سولہ دسمبر انیس سو اکہتر کو ہم نے اپنی نا اہلیوں
کوتاہیوں اور بد بختیوں کی وجہ سے اپنا آدھا ملک گنوا دیا تھا۔عمر کم تھی
لیکن میں نے اس دن اور اس کے بعد بہت دنوں تک اس واقعے کو یاد کر کے
پاکستانیوں کو دھاڑیں مار مار کے روتے دیکھا۔پھر انہی بد نصیب کانوں اور
حرماں نصیب آنکھوں نے انہی پاکستانیوں کی اولاد ہی کو یہ کہتے سنا اور
دیکھا کہ اچھا ہی ہوا غدار بنگالیوں سے ہماری جان چھوٹ گئی۔آئے روز وہاں
آنے والے سیلابوں نے ہماری بھی مت ماری ہوتی تھی۔یار لوگ نئے پاکستان کو
پرانا کرنے میں لگ گئے۔آہستہ آہستہ لوگ سب بھول بھال گئے۔ہم سو جاتے ہیں
ہمارا دشمن لیکن سوتا نہیں اورہمیں بھی سونے نہیں دیتا۔وہ ہمہ وقت ہمارے
جسموں کے ساتھ ہماری روح کو بھی کچوکے لگاتا رہتا ہے۔ کیا کیا حادثے تھے جو
اس ملک کے ساتھ گذر گئے لیکن ہم ہر نئے حادثے کے بعد پرانے حادثے کو یوں
بھول جاتے ہیں جیسے وہ وقوع پذیر ہی نہ ہوا ہو۔
ہر سال سولہ دسمبر کو میرے جیسے کچھ یاسیت اور یبوسیت کے مارے سانحہ مشرقی
پاکستان کو یاد کیا کرتے تھے لیکن بحیثیتِ قوم ہم بھول چکے تھے کہ اس دن
ہمارے ساتھ کیا ہوا تھا۔سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کو دشمن نے اپنے گماشتوں
کے ذریعے اسی پرانے زخم کے کھرنڈ نوچ ڈالے۔پشاور سانحہ نے جہاں معصوموں کے
خون کی ندیاں بہا دیں وہیں اس قوم کو اچانک یاد آ گیا کہ اسی تاریخ کو ایک
بار پہلے بھی ہمارے ساتھ ایک خونچکاں حادثہ رونما ہو چکا ہے۔لمحہ مو جود کے
سانحے کا دکھ بھی کم نہ تھا لیکن سولہ دسمبر نے اس کی اذیت دو چند کر
دی۔قوم کے لئے یہ ایک بڑا دھچکا تھا۔اس تاریخ کو رونما ہونے والے اس واقعہ
نے قوم کو یکجہتی اور یکسوئی عطا کر دی۔ساری قوم ہم آواز ہو کے پاک فوج کے
شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی۔وزیر اعظم نے بھی بے عملی سے جان چھڑا کے اس جنگ کی
قیادت کرنے کی ٹھانی۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف جنرل رضوان کو لے
افغانستان چلے گئے۔افغان حکومت کو اپنے درد سے آگاہ کیا۔ان سے مدد کی
درخواست کی اور واپس آ کے سارے سیاستدانوں کو فیصلہ کرنے کے لئے ایک میز پہ
بٹھا دیا۔پاکستانی سیاستدانوں نے اپنے مفاد کے علاوہ کبھی خدا کی وحدانیت
پہ بھی اتفاق نہیں کیا۔ کچھ تو شاید اس حادثے کی سفاکی اور ہولناکی اس قدر
تھی اور کچھ شاید ان کو اکٹھا بٹھانے والوں کے تیور کہ انہوں نے بھی اس
نازک موقع پہ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔
دھڑا دھڑ کمیٹیاں بننے لگیں۔پھر سب کمیٹیاں۔سزائے موت پہ غیر اعلانیہ
پابندی کو فی الفور ختم کر کے سزائیں دینے کا اعلان کیا۔سب سے پہلے فوجی
عدالتوں سے سزایافتہ مجرموں کے ڈیتھ وارنٹس پہ دستخط کئے اور ان مجرموں کو
تختہ دارپہ لٹکا دیا گیا۔اجلاس پہ اجلاس ہوئے پھر ان پہ اجلاس ہوئے ۔چوہدری
نثار بھی ایکٹو ہو گئے ۔لگنے لگا کہ وہ واقعی پاکستان کے وزیر داخلہ
ہیں۔سیاسی قائدین کا دوسرا اجلاس ہوا۔واقعے کو ایک ہفتہ گذر گیا تھا۔پہلے
دن کی یکسوئی اور یکجہتی تو نہ تھی لیکن پھر بھی فیصلے اتفاقِ رائے سے
ہوئے۔قوم نے دیکھا کہ سیاستدانوں کی سمت صحیح ہے تو انہوں نے معاملات
