پاکستان جب قیام ہوا تو اس مملکت
کے چند اغراض و مقاصد تھے ، جس میں سب سے پہلے اسلامی ریاست کے قیام کی
مسلمانوں کیجانب سے خواہش ، اس کے ساتھ اسلامی معاشرے کا قیام عمل میں لانا
اور اﷲ تعالی کی حاکمیت کے تحفظ پر ایمان رکھتے ہوئے اسلامی نظام کا نفاذ
تھا ، اسی نفاذ اسلام کی اساس دو قومی نظریہ کے تحفظ میں پنہاں تھی تو
پاکستان میں لسانی سیاست کے بجائے اردو زبان کے تحفظ و ترقی کو مد نظر رکھا
جانا تھا ، لیکن اس کے ساتھ ہی مسلم تہذیب و ثقفت کو ترقی دینا بھی شامل
تھا جس میں جہاں مسلمانوں کو آزادی اور ان کی معاشی بہتری کے ساتھ ، سیاسی
اور معاشرتی ترقی بھی شامل تھی ، تحریک پاکستان میں یہ سب اس لئے ضروری تھا
تاکہ انتہا پسند ہندؤوں کے تعصب سے نجات حاصل ہو ، کانگریس سے نجات کے ساتھ
، رام راج اور انگریزوں کی غلامی کی زنجیریں بھی توڑ دیں جائیں۔پاکستان اس
تاریخی ضرورت اور پر امن فضا کے قیام اور اسلام کے قلعے کے طور پر ملی و
قومی اتحاد کے مثالی مملکت کے طور پر دنیا کے سامنے مثالی ریاست بنانا تھا۔
قرارداد لاہور 1940ء جب پیش کی گئی تو قائداعظم نے اپنے صدارتی خطبے میں
اسلام و ہندو مت کو محض مذاہب ہی نہیں بلکہ دو مختلف معاشرتی نظام قرار
دئیے تھے ۔جداگانہ معاشرتی نظام کیا ہے ؟۔ اس پر ہم بہت تفکر کرتے ہیں لیکن
سمجھنے کیلئے اگر ہم سمجھنا چاہیں تو ایک معاشرتی جز کو سامنے لے آئیں کہ
ہندو اور مسلمان آپس میں شادیاں نہیں کرسکتے۔
قائداعظم نے فرمایا تھا کہ"میں واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ وہ دو مختلف
تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق
پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔مارچ1909ء میں ہندو رہنما منرواراج
امرتسر نے علامہ اقبال کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے متحدہ قومیت کے موقع پر
خطاب کی دعوت دی ، علامہ اقبال نے نہ صرف متحدہ قومیت کے تصور کو مسترد
کردیا بلکہ آپ نے مہمان خصوصی بننے سے بھی انکار کردیا، آپ نے فرمایا"میں
خود اس خیال کا حامی رہ چکا ہوں کہ امتیاز مذہب اس ملک سے اٹھ جانا چاہیے
مگر اب میرا خیال ہے کہ قومی شخصیت کو محفوظ رکھنا ہندوؤں اور مسلمانوں
دونوں کے لئے ضروری ہے۔لیکن بد قسمتی سے پاکستان اپنے اغراض و مقاصد کے
برخلاف ایسے ابنائے ملت کے ہاتھوں تباہی کے دہانے پر بتدریج جا رہا ہے کہ
اگر بروقت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تو جس طرح دو قومی نظرئیے کی
درگت بن رہی ہے ، اس مجرمانہ روش کے بعد مملکت کا صرف ایک بازو ہی نہیں
