لو ایک اور سال تمام ہوا۔۔عہد ِ
رفتہ کا ایک اور باب رقم۔۔گذرا سال اپنے دامن میں انتہائی تلخ یادیں لئے
رخصت ہوا۔۔۔اتنی تلخ یادیں جو شاید ہم بھلائے بھی نہ بھول پائیں۔۔2014ء میں
5اہم واقعات رونماہوئے سانحہ ٔ ماڈل ٹاؤن جس میں پولیس اہلکاروں نے نہ جانے
کس کے اشارے پر اپنے ہی ہم وطن150کے قریب لوگوں کو معمولی تنازعہ پر گولیاں
ماریں جن میں 17افراداپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔۔۔دوسرا اہم ترین واقعہ
پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک ِ انصاف کے دھرے تھے جو کئی ماہ
جاری رہے ۔۔۔تیسرااہم ترین واقعہ پشاورمیں دہشت گردوں نے آرمی سکول پرحملہ
کرکے معصوم بچوں سمیت141افرادکو شہید کرڈالا۔۔۔چوتھا اہم ترین واقعہ سانحہ
ٔ ماڈل ٹاؤن کیس میں وزیر ِ اعظم میاں نوازشریف،وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں
شہباز شریف سمیت کئی وفاقی وصوبائی وزراء کے خلاف قتل اور دہشت گردی
پرFIRکا اندراج کیا گیا۔اور ستم ہائے ستم تمام اہم واقعات کا کوئی منطقی
انجام نہیں ہوالیکن پانچواں اہم واقعہ حکومت کی طرف سے سزائے موت بحال کرنا
ہے جس اب تلک کئی دہشت گردوں کو پھانسی دی جا چکی ہے اور ہزاروں سزائے موت
کے مجرم اس کی زدمیں آنے والے ہیں ۔۔۔شاید ایک بات ہم بھول گئے اس جمہوری
حکومت کے وزیر ِ اعظم میاں نواز شریف نے دہشت گردی کے مقدمات چلاے کیلئے
ملٹری کورٹ بنانے کااعلان کیا ہے جس پر کئی سیاستدانوں اور جماعتوں نے شدید
تحفظات کااظہارکیاہے سابق صدر آصف علی زرداری نے تو یہاں تک کہہ ڈالا ہے
کہیں اس کی زدمیں آکر میں اور نواز شریف جیل نہ چلے جائیں۔۔۔ان تمام واقعات
کے باوجود ہمیں نئے سال سے بہت سے امیدیں وابستہ ہیں کسی سے امیدیں وابستہ
کرنا اچھی بات ہے اسے خوش فہمی بھی کہا جا سکتاہے ہم نے پہل بھی کہاہے کہ
امید گھپ ٹوپ اندھیرے میں چمکتے ہوئے جگنوؤں کی مانند ہوتی ہیں پاکستان
بنانے کا خواب بھی ایک امید تھی جو اﷲ کے فضل سے یوری ہوئی اب اس وطن کو پر
امن ، خوشحال اور ہر لحاظ سے مضبوط اور مستحکم بنانے کا خواب ہماری جاگتی
آنکھیں اکثر دیکھتی رہتی ہیں اﷲ کرے یہ خواب بھی شرمندہ ٔ تعبیرہو۔۔۔۔ایک
خواب ہے اس ملک سے عوام کی محرومیاں دو رہوں اس مملکت ِ خدادادکو کوئی ایسا
حکمران مل جائے جو قوم کی محرومیاں اور مایوسیاں دور کرنے کیلئے اقدامات
کرے یہاں کی اشرافیہ اپنے ہر ہم وطن کو اپنے جیسا سمجھے کیونکہ یہ بات طے
ہے پاکستان کو جتنا نقصان یہاں بسنے والی اشرافیہ نے پہنچایاہے کسی دشمن نے
نہیں پہنچایا ہوگا پاکستان کے تمام مسائل اور عوام کی محرومیوں کے یہی ذمہ
دارہیں یہ ان لوگوں نے اس ملک کو کبھی سونے کا انڈہ دینے والی مرغی سے
