ایک اور سال گزر گیا

ایک اور سال گزر گیا پاکستان کے عوام کی امید آج بھی قائم ہیں کہ شاید آنے والا سال ان کے لئے ترقی و کامرانی کے مواقع لائے گا ان کے مسائل جن میں بجلی ،گیس، مہنگائی ،بے روزگاری ،دہشت گردی کا ہو سکتا ہے اور ان کے لئے سال 2015مبارک ثابت ہو جس میں نہ دہشت گردی ہو نہ امن و مان کا کوئی مسئلہ ہو اور نہ ہی ان کے لئے معاشی مسائل ہوں مگر کیا ایسا ممکن ہے ؟یہ وہ سوال ہے جو عوام کی اکثریت کے ذہنوں میں ایک دم سے آ کر سارے خوابوں کو چکنا چو ر کر دیتا ہے ایک دم سے سر نفی میں ہلتا ہے کہ شاید ایسا ممکن نہیں ہوگا مگر سیانے کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی کام مشکل ضرورہوتا ہے ناممکن نہیں اگر اس کو ممکن بنانا ہے تو آپس کے اختلافات کو پس پشت ڈالنا ہو گا اپنی سوچوں کو خود تک محددود کرنے سے ان مسائل کا کوئی حل نہیں نکل سکتا بلکہ اس کے لئے قومی سوچ کو تقویت دینی ہوگی اپنی اناؤں کو اپنے سینے میں دفن کرتے ہوئے اس ملک کی انا کو قائم رکھنا ہو گا ملکی مسائل کو اپنے مسائل سمجھتے ہوئے ان کے حل کے لئے کام کرنا ہو گا کیونکہ ہمارے مسائل کو ہم نے ہی حل کرنا ہے باہر سے کسی نے آ کرا نہیں نہیں حل کرنا سال 2014میں پاکستانی عوام نے بہت کچھ کھویا ہے مگر پانے کے لئے شاید کچھ تھا ہی نہیں سال کے بارہ ماہ میں سیاسی جماعتوں کی لڑایاں عروج پر رہی اور فکر والی یہ بات تھی کہ وہ لڑایاں ملک پاکستان یا پاکستانی عوام کے لئے ہر گز نہیں تھی بلکہ صرف اور صرف اپنے اقتدار اور اور برتری کے لئے تھی ان لڑائیوں کی وجہ سے ملک کو کتنا نقصان ہوا اس کا اندازہ شاید ان لڑنے والی جماعتوں کو بھی نہیں ہے اور نہ ہی حکومت ے پاس کوئی اعدادو شمار ہیں کیونکہ دونوں طرف کے وسائل صرف اور صرف ایک دوسرے کو جھوٹا ثابت کرنے اور ایک دوسرے کے خلاف غلیط قسم کا پروپگنڈا کرنے میں صرف ہو تے رہے ہیں تمام صوبائی حکومتیں اس گزرے سال میں ناکام ہی نظر آئی کیونکہ وفاقی حکومت صوبوں کی کھینچا تانی میں ہی مصروف رہی صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومتیں ہونے کی وجہ سے سب بانت بانت کی بولیاں بولنے میں مصورف رہے ترقیاتی کام صرف فائلوں میں یا صرف ٹاک شوز میں ہی نظر آتے رہے جبکہ عملی طور پر کچھ بھی ایسا خاص نہیں کیا گیا جسے سال 2014کے گڈ ورک میں شامل کیا جا سکے۔ اس سال میں ایک کام ضرور ہو ا کہ پاکستانی افواج نے ملک دشمن عناصر کے خلاف آپریشن شروع کر کے وہ کام کیا جسے آنے والے ادوار میں قدر کی نگا ہ سے دیکھا جائے گا کیونکہ ملک میں دہشت گردی کے ناسور نے ایک ایسی فضا ء قائم کر دی تھی جس نے پاکستان کے تشخص کو عالمی سطح پر بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اس دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کا مستقبل خطرے میں تھا آئے دن کے بم دھماکوں اور خود کش حملوں کی وجہ سے ملکی ترقی کا پہیہ جام تھا ہر طرف لاقانونیت عام تھی کسی کو بھی یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آخر اس کا حل کیا ہو گا مگر جب سے ان کے خلاف فوج کا آپریشن ضرب عضب جاری ہے ملک میں ایک ٹھراؤ سا آگیا ہے اور پاکستان کے عوام اب یہ امید کر رہے ہیں کہ انشاء اﷲ سال 2015 اس ملک کے دہشت گردی کا خاتمہ ہو گاملک ایک بار پھر درست سمت میں آ جائے گا اور ملکی معیشت بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل جن میں بجلی ،گیس، مہنگائی ،بے روزگاری شامل ہیں ان کو بھی حل کرنے میں مدد ملے گی آج 2015میں جب تمام پاکستانی اس خواہش میں ہیں کہ ملک درست سمت میں آئے جہاں کسی قسم کے کوئی مسائل نہ ہوں سال 2014 بلا شبہ پاکستانی عوام کے امتحان کا سال تھا جس میں سینکڑوں پاکستانیوں نے اپنے خون کی قربانی دی کئی کئی ماؤں نے اپنے پھول سے بچوں کو کھو دیا کئی عورتوں نے اپنے شوہروں کے خون کی قربانی دی دہشت گردوں کی جانب سے ایسی بربریت کا مظاہرہ ماضی میں کھبی بھی دیکھنے کو نہیں ملا جیسا کہ سال2014میں دیکھا گیا مگر عزم و ہمت صبر استقامت سے جس طرح پاکستانی عوام نے ان مصیبتوں کا مقابلہ کیا اس کی نظیر ملنا مشکل ہے اس صبر و استقامت سے یہ بات واضح ہے کہ پاکستانی عوام مشکل سے مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں اب تمام گزرے ہوئے برئے وقت اور حالات کو بھول کر نئے پاکستان کی اور ایک نئی صبح کا آغاز کرنا ہو گا جس کے لئے ضروری ہے کہ ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی ،اور مذہبی جماعتوں کو بھی ایک پلیٹ فارم پر اور اس ملک کی بہتری کے لئے ایک ایک ٹیبل پر آنا ہو گا کیونکہ اگر مسائل کو حل کرنا ہے اور سال 2015کو گزشتہ سال کی نسبت بہتر بنانا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ملی یکجہتی اور اتحاد کا دامن تھام لیا جائے اس کے لئے اپنے مسائل کو پس پشت ڈالتے ہوئے ملی بیداری کے جزبے کی سخت ضرورت ہے تاکہ آئیندہ سال ہم انھی کالموں میں سال 2015کو پاکستان کے اچھے سالوں میں شمار کر رہے ہوں۔
Raja Tahir Mehmood
About the Author: Raja Tahir Mehmood Read More Articles by Raja Tahir Mehmood: 21 Articles with 14537 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.