گیا۔ عدلیہ پھانسیوں کی راہ میں حکمِ امتناع کی صورت مزاحم ہوئی
تو سوشل میڈیا پہ ان کا حشر نشر کر دیا گیا۔چیف جسٹس نے بھی قوم کی امنگوں
اور آرزؤں کو بھانپتے ہوئے اپنے ماتحت ججز کو کمر کسنے کا عندیہ دیا۔امید
ہے کہ عدلیہ اپنے ماتھے سے دہشت گردوں کی حمایت کا داغ دینے کی بھرپور کوشش
کرے گی۔ملا عبدالعزیز اگر اب بھی اسلام آباد کے قلب میں بیٹھ کے ریاستِ
پاکستان کو چیلینج کرتا ہے تو یہ قوم پہ اسی آزاد عدلیہ کا احسان ہے۔
مجھے یقین ہے کہ پشاور کا اندوہناک سانحہ کبھی بھلایا نہ جا سکے گا کہ یہ
سولہ دسمبر انیس سو اکہتر کی طرح ہماری روح پہ لگنے والا زخم ہے اور روح کے
زخم نسلوں تک چلتے ہیں لیکن مجھے یہ بھی امید ہے کہ اس دکھ کے بعد پاکستانی
ایک قوم بن کے ابھریں گے۔یہ یکجہتی اتحاد اور اتفاق اس بد نصیب اور بد قسمت
قوم کے لئے اﷲ کریم ومجید کی طرف سے ایک موقع بھی ہے اور امتحان بھی۔آزمائش
اور رحمت کی اس گھڑی کو اپنے تعصبات،اختلافات کی نذر نہ کیا جائے۔اس یکجہتی
کو سنبھالنا ضروری ہے۔ وہ جو واپس پلٹ رہے ہیں۔ وہ جن کے خیالات تبدیل ہو
رہے ہیں۔وہ جو حقیقت جان چکے ہیں انہیں طعنے نہ دیں انہیں ان کی غلطیاں یاد
نہ دلائیں۔انہیں اپنے پہلو میں بٹھائیں۔خصوصی حالات خصوصی اقدامات کے
متقاضی ہوتے ہیں۔فوجی عدالتوں کی عام حالات میں قطعاََ حمایت نہیں کی جا
سکتی لیکن جب کوئی چارہ نہ رہے تو اصول قربان کرنا پڑتے ہیں۔عوام سرسری
سماعت کی فوری عدالتیں چاہتے ہیں۔سیاستدانوں نے عوام کی اس خواہش کا احترام
کیا۔عوام کو اپنا پریشر برقراررکھنا ہے ۔یاد رہے ہمارے قائدین کو لسی پی کے
سونے کی عادت ہے۔عوام کو انہیں ماتھے کے بالوں سے پکڑ کے بیدار رکھنا
ہوگا۔یہ موقع بھی ہم نے ضائع کر دیا تو پھر بقول شاعر
ایسا نہ ہو کہ درد بنے دردِ لادوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو |
|