آج صبح جب میں اپنے دفتر کے لیے
نکلا اور جونہی اشارے پر رکا تو میں نے محسوس کیا جیسے میرے گرد رُکے لوگوں
کے چہرے کسی ویران بستی کے پست حالات کو ظاہر کر رہے ہوں۔ اس قسم کی
افسردگی، خاموشی اور مایوسی میں نے پہلے کبھی اپنی زندگی میں لاہور کی
سڑکوں پہ محسوس نہیں کی تھی۔ پھر سوچا شاید پشاور کے دل سوز اور المناک
سانحے جو کہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین دہشت گردی کا واقعہ تھاجس میں142
معصوم بچے دندیہاڑے آرمی کے سکول میں شہید کر دیئے گئے ، کا اتنا اثر ہوا
کہ سات دن بعد بھی پاکستانی قوم اس غم سے نہیں نکل پائی ۔ مگرجیسے ہی میں
نے تصویر کا دوسرا ر خ دیکھا تو کشمکش میں پڑ گیا کہ یہ قوم عمران خان کے
دہرنے کیلئے، جماعت اسلامی کے اجتماع کیلئے، نوازشریف کی ریلی کیلئے تو نکل
آتی ہے، لیکن دہشت گردوں ، طالبان اور ان کے حمایتیوں کے خلاف چند سو افراد
بھی باہر نہ نکلے ۔ حتیٰ کہ اسلام آبا د کی لال مسجد کے خطیب نے نہ صرف
طالبان کی مذمت کرنے سے انکار کیا بلکہ ان کے حق میں ایک عدد مظاہرہ بھی کر
ڈالا جو کہ عوام، وفاقی حکومت کے منہ پر زور دارطما چہ ہے۔
اب آ جائیں حکومتی اقدامات کی طرف، ہماری تقریباً آج تک کی تمام حکومتیں
کمیٹیوں اورکمیشنوں پر اکتفا کرتی آئی ہیں جس نے مذہبی شدت پسندی اور
طالبان کے حوالے سے ہمیشہ ہی دوہراہ معیاراپنائے رکھا جس کا خمیازہ ہم
پچھلی کئی دہایؤں سے بھگتے تے ا ٓ رہے ہیں۔ حکومت نے اس دفعہ بھی ایک کمیٹی
تشکیل دی ہے، جودہشتگردی کیخلاف قومی لائحہ عمل کیلئے سفارشات تیار کر رہی
ہے جس کو تاریخ میں شاید پہلی دفعہ فوج کی نہ صرف حمایت اور پشت پناہی حاصل
ہے بلکہ وہ خود متاثرین میں شامل ہے، جس کی وجہ سے یہ امید کی جا سکتی ہے
کہ اس دفعہ ڈالی گئی کمیٹی شاید نکل ہی آئے۔
پاکستان کے مو جودہ معروضی حالات کو اگر دیکھا جائے تو صرف پھانسیا ں دے
دینا اور زیادہ روٹیاں لے جانے والے لوگوں پر نظر رکھنا کافی نہیں ہے بلکہ
اس کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی اور واضح حکومتی پالیسی کی اشد ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ شدت پسندی سے چھٹکارہ پانے کیلئے ریاست میں مذہب کے
استعمال کو روکنا، سکولوں اور مدرسوں کے سلیبس کو از سر نو ترتیب دینا،
تمام حساس اداروں کے باہمی رابطے مضبوط بنانا، تمام مذہبی عبادت گاہوں کی
نگرانی کیلئے حکمت عملی ترتیب دینا، انصاف کے نظام کو آسان اور قابل رسائی
بنانا اورشدت پسندی پر مبنی اشاعت کو سختی کے ساتھ روکنے جیسے اقدامات فوراً
کرنے کی ضرورت ہے۔
تحریر:
فصاحت الحسن |