سانحہ پشاور کے بعد سے ملک بھرمیں دہشت گردی،انتہا پسندی
اور جنوجیت کے خاتمہ کے لئے سخت اور موثر کاروائیوں کی تیاریاں جاری ہیں
اور اس حوالے سے منظر نامہ اب تک واضح نہیں ہو سکا ہے۔مطلب یہ کہ ایسے
عناصر کی پہچان مکمل طور پر واضح نہیں ہے جن کے خلاف کاروائیاں مطلوب
ہیں۔اس واقعہ سے اس بات کی ضرورت ایک بار پھر سامنے آئی ہے کہ افغانستان سے
ملحق سرحد کو مکمل طور پر محفوظ بنانے کے اقدامات کئے جائیں۔یہاں اس حقیقت
کا ادراک بھی ضروری ہے کہ ہماری سابقہ پالیسیوں میں ایسی کیا غلطیاں تھیں
کہ جن کی وجہ سے جہاد افغانستان میں ہمارے بیس کیمپ والے علاقے دہشت گردوں
کے محفوظ علاقے بن گئے اور عسکری گروپ پاکستان دشمنوں کے آلہ کار کے طور پر
استعما ل ہونے لگے۔اس تمام صورتحال میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان
تعلقات کی بہتری دہشت گردی کے خلاف خوش آئند ہے۔نظر یہی آ رہا ہے کہ اب
ہمیں دہشت گردی کے خلا ف جنگ کے ایک نئے دور کا سامنا ہے جس میں پیش بندی
کے اقدامات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔اس حوالے سے ضروری ہے کہ حکومت ،فوج
اور عوام یکجاء ہو کر متفقہ منصوبہ بندی کے مطابق اپنا اپنا کردار سرگرمی
سے ادا کریں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فتح حاصل کرنے کے لئے ناگزیر ہے کہ
عوام کے اشتراک عمل کو یقینی بنایا جائے اور عوام سے متعلق سرکاری اداروں
کی کارکردگی کو کرپشن ،اقرباء پروری اور دھونس سے پاک کیا جائے۔عوام کو
تیسرے درجے کی مخلوق بنائے رکھنے سے قومی اہداف کا حصول مشکل ہی نہیں نا
ممکن بھی ہو سکتا ہے۔
دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف موثر کاروائیوں کی صورتحال میں عوام کو
یہ بات کنفیوز کر رہی ہے کہ ملک میں انتہا پسندی کی سوچ کے خاتمے کے لئے
ابھی تک کوئی فیصلے اور اقداما ت سامنے نہیں آ سکے ہیں۔یہ حقیقت کسی سے
مخفی نہیں کہ طالبان طرز کی ذہنیت ملک میں بری طرح سرائیت کر چکی ہے اور
مذہب کے نام پر ہمارے معاشرے کے لوگ جنونیت اور انتہا پسندی کو جائز تصور
کرتے ہیں۔ملک سے دہشت گردی ،انتہا پسندی ،جنونیت ،جہالت کے خاتمے میں
حکومتی پالیسیوں اور اقدامات کے ساتھ ساتھ اہل قلم کا بھر پور کردار ناگزیر
ہے،اس کے بغیر ہم ان امور پر قابو نہیں پا سکتے جو عام شخص کی ذہنیت کو اس
طرح تبدیل کر دیتے ہیں کہ وہ مذہب کی بنیاد پر انتہا پسندانہ،جنونی،غیر
قانونی اور غیر اسلامی اقدامات کو جائز اور برحق تصور کرنے لگتا ہے۔مذہب کے
نام پر جن افراد نے غیر قانونی،غیر اسلامی اور انتہا پسندی،جنونیت پر مبنی
اقدامات کئے،ان کو معاشرے میں ایک’’ ہیرو ‘‘ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔اگر اس
سوچ اور طرز عمل پر سختی سے قابو نہ پایا گیا تو جس طرح آج ہم طالبان ٹائپ
کے لوگوں کو دہشت گرد،جنونی اور انسانیت کے لئے خطرہ قرار دے رہے ہیں،اس
ذہنیت پر قابو نہ پانے کی صورت عالمی سطح پر تمام پاکستانیوں کو مذہبی
جنونیت کی بنیاد پر انسانیت کے لئے خطرناک قرار دینے کے امکانات میں اضافہ
ہو جائے گا۔حکومت اور فوج کو اس بات کا احساس کرنا ہو گا کہ ہمارے معاشرے
میں عمومی طور پر مذہب کے نام اورجہالت کی بنیاد پر پائی جانے والی جنونیت
پر قابو پانے کے لئے سرکاری اقداما ت کے ساتھ ساتھ اہل قلم کے جہاد کی بھی
اشد ضرورت ہے، جو معاشرے سے جہالت ،جنونیت ،انتہا پسندی اور وحشیانہ طرز
عمل کے خاتمے کے لئے موثر انداز میں کام کر سکیں۔تاہم اس کے لئے بنیادی شرط
یہی ہے کہ حکومت اور فوج معاشرے کے اس منفی رجحان کی تبدیلی کا ’’گراں ‘‘
فیصلہ کرے ۔
عام شہری اس بت پہ حیران ہیں کہ لال مسجد میں فوجی آپریشن کے ایک ذمہ دار
،جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا،کو کس نے دوبارہ لال
مسجد میں آنے کی اجازت دی؟حکومت اور فوج کی ذمہ داری ہے کہ طالبان ذہنیت کے
لوگوں کے خلاف بھی سخت کاروائی کی جائے تاکہ جہالت،جنونیت اور درندگی پر
مبنی اس بیمار سوچ کو ملک میں پھیلنے اور دہشت گردوں کا آلہ کار بننے سے
