بنگلہ دیش کی درندہ صفت حسینہ واجد

سقوط ڈھاکا کا سانحہ نہ صرف اہل پاکستان بلکہ عالمِ اسلام کے لیے بھی باعث افسوس اور ندامت تھا۔ باعث ندامت اس لیے کہ اہل ایمان کی تاریخ میں اتنی بڑی تعداد میں کسی مسلمان فوج نے کفار کے آگے ہتھیار ڈالے تھے، بھارت نہیں چاہتا تھا کہ یہ نظریاتی مملکت وجود میں آئے۔ لیکن ہماری بے مثال قیادت نے دنیا کے نقشے پر ایک نظریاتی ریاست کی داغ بیل ڈال دی۔ بھارت مسلم دشمنی میں بے انتہا سر گرم رہا، کہ کسی طرح یہ مملکت پھلنے پھولنے نہ پائے، اور یہ ریاست اسلامی نظریے کے عزائم میں کامیاب نہ ہوسکے۔ بھارت، پاکستان دشمنی میں اندرونی وبیرونی سازشیں کرتا رہا، وہ مشرقی پاکستان، سندھ اور بلوچستان میں احساس محرومی پیدا کرنے کے لیے سرگرم ہوگیا اور اس نے اپنے ایجنٹ تلاش کرلیے۔ بھارت نے ہمارے پرنٹ میڈیا کو اپنا ہم نوا بنایا۔

