ایک مرتبہ ایک جاپانی وفدبھارت کے صوبہ بیہار میں آیا اور
وہاں کے وسائل و مسائل پر تحققات کرنے کے بعد انہوں نے وہاں کے وزیر اعلیٰ’’
لالو پرساد یادیو ‘‘سے دوران ملاقات علاقے میں چھپے قدرتی خزانوں کا زکر
کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ اس ریاست کو آٹھ سال کے لئے ہمارے حوالے کر دیں تو
ہم اسے جاپان بنا سکتے ہیں تو جواباً محترم ’’لالو پرساد یادیو‘‘ نے ٹھوک
کر جواب دیتے ہوئے کہا کہ جناب یہ کیا بات ہوئی ۔۔۔آپ آٹھ سال کے لئے جاپان
ہمارے حوالے کریں ہم اسے بیہار بنا دیں گے ۔تاریخ گواہ ہے کہ پورے ریجن کی
سیاست میں ایک چیز مشترک ہے کہ پوری دنیا کی سیر کرنے والے و اپنی انکھوں
سے دور حاضر کی انسانی ترقی کو دیکھنے والے ناں تو ملکی ترقی کے لئے کوئی
دور رس وژن رکھتے ہیں نہ ہی ایسے کسی وژن کو پنپنے دیتے ہیں، اگر کوئی ایسی
کلی سر اٹھائے تو سب مل کر اسے پاؤں تلے مسلنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں ۔
ابتداء سے ہی پاکستان میں سول و فوجی اسٹبلشمنٹ کے درمیاں اختیارات و
اقتدار کی کشمکش رہی ہے نتیجتاًملک میں بارہا مارشل لاء رہا اور سول
حکومتیں اور سیاسی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہا اور ماتحت اداروں میں کوئی
قابل قدر بہتری دیکھنے میں نہ آسکی چونکہ صاحب اختیارات کی تمام تر توانیاں
حصول اقتدار اور اس کے دوام کے لئے صرف ہوتیں رہیں اور ہر دور میں ایوانوں
میں براجمان حکمرانوں نے اداروں کی تشکیل نوعوامی نہیں زاتی مفادات کے لئے
کی نتیجتاً بیوروکریسی میں ایک ایسی کیفیت ایسا نظام وجود میں آگیا کہ جس
کے ہوتے ہوئے عوامی فلاح و مسائل کا حل خارج از امکان ہو گیا اورروزز مرہ
انسانی زندگی کے مسائل کو پھیلنے پھولنے کے کئے کافی وقت ملا ۔یوں حصول و
وصول کے کھیل نے فریقین کے کردار و اہلیت کو ہی متاثرکیا بلکہ سماج کی جڑوں
کو بھی کھوکھلا کر دیا۔
گزشتہ فوجی حکومت کے اختتام کے بعد جب ملکی آئین بحال ہوا تو سیاسی فضا و
ماحول کچھ یوں تھے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ خارجہ امور سمیت اہم ترین
قومی امور پرسول حکومت کے پاس مکمل اختیارات آگئے جو کہ اہم ترین ملکی
اداروں کی اصلاحات کے لئے ایک سنہری موقع تھا لیکن کیا ہوا۔۔۔؟ ان تمام
احباب نے حسب روائت اداروں پر کنٹرول کا گھناؤنا کھیل شروع کر دیا جس میں
مخالف پارٹی سے وابستہ لوگوں کی جگہ اپنے لوگوں کو اہم ترین عہدوں پر فائز
کرنا۔ایسے حالات میں اہلیت کوئی شرط نہیں ہوتی اور ان بے ہنگم مصروفیات کے
باعث انہیں علم ہی نہ ہوسکا کہ پلوں کے نیچے سے کتنا پانی گزرگیا اور ملک
بدعنوانی میں دوگناہ ترقی کر گیا جب کہ خارجہ امور جیسے اہم ترین امورسمیت
بین الاقوامی قرضے اور پڑوسی ممالک سے رشتوں مسئلہ کشمیرو افغانستان ودہشت
گردی جیسے امور کوثانوی حیثیت دیتے ہوئے کئی ایک ایسے فیصلے کئے گئے جس سے
ملکی ساکھ مجروع ہوئی ۔یہ وہ دور تھا جب ملک میں نوجوانوں کی ایک بڑی کھیپ
جو ملکی سیاست میں وارد ہوئی جن کے باعث سیاسی فضا میں ایک واضع تبدیلی آئی
۔ملک کے اندر گلے سڑے بدعنوان نظام سے نجات کے لئے عوامی مطالبے نے زور
پکڑا ۔جواب میں حکمراں اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنے پر بضد نظرآئے اور قوم دو