زیادہ اہمیت نہیں دی ۔۔۔اب نیا سال طلوع ہوا ہے تو دل میں پھر حسرتیں امڈ
آئی ہیں۔۔۔ امیدیں جاگ اٹھی ہیں۔۔ ترقی و خوشحالی کی خواہشات انگڑائیاں لے
رہی ہیں ۔اﷲ خیر کرے ہمیں اس بات کا بھی قلق ہے کہ پاکستان کو اسلام کے نام
پر بننے والے ملک میں کہیں فرقہ واریت،لسانی جھگڑے معمول بن گئے ہیں کہیں
جمہوریت۔۔۔کہیں خلافت اور کہیں اسلام کے نام پراپنے ہم مذہب بھائیوں کے گلے
کاٹے جارہے ہیں ۔۔۔ کہیں معاشی استحصال ہورہاہے یاان کے حقوق غصب کئے جاتے
ہیں خودکش حملے، بم دھماکے،ٹارگٹ کلنگ ایک الگ مسائل ہیں جنہوں نے پوری قوم
کا جینا حرام کررکھاہیاس میں کوئی شک نہیں پاکستان کو اﷲ نے بے شمار وسائل
سے نوازاہے لیکن یہ دولت فلاح ِ انسانیت کیلئے خرچ ہونی چاہیے ۔۔۔عوام کی
حالت بہتربنانے پر صرف کی جانی چاہیے۔۔غربت کے خاتمہ کیلئے منصوبہ بندی
کیلئے ٹھوس اقدامات متقاضی ہیں جرم، ناانصافی اور سماجی برائیوں کے قلع قمع
کے لئے کام کرنے کا اہتمام ہونا چاہیے ۔۔۔ پو ری دنیا میں شاید سب سے زیادہ
پروٹوکول پاکستانی حکمرانوں کاہے جن کی آمدورفت کے موقعہ پر گھنٹوں ٹریفک
جام رکھنا عام سی بات ہے اس دوران ایمبو لینسوں میں مریضوں کی موت واقع ہو
جائے،طالبعلم کو تعلیمی داروں اور ملازمین کودفاتر سے دیر بھی ہو جائے تو
حکمرانوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔۔ ۔ہماری اشرافیہ نے ان کے مقدرمیں
محرومیاں اور مایوسیاں لکھ دی ہیں اور جب مایوسیاں حدسے زیادہ بڑھ جائیں
انسان کو اپنی ذات سے بھی محبت ختم ہو جاتی ہے ۔۔۔ اس ملک میں امیر امیر تر
۔۔غریب غریب ترین ہوتا جارہا ہے دعا ہے کہ یہ نظام بھی بدلنا چاہیے ۔۔ہم
پاکستانی ایک ملک میں رہنے کے باوجودمگر آج بھی سندھی ،بلوچی،پٹھان اور
پنجابی کی تفریق سے باہر نہیں نکلے۔۔۔پاکستان کا آج جو بھی حال ہے اس کیلئے
حکمران۔اشرافیہ ۔۔قوم پرست۔۔کرپٹ سب ذمہ دارہیں ہمیں اس خول سے باہر
نکلناہوگا۔۔اب نیا سال طلوع ہوا ہے تو دل میں پھر حسرتیں امڈ آئی ہیں۔۔۔
امیدیں جاگ اٹھی ہیں۔۔ ترقی و خوشحالی کی خواہشات انگڑائیاں لے رہی ہیں
خداکرے جو مسائل ملک وقوم کو گذشتہ سالوں میں درپیش تھے وہ سال ِ نومیں نہ
ہوں اورہمارے ہونٹوں پر یہ دعا مچلتی رہے
کوئی’’ضبط‘‘ دے نہ’’جلال‘‘ دے
مجھے صرف اتنا ’’کمال‘‘ دے
میں ہر ایک کی ’’صدا‘‘ بنوں
کہ’’زمانہ‘‘ میری’’مثال‘‘ دے
تیری ’’رحمتوں‘‘ کا ’’نزول‘‘ ہو
میری ’’محنتوں‘‘ کا ’’صلہ‘‘ ملے
مجھے’’مال وزر‘‘ کی ’’ہوس‘‘ نہ ہو
مجھے بس تو ’’رزقِ حلال‘‘ دے
میرے’’ذہن‘‘ میں تیری ’’فکر‘‘ ہو
میری ’’سانس ‘‘ میں تیرا ’’ذکر‘‘ ہو
تیرا ’’خوف‘‘ میری ’’نجات‘‘ ہو
سبھی’’خوف‘‘ دل سے نکال دے |