فوجی عدالتوں کے قیام آصف علی زرداری کے بیانات کے پیچھے کیا خوف اور خدشات پوشیدہ ہیں؟

بے نظیر بھٹو شہید کی برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم فوجی عدالتوں کے قیام قانون پر اس وقت دستخط کریں گے جب ہمیں اطمینان ہوجائے گا کہ یہ عدالتیں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان فوجی عدالتوں کو کسی دائرہ میں نہ رکھا گیا توکہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مجھے اور نواز شریف کو اسی قانون کے تحت جیل میں ڈال دیا جائے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے واضع کیا کہ ان فوجی عدالتوں کو کسی سیاسی جمہوری جماعت ،دانشور اور صحافی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔

آصف علی زرداری کی تقریر کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ہاؤس میں فوجی عدالتوں کے قیام پر رضامندی ظاہر کرنے کے بعد اب یوٹرن کیوں لیا ہے؟کیا ہتمام سیاسی جماعتوں کے مشاورتی اجلاس میں فوجی عدالتوں کے قیام پر ’’ ہاں ‘‘ کرنے سے قبل چودہری اعتزاز احسن اور قائد حز اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے لندن میں آصف علی زرداری یا پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری سے مشاورت نہیں کی تھی؟ اگر مشاورت ہوئی تھی تو پھر سابق صدر کو اپنے تحفظات طاہر کرنے کی نوبت اور ضرورت کیوں پیش آئی؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ زرداری صاحب کسی انجانے خوف میں مبتلا ہیں اور وہ آرمی چیف یا ڈی جی آئی ایس آئی سے براہ راست اس امر کی یقین دہانی چاہتے ہیں کہ فوجی عدالتیں صرف اور صرف دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کریں گی اور انہیں سیاسی جماعتوں ،سیاسی راہنماؤں اور صحافیوں کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔

شائد آصف علی زرداری کے ذہن میں میاں نواز شریف کے دور میں اپنے خلاف بنائے گئے دہشت گردی کے ایک مقدمے کا نقش ثبت ہے۔ اس کیس میں پولیس کا دعوی تھا کہ آصف علی زرداری نے اپنے ایک مخالف سیاستدان الطاف حسین انٹر کو تاوان کے لیے اغواء کیا اور اس تاوان دینے پر مجبور کرنے کے لیے زرداری صاحب نے اس کی ٹانگوں پر بم باندھ دیا تھا۔الطاف حسین انٹر غلام حسین انٹر کے بھائی تھے ۔یہ ایام زرداری صاحب کے لیے انتہائی اذیت ناک تھے۔ یہ جھوٹا مقدمہ دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں چلایا گیا تھا۔آصف علی زرداری اس مقدمہ کے تناظر میں فوجی اور حکمران قیادت سے یقین دہانی چاہتے ہیں کہ فوجی عدالتوں کو سیاسی جماعتوں ،سیاسی قائدین ،صحافیوں اور دانشوروں کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔

آصف زرداری نے گڑھی خدا بخش میں ایکبار پھر ’’ بلے‘‘ کو للکارا ہے۔ آصف علی زرداری پہلے جب ’’ بلے ‘‘ کو للکارتے تھے تو لوگوں کو ابہام رہتا تھا کہ ’’بلے‘‘ سے انکی مراد کون ہے۔ لیکن اس بار ابہام نہیں رہا کیونکہ ’’بلے ‘‘ سے انکی مراد جنرل پرویز مشرف ہے۔ ان کا خیال ہے کہ فوج جنرل مشرف کے ذریعے سیاست سیاست کھیل رہی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں یہ بھی خدشہ لاحق ہے کہ فوج جنرل مشرف کے کچھ ساتھیوں کو استعمال کرتے ہوئے سندھ حکومت کو ختم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔

فوجی قیادت اور سیاست قیادت کے ایک پیج پر آنے کی خبر پر ابھی ہنی مون ختم نہیں ہوا تھا کہ زرداری صاحب نے اپنے تحفظات اور خدشات کا بم گرا دیا۔یہ وقت اپنے اتحاد کے مظاہرے کا وقت ہے نہ کہ دنیا کو دکھایا جائے کہ ہم منتشر قوم ہیں۔فوجی قیادت اور حکومت کے سربراہ کو چاہیے کہ جس قدر جلد ہو زرداری صاحب کے تحفظات کو دور کیا جائے۔کیونکہ یہ صرف زرداری صاحب کے ہی نہیں بہت سے حلقوں کی جانب سے ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی مولانا فضل الررحمان کے تحفظات اور خدشات دور کرنے کے لیے ان سے ملنے والے ہیں۔میری نظر میں ڈی جی آئی ایس آئی کا مولانا فضل الررحمان سے ملنے اور ان کے تحفظات دور کرنے کا فیصلہ فوجی قیادت کا قابل تحسین اقدام ہے ۔مولانا صاحب سے ملنے کے بعدآصف علی زرداری ڈی جی آئی ایس آئی کو سابق صدر زرداری سے بھی مل لینا چاہیے اور فوجی عدالتوں کے دائرہ کار اور سندھ حکومت کے حوالے سے ان کے خدشات کو ختم کیا جانا ضروری ہے۔ کیوں کہ بقول وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوجی و سیاسی قیادت ایک صفحے پر آ چکی ہے ،تو اب اس اتحاد میں دراڑ پیدا نہیں ہونی چاہیے۔مجھے کامل یقین ہے کہ جب انہیں فوجی قیادت کی جانب سے یہ اطمینان دلادیا جائے گا تو پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کے قانون کی تائید و حمایت کردے گی۔ بصورت دیگر فوجی اور سیاسی قیادت کا اتحاد ٹوٹنا ہماری بد قسمتی اور دہشت گردوں کی خوش قسمتی تصور کی جائے گی۔

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144498 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.