واضع حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔اور اکثریت کا مطالبہ تھا کہ پورے نظام میں
بنیادی اصلاحات کا نفاذ ہو ۔حکمراں اس عوامی تحریک کے تمام مطالبات جنہیں
وہ صیح بھی مانتے تھے کو محض اس لئے تسلیم کرنے سے انکاری تھے کہ اس کا
کریڈیٹ مخالف پارٹی کو نہ ملے اور اس سارے منظر نامے میں اسٹبلشمنٹ نے بڑی
مہارت سے پتے کھیلتے ہوئئے وہ تمام اختیارات جن سے وہ محروم ہو چکے تھے ایک
بار پھر حاصل کر لئے،جس کا پہلا ثبوت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب
کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے بڑی مدت کے بعد مسئلہ کشمیر پر بات کی ،جب
کہ وہ اس سے پہلے بھارت کو مسئلہ کشمیر پر کئی ایک رعائت دے چکے تھے ۔اور
ان کی ایسی ہی پالسیوں کے باعث بھارت کو ریاست میں جاری تحریک آزادی کو
دبانے کا موقع ملااور دوسری بڑی دلیل سانحہ پشاور کے فوری بعد آرمی چیف کی
فوراًکابل یاترہ ہے ۔۔۔اگر حکومت بااختیار ہو تو پہلے اعلیٰ سطح کا اجلاس
ہوتا اور پھر سیکرٹری خارجہ کو کابل بھیجا جاتا نہیں تو وزیر خارجہ کو ،یہ
وہ واقعات ہیں جن سے پتہ چلتاہے کہ اسٹبلشمنت نے وہ سب واپس لے لیا جس سے
وہ چند برس پہلے دستبردار ہوئے تھے ۔اور آج اسلام آباد کے وزیر اعظم ہاؤس
میں بیٹھے شخص میں اور شوکت عزیز ،ظفراﷲ جمالی میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہ
تب ہوا جب انا کے خول میں بند یہ عوامی لیڈرشپ عوامی چیخ پکار کو نظر انداز
کرتی رہی ،سات عشروں سے چیچک زدہ تعلیمی نظام اور سرکاری اسکولز میں بہتری
لانی تھی وہاں دانش سکول ۔۔۔جہاں پولیس کے بھانک چہرے کو کسی بین الاقوامی
بیوٹی پارلر میں لیجاتے تاکہ اسے دیکھ کر عوام خوفزدہ نہ ہوں انہوں نے
اربوں روپے لیپ ٹاپ اور میٹرو بس پر لگا دئے ۔۔۔جہاں ستر فیصد غربت کے حامل
ملک کے عوام کے لئے دوورس پالیساں بننا تھیں وہاں ماہانہ ایک ہزار روپئے کے
نام پر بینظیر سپوڑٹس پروگرام کے نام پر عوام کو بھیکاری بنا دیا گیا ۔۔۔
تیس چالیس برسوں سے کروڑوں مقدمات عدالتوں میں پھنسے ہیں اور ایک شخص جسے
بھرپور عوامی مہیم کے نتیجہ میں عدالت میں بٹھایا گیا کہ وہ آزاد عدلیہ
تشکیل دے گا ۔۔۔کیا ہوا ؟ پانچ برس عوام کو ’’چٹھیئے سجناں دیئے ‘‘ کے
پیچھے لگائے رکھا مگر ماتحت عدالتی نظام کو بہتر کرنے کی کوئی کوشش ناں کی
اور آج پھر ایک اہم موقع آیا جب حکمراں طبقہ اس نظام عدل میں فوری انقلابی
تبدیلیا ں لاتے مگرخود سے پیدا کئے گئے غیر معمولی دباؤ کے ہوتے اسے بلکل
نظر انداز کرتے ہوئے ایک مکمل متوازی عدالتی نظام پر متفق ہو گئے ۔۔۔جس نے
کئی سوالات کو جنم دیا ۔۔۔اس ملک کو بنے ستر برس ہونے والے ہیں لیکن یہاں
ایوان اقتدار پر براجمان صاحب اقتدار آج بھی اس نظام کے محافظ بنے بیٹھے
ہیں جس نے اس ملک کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے اور یہ کسی بھی حد تک
جانے کے لئے تیار ہیں لیکن اس نظام کو بہر صورت قائم رکھنے پر محضر ہیں
،ایک ایسا نظام جو صرف حکمرانو ں کا محافظ رہتا ہے اور کبھی کبھی سیاستدان
خودبھی اس کا شکار ہو تے رہے ہیں لیکن جو بھی آتا ہے اپنے آج کی فکر ساتھ
لاتا ہے اس ملک کو ایسے لیڈرکی ضرورت رہی ہے جو اس کل کی فکر ساتھ لے کر
آئے ۔ |