روکا جا سکے۔ اس واقعہ یہ بات ایک بار بھر ثابت ہو گئی ہے کہ مخصوص بیمار
دماغوں والے یہ دہشت گرد عناصر انسانیت کے لئے خطرہ ہیں۔ان دہشت گردوں اور
ان کی حمایت میں بوگس دلائل دینے والوں کے خلا ف سخت ترین کاروائی اب
ناگزیر ہے۔اسلام کی خو د ساختہ تشریح کرتے ہوئے دہشت گردی کرنے والے دہشت
گردوں کے حوالے سے پاکستانی عوام کی طرف سے شدت سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے
کہ دہشت گردوں،چاہے وہ طالبان کا نام اختیار کئے ہوئے ہوں یا کسی اور نام
سے مذہب کو استعمال کرتے ہوئے معصوم بچوں،شہریوں کے خلاف درندگی کے انسانیت
سوز حملے کرتے ہیں،ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ملک سے دہشت گردی اور
انتہاپسندانہ سوچ و عمل کے خاتمے کے لئے بھرپور اقدامات کایہ بہترین وقت کہ
نا صرف دہشت گردوں بلکہ ملک میں مذہب سمیت کسی بھی نام پر انتہا پسندانہ
،غیر انسانی،غیر اسلامی سوچ رکھنے والوں کا قبلہ درست کیا جائے۔جنونیت اور
انتہا پسندی والی سوچ اور عمل کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائیاں ناگزیر ہیں
تا کہ دہشت گرد عناصر ملک کے معصوم ذہن لوگوں کو مذہب کے نام پر ورغلاتے
ہوئے انہیں اپنے مذموم عزائم کے لئے استعمال نہ کر سکیں۔
دہشت گردی اور انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والوں کے خلاف کاروائیوں میں اس بات
کو بھی یقینی بنانا ناگزیر ہے کہ کوئی بے گناہ اس لپیٹ میں نہ آ جائے۔ملک
میں یہ عام چلن رہا ہے کہ بااختیار اور طاقت والے اپنے مخالفین کے خلاف
کاروائیوں کو جائز سمجھتے ہیں اور ملکی نظام بھی ان کے لئے معاون ثابت ہوتا
ہے۔بلاشبہ پاکستان دہشت گردی، انتہا پسندی اور جنونیت کے خلاف حالت جنگ میں
ہے تاہم یہ جنگ جیتنے کے لئے انصاف کے تقاضوں کو یقینی بنانا ضروری
ہے۔دوسری جنگ عظیم میں جب برطانوی وزیر اعظم چرچل کو بتایا گیا کہ جرمن
طیاروں کی بمباری سے لندن سمیت برطانیہ کے اکثر شہر ملبے کے ڈھیر بن چکے
ہیں تو چرچل نے استفسار کیا کہ کیا ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں اور لوگوں
کو ان سے انصاف مل رہا ہے ؟ اثبات کے جواب پر برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ
پھر برطانیہ کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔بدقسمتی سے پاکستان کے ہر شعبے میں
طبقاتی تقسیم نمایاں اور حاوی ہے،اگر یہی طبقاتی تقسیم دہشت گردی کے خلاف
جنگ میں بھی اثر انداز ہوئی تو اس کے نتائج مہلک ہو سکتے ہیں۔عوام ایک طرف
دہشت گردی اور انتہاپسندی کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ساتھ ہی اپنی سلامتی کے
حوالے سے بھی فکر مند ہیں اور ان خدشات کے شکار ہیں کہ ’’ جو پکڑا گیا وہی
مجرم‘‘ کا چلن کہیں بے گناہوں کو بھی سزایاب نہ کر دے۔عام شہری کی زندگی
تباہ کرنے کے لئے ایک پولیس اہلکار کافی ہوتا ہے ،اب اگر دہشت گردوں،انتہا
پسندوں کو ان کے جرائم کی سزا نہیں ملتی تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ہمارے
سرکاری ادارے اپنا کام ذمہ داری سے ادا کرنے سے قاصر چلے آ رہے ہیں۔سرکاری
اداروں میں رشوت،اقرباء پروری،مفاد پرستی کا چلن عام ہوتے ہوئے ان سرکاری
اداروں سے یہ کیسے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ دہشت گردی ،انتہا پسندی وغیرہ
کے خلاف کاروائیوں میں ان کی طرف سے بے گناہ نشانہ نہیں بنیں گے؟مختصر یہ
کہ سرکاری اداروں کی کارکردگی حکومت، قومی اداروں کے ساتھ ساتھ عوام کے حق
میں بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے،عوام کو دوسرے ،تیسرے درجے کی مخلوق بنائے
رکھنے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ تو کیا ملکی دفاع اور قومی سلامتی کی لڑائی
میں بھی فتح حاصل نہیں کی جا سکتی۔ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ انصاف
کے تقاضے اور عوامی مفاد مقدم رہے اور سرکاری اداروں میں نظر آنے والی
اصلاح کے اقدامات اٹھائے جائیں۔ |