بانی پاکستانؒ کی وفات کے بعد یہ نظریاتی مملکت، مفاد پرستوں کے ہاتھ آگئی اور پھر انہوں نے ذاتی مفادات کو ملکی مفادات پر اہمیت دی۔ اب یہ ملک امریکا کا غلام بنایا جارہا تھا، حکمراں اس غلطی کا ادراک نہ کرسکے، بلکہ ارادتاً لالچ اور مفادات کی خاطر اس کے اسیر بن کے رہ گئے۔ امریکا نے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو کم اہمیت دے رکھی تھی۔ پھر بھی ہمارے حکمران اس سے خبردار نہ ہوسکے۔ بھارت پاکستان میں ہر جگہ سازشوں میں مصروف رہا۔ ہمارے حکمراں اب اسلامی نظام حیات کے علم بردار افراد کو اپنے مفادات کی راہ میں رکاوٹ سمجھ رہے تھے اور مشرقی پاکستان اب بھارت کی سازشوں کی آماج گاہ بن چکا تھا۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کو ہم سے اگر کچھ شکایات تھیں، تو اس کا حل اُن کی جائز شکایات رفع کرنے میں مضمر تھا، لیکن ہماری فوجی قیادت نے بھی ان کے حقوق پامال کیے، عام انتخابات میں ان کی کامیابی کو مسترد کردیا گیا۔ فوج نے طاقت کے استعمال ہی کو ضروری سمجھا، بھارت کے ایجنٹوں نے اس پر مزید احساس محرومی کا راگ الاپا، نتیجتاً یہ ملک دولخت ہوگیا، یہ الم ناک حادثہ ملک وملت کے لیے کسی بھی طرح قیامت صغریٰ سے کم نہ تھا۔ بھارت کے ایجنٹ اس پر شاداں وفرحاں تھے، خوشی کے آثار نہ صرف ان کے چہروں پر نمایاں تھے، بلکہ انہوں نے اس پر کالم اور کتابیں لکھ کر بھی خوشی کا اظہار کیا، میر برادران نے اپنی تحریروں پر ان سے تمغے حاصل کیے، وارث میر، حامد میر، عامر میر کی تحریریں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اس وقت بھی وہ بھارت سے نمک حلالی کرتے نظر آتے ہیں۔ حکومت پاکستان میڈیا کی طرف سے محب وطن لوگوں کی دل آزاری پر خاموش تماشائی بنی نظر آتی ہے، پاکستان میں شاید ایسا کوئی قانون نہیں جو مکروہ کوششوں پر قدغن لگا سکے، پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا گیا ہے، لیکن حکومت کوئی قدم اٹھانے کو تیار نہیں۔ ایسے لوگوں کو عبوری حکومتوں میں شامل کیا جاتا ہے جو ترقی پسند کہلانے میں شہرت پاتے ہیں۔ اس لیے کہ حکومت وقت ان کی سرپرستی کرتی نظرآتی ہے۔ یہ کیوںکر ممکن بن سکا، کہ وہ ملک کو توڑنے والوں سے اعزازی تمغے حاصل کرنے کی جرا ¿ت وہمت کررہے ہیں۔ ملا عبدالقادر کو پھانسی دی جائے، یا پروفیسر غلام اعظم کی قید وبند میں شہادت واقع ہو، یہ لوگ احتجاجی کالم لکھنے کے بجائے ان پر ایسے کالم لکھنے کی جرا ¿ت کررہے ہیں جو ان محب وطن شہداءکے لیے توہین آمیز قرار دیے جانے کے قابل ہیں۔ کیا تختہ دار کو چومنے والے یہ لوگ ملک کے اہل وفا نہیں؟ کیا فوج کے اڑے وقت میں کام آنے والے یہی لوگ نہ تھے، جو نہتے ہونے کے باوجود بھی فوج کے شانہ بشانہ تھے، یہ لوگ پاکستان کی محبت میں سزاوار ٹھیرائے گئے ہیں۔ ان کا اور کوئی قصور ثابت نہیں ہوا۔ یہ نام نہاد جنگی جرائم کی عدالتیں، حکومت بنگلادیش اور بھارت کے ایما پر فیصلے صادر کررہی ہیں اور انصاف کے قتل کی مرتکب ہورہی ہیں۔ بنگلا دیش کی حسینہ واجد اپنے ملک کے محب وطن لوگوں پر جو قیامت ڈھا رہی ہے، اس کو بالآخر اس کا حساب دینا ہوگا۔ اس کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت کس طرح یہاں انار کی پیدا کرنا چاہتا ہے اور ایک کمزور بنگلا دیش ہی میں وہ اپنا مفاد سمجھتا ہے۔ حسینہ واجد کو عقل کے ناخن لینے چاہئیں۔ خوف خدا بھی کرنا چاہیے اور مکافات عمل کے قدرتی قانون کو سمجھنا چاہیے۔ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے، اس کا پورا خاندان قتل کیا جاچکا ہے۔ اس کو اپنی زندگی بخشنے پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے تھا۔ نہ کہ قتل وغارت گری، جو آج کل وہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کے خاندان کے قاتل جماعت اسلامی بنگلادیش کے لوگ تو نہ تھے، کہ وہ ان سے انتقام لے رہی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو ملک کے دولخت ہونے اور اس عظیم سانحے میں ہمارے لیے بھی کچھ عبرت کا سامان موجود تھا لیکن دیکھا یہ جارہا ہے کہ ہماری حکومتیں ایک دفعہ پھر غفلت کا شکار ہیں۔ اس وقت ہمارا ازلی دشمن بھارت پہلے سے کہیں زیادہ سرگرم نظر آتا ہے۔ صوبہ سندھ، بلوچستان، میں اُس نے سازشوں کے جال پھیلا رکھے ہیں پھر بھی ہماری حکومتیں اپنے عوام کے خلاف طاقت کے استعمال پر تُلی ہوئی ہیں اور بزور طاقت عوام کو خاموش کرانے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سقوط ڈھاکا سے سبق حاصل کرتے ہوئے، عوام کی خوش حالی کو یقینی بنایا جائے۔ لوگوں کے دل محبت ہی سے جیتے جاسکتے ہیں۔ طاقت کے اندھے استعمال سے تو بغاوت ہی نمودار ہوتی ہے۔ ہماری موجودہ حکومت بھارت سے بے شک بہتر تعلقات استوار کرے، لیکن اس پر بھی واضح کردینا چاہیے کہ بہتر تعلقات کے لیے طرفین کا پرخلوص ہونا لازمی امر ہے، لیکن آج کل یک طرفہ محبت چل رہی ہے۔ ہم بھارت کے وزیراعظم کو آموں کے تحفے ارسال کرتے ہیں اور وہ اس کے صلے میں ہمارے جوانوں کی لاشوں کے تحفے بھیج رہا ہے۔ وہ سازشوں میں مصروف ہے اور ہم اس کی محبت میں مرے جارہے ہیں پورے ملک میں اس کی سازشوں کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم اس کی ہر سازش کو درگزر کرتے نظر آتے ہیں۔

پاکستانی حکومت کو چاہیے وہ اپنے ان محب وطن لوگوں کے لیے بھرپور آواز اٹھائے اور قانونی واخلاقی ہر قسم کے تعاون کو یقینی بنائے۔ اس مسئلے کو بنگلادیش کا اندرونی معاملہ قرار دینا ہماری بزدلی کے سوا اور کچھ نہیں۔ افواج پاکستان بھی اس پر اپنے بیان جاری کریں اور اپنے ان محب وطن لوگوں کے لیے جو قدم اٹھا سکتی ہیں وہ اٹھائیں۔

Nayyer Bhai
About the Author: Nayyer Bhai Read More Articles by Nayyer Bhai: 2 Articles with 1232 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.