سیاستدانوں کے سپرد کر دئیے۔شاید قوم کو تسلی ہو گئی کہ اب معاملات کو ان
کے اصلی تناظر میں دیکھا جائے گا۔اب بقول منیر نیازی حرکت تیز تر ہے اور
سفر آہستہ آہستہ۔لوگ بھی بھول بھال گئے ہیں اور حکومت تو چلتی ہی عوام کے
پریشر میں ہے۔ابھی صرف پندرہ دن گذرے ہیں ۔پندرہ دن اور گذر گئے تو کون سا
واقعہ اور کون سا سانحہ؟ہمیں ایک نئے دریا کا سامنا ہوگا اور بس۔
الطاف حسین نے لندن سے اپنے خطاب میں سب سے پہلے فوجی عدالتوں پہ اعتراض
کیا۔انہوں نے چیف کو مشورہ دیا کہ فوجی عدالتیں ہی بنانی ہیں تو دو سال کے
لئے مارشل لاء لگا دیں۔ہم نے پہلے بھی سو مارشل لاء بھگتائے ہیں ایک اور
بھگت لیں گے۔الطاف حسین نے یہ بیان کیوں دیا یہ کوئی راز نہیں۔ کراچی میں
ایم کیو ایم کیا کر رہی ہے یہ بھی کوئی راز نہیں۔ایم کیو ایم کی حکمت عملی
پہ مورخ کتابیں لکھے گا ۔آپ کو یاد دلا دوں کہ ۹۲ء کے آپریشن میں حصہ لینے
والا کوئی بھی پولیس آفیسر آج زندہ نہیں۔زرداری صاحب نے جہاں بلے کے خلاف
زہر اگلا وہیں انہوں نے نواز شریف کو متنبہ بھی کیا کہ فوجی عدالتیں بنانے
سے پہلے ہزار بار سوچنا۔ یہ نہ ہو کہ کل ہم دونوں بھی ہتھکڑیاں پہن کے انہی
عدالتوں میں کھڑے ہوں۔مولانا فضل الرحمن کایاں آدمی ہیں میٹنگ کے دوران
انہوں نے سب سے پہلے غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا لیکن میٹنگ سے باہر
نکلتے ہی عبدالغفور حیدری نئے راگ الاپنے لگے۔رہی جماعت اسلامی اور تحریک
انصاف۔
ان کے موقف پہ مجھے ایک لطیفہ یاد آتا ہے لیکن غیر پارلیمانی ہے اس لئے فی
الحال صبر ہی سے کام لیتا ہوں۔
ہمارے سموسہ فیم ازخود نوٹس سابق چیف جسٹس نے بھی آج بن مانگے عوام کو مفت
اطلاع بہم پہنچائی ہے کہ فوجی عدالتیں غیر قانونی ہیں۔حیران ہوں کہ یہ شخص
پاکستان کے سب سے معزز قانونی ادارے کا سربراہ رہا ہے۔کاش کوئی اسے سمجھا
سکے کہ قانون عوام کی فلاح اور بہبود اور ان کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے۔پوری
قوم اس وقت اس بات پہ متفق ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹا
جائے۔ قوم یہ بھی جانتی ہے کہ ہماری عدالتوں نے افتخار چوہدری کے زمانے سے
دہشت گردوں کو جو چھوٹ دے رکھی تھی وہ اب اسے اپنا حق سمجھنے لگے ہیں اور
کسی بھی جج کو آزادانہ فیصلہ کرنے کی پاداش میں قتل کرنے کی دھمکیاں دیتے
ہیں۔ جج فیصلہ دیتے اور اس کے بعد جان کے خوف سے ملک چھوڑ جاتے ہیں۔اس حالت
میں موجود فرسودہ نظامِ انصاف سے کسی صائب فیصلے کی توقع نہیں۔
حل یہی ہے کہ دو سال کے لئے فوجی عدالتیں نیک نیتی کے ساتھ صرف دہشت گردوں
سے نمٹنے کے لئے قائم ہوں۔ انہیں سر عام لٹکانے کا قانون بنایا جائے۔جو
دہشت گرد جیلوں میں پھانسیوں کے منتظر ہیں اور جن کی سیکیورٹی پہ ہم روزانہ
لاکھوں خرچ کرتے ہیں انہیں بلا تاخیر لٹکایا جائے۔بڑے سفاک دہشت گردوں کے
بعد اس ملک کی دولت لوٹنے والوں،لوگوں کو بوریوں میں بند کرنے والوں،لوگوں
کے بچوں کو جہاد کے نام پہ مروانے والوں کے خلاف نئی قانون سازی کی جا سکتی
ہے۔چور کی داڑھی میں تنکا ہوتا ہے۔اپنے ارگرد نظر دوڑائیں تو آپ کو اکثر
داڑھیاں تنکوں سے بھری نظر آئیں گی۔ |