بلکہ خدا نخواستہ تمام دھڑ کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے۔
پاکستان میں سب سے پہلے صوبائیت کی خطرناک بیماری لسانیت کے جان لیوا
انفکیشن کے ساتھ وارد ہوئی اور تیزی سے منتقل ہوتے ہوئے اس بتیجے پر پہنچی
کہ دو قومی نظریہ کے تحت حاصل کی گئی مملکت کے سب سے اہم حصے نے اپنے ،
مسلم تشخص کے بجائے لسانی تشخص کو ترجیح دی ۔ہم لاکھ تاویلات بیان کریں کہ
ان کے ساتھ ایساہوا ، نا انصافی ہوئی ، حقوق کی تلفی ہوئی وغیرہ وغیرہ ،
لیکن میرا ذاتی استدلال یہی ہے کہ جان جانے کے خوف سے وقت سے پہلے کوئی
سنکھیا تو نہیں کھا لیتا ، بلکہ وہ اس وقت تک علاج پھر دعا پر یقین رکھتا
ہے جب تک اس کی آنکھیں بند نہ ہوجائیں۔پھر بھی ہمارے سیاست دان نہ سمجھیں
اور انھوں نے باقی ماندہ پاکستان میں اپنے جاگیرداری ، وڈیرانہ اور سرمایہ
دارانہ خیالات کے لبادے میں ملک کی مختلف اکائیوں میں نفرتکے بیج بونے کا
سلسلہ جاری رکھا۔صوبائیت ، لسانیت ، عصبیت اور فرقہ واریت کی بیماری پہلے
بڑی جماعتوں میں آئی اور پھر اس بیماری کا انفیکشن علاقائی جماعتوں میں
پھیلنا شروع ہوگیا ، صوبہ در صوبہ چھوٹی چھوٹی تنظمیوں اور نام نہاد قومی
جماعتوں نے اس طریق کار کو سستی سیاست کے روپ میں اپنا کر رائے عامہ کو
متاثر کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ، سب سے پہلے دیہات متاثر ہوئے کیونکہ یہاں
تعلیم کی کمی کے سبب شعور مقفود تھا اور اس وائرس کو پھیلانے کیلئے ایک ساز
گار میدن ، پھر اس کے بعد جنگل کی آگ کی طرح ملک کے کوچے کوچے میں پھیلنا
شروع ہوگئے اور اس کا نتیجہ اب یہ نکلا ہے کہ پاکستان کا کوئی کوچہ ، ان
صوبائیت ، لسانیت ، عصبیت اور فرقہ واریت کے وائرس سے محفوظ نہیں ہے۔عوام
اپنی سادگی یا عقلی جذباتی وارفتگی میں نقالی کرتے ہوئے ایک کے بعد ایک غیر
دانستہ یا دانستہ شکار ہوتے چلے گئے۔پاکستان میں اس ایبولا سیاست کی بنیاد
قیام پاکستان کے بعد ہی پڑھ گئی تھی جب بنگلہ اور اردو زبان کے لسانی
معاملے کو انا کا مسلۂ بنا لیا گیا ، پھر بھارت کی چالبازیوں اور اندرون
خانہ سازش کاروں کی مرہنون منت مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلہ دیش بن
گیا۔صورتحال یہیں پر نہیں رکی بلکہ گریٹ بلوچستان، آزاد پختونستان ،سندھو
دیش جیسی تحریکوں نے دو قومی نظریہ کی فکر پر صوبائیت ، لسانیت ، عصبیت اور
فرقہ واریت کا تیزاب پھینک کر لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کو جھلسا
دیا۔رہی سہی کسر مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی نے پوری کردی کہ پرائی آگ سے
ہاتھ سینچتے سینچتے ، اپنی جھونپڑی کو ہی آگ لگا لی .
افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ آگ کو بجھانے کے بجائے حسب سازش تیل ڈالنے کا
سلسلہ جاری رکھا جا رہا ہے ، پاکستان میں اکثریتی آبادی مسلم محفوظ نہیں تو
، اقلیتی آبادی کے گھر بھی شعلوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ہماری ایبولا سیاست اب
اس نیج پر آپہنچی ہے کہ الیکڑونک میڈیا میں کیمروں کے سامنے دئیے جانے والے
بیانات تک کو کہا جاتا ہے کہ ایسے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے ،
دماغ کا دہی تو پاکستانیوں کا ہوگیا ہے جس پر ظالم سیاست دان مسلط اس لئے
ہوگئے ہیں کیونکہ جیسی عوام ویسی حکمران ہی مکافات عمل ہے۔اگر اس خطرناک
سیاسی وائرس سے خود کو بچانا ہے تو اس بات کی تصدیق کی ضرورت نہیں کہ نام
نہاد سیاست دان ، بیورو کریٹس، مذہبی پیشوائیت،فرقہ وارنہ کالعدم تنظیمیں
کا علاج کیا ہے ، ہمیں سب سے پہلے ان تخریب کاروں سے دور اور الگ ہوجانا
چاہیے خود کو ان سے الگ تھلگ کرکے یہ وائرس دوسروں تک مباحث کی صورت میں
پہنچانے سے گریز کرنا چاہیے۔ان صوبائیت ، لسانیت ، عصبیت اور فرقہ واریت کے
حامل جماعتوں کو باشعور ، تعلیم یافتہ اور پیاری اولاد کو ٹھوس غذا پر دینے
سے اجتناب برتتے ہوئے جتنا دور رکھ سکتے ہیں دور رکھنا چاہیے، اپنے گھر سے
، پھر رشتے داروں ، پڑوسیوں اور احباب کے ساتھ اس گھمبیر صوبائیت ، لسانیت
، عصبیت اور فرقہ واریت کے وائرس سے بچانے کیلئے ملی اخوات، اور دو قومی
نظریہ کا آکسیجن مہیا کرنا چاہیے۔اپنے علاقوں میں سیاسی دباؤ کے پریشر کو
کم رکھنے کیلئے معمول سے ہٹ کر ہم خیال محب الوطن احباب کے ساتھ ملکر
صوبائیت ، لسانیت ، عصبیت اور فرقہ واریت کے اس ایبولا سیاسی وبا کومٹانے
کی تگ و دو شروع کردینے چاہیے۔
نیا جوان خون اپنی نسل میں پیدا کیا جائے اور عارضی علاج کے طور پر خوش نما
نعروں کی ویکسین سے جتنا ہوسکے بچا جائے۔ایسی جہگوں اور چینلوں کے قریب بھی
نہ جایا جائے جہاں ایبولا سیاست کا پرچار کیا جارہا ہو ، حفظان ملک کی
خدمات سر انجام دینے والوں کو جذباتی انداز میں نہیں بلکہ دیکھ بھال کر ہوش
مندی کے ساتھ، با آہستگی و جذبہ ایمانی کے دستانے پہن کر ایبولا سیاست کی
وائرس سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنی چاہیے۔ایبولا سیاست کرنے والے ملک
وقوم کو خوش نما نعروں سے دھوکہ دیتے نظر آئیں گے کوئی مینار پاکستان کو
پانی پت کی لڑائی کا میدان کہلانے کے نعرے مارتا نظر آئے گا تو کوئی حقوق
کے نام پر علیحدگی کی سیاست کرتا نظر آئے گا،کوئی قومیت کے نعروں پر جذبہ
نسل و ذات کو ابھارتا نظر آئے گا تو کوئی عوامی مسائل پر عوامی جذبات کو
روندتا نظر آئے گا ، لسانیت ، عصبیت ، صوبائیت ، فرقہ واریت کا وائرس ایک
ظرناک اور موذی مرض ہے ، بچاو کی تدابیر ابھی سے اختیار کرکے آنے والی
نسلوں کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن عوام نے بھی ٖغفلت برتی تو جو حال
سرکاری ہسپتال میں مریضوں کا ہوتا ہے اس سے بھی بدتر اس پاکستان کی عوام کو
ہوگا باقی آپ کی اُپنی مرضی کیونکہ ملک کا فیصلہ تو آپکے ہاتھ میں ہے اگر
اس ایبولا سیاست کا علاج باہمی اتفاق و یکجہتی سے کرنا ہے تو یہی بہتر ہوگا
ورنہ بیرونی عناصر کی ویکسین درآمد ہوئی ہو ئی و پھر ؟ |