۔ 5 جنوری کشمیریوں کا یوم سیاِہ یا حقِ خودارادیت

کشمیر دنیا کی وہ واحد بدقسمت ریاست ہے جس میں اس کے باسیوں کے لیے حق ِخودارادیت سے لے کر اس کی آزادی، شناخت، سرحدی اور انتظامی امور کیلیے دنیا کے منفرد قانون بنائے گئے ہیں۔ خرافات کی نرالی منطق کشمیر کے ساتھ جڑی ہے مسئلہ ِکشمیر جنم دینے والے قابض فریقین ہی اس کے وکیل اور جج ہیں جب اور جیسے چاہیں اس قوم کی تقدیر کے فیصلے سناتے ہیں۔نوآبادیاتی اور سرمایہ دارانہ نظام کے مخافظ حکمران اپنے اقدار کی داخلی خارجی ضروریات پوری کرنے کیلیے مسئلہ ِکشمیر کو جب چائیں جنگ کے جواز اور امن مذاکرات کے طور پر استعمال کر لیتے ہیں۔ ( پاکستان کشمیریوں کو حق خودارادیت ملنے تک ان کی اخلاقی حمایت جاری رکھے گا) یہ وہ جملہ ہے جو ہمیں تقریبا روزانہ کی بنیاد پر پڑھنے یا سننے کو مل جاتا ہے۔اور اس حق کے لیے مختلف فورم پر آواز بھی بلند کی جاتی ہیں۔ اس حق خودارادیت کے نام پر سرکاری چھٹیاں یوم یکجہتی اور یوم سیاہ بھی منائے جاتے ہیں۔ لیکن ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا جس نے کشمیریوں سے یہ حق چھینا وہ کیوں کر اس کی حمایت کر سکتا ہے۔پاکستان نے کشمیر فتح کرنے کیلیے جب قبائلی ریاست میں داخل کیے تو بھارت اس مسئلے کو لے کر اقوام متحدہ میں گیا15جنوری 1948ء سلامتی کونسل میں بھارتی نمائندے نے اپنی حکومت کی طرف سے اعلان کیا۔بھارت کشمیریوں کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ ریاست میں حالات معمول پر آنے کے بعد یہ فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنے چاہتے ہیں یاہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا خودمختار ملک کے طور پر اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر اقوام متحدہ نے ایک مذاکراتی کمیشن بنایا جس نے دونوں فریقین کی حکومتوں سے بات چیت کے بعد13 اگست1948؁ء کوایک قراداد پیش کی جس پر ہندوستان اور پاکستان نے دستخط کر کے تسلیم کیا کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ یہاں کی عوام اقوامِ متحدہ کے تحت ہونے والی رائے شماری میں کریں گئے۔مسئلہ کشمیر پر13 سے زائد قراردادیں پیش ہوئی لیکن محکوم قوموں کے حق خودارادیت کی عالمی تشریح کے مطابق13 اگست 1948ء کو دونوں فریقین (ہندوستان اور پاکستان) کی جانب سے منظور کی جانے والی قرارداد ہی اس معیار پر اترتی ہے جس سے کس غلام قوم کے مستقبل کا فیصلہ کیا جا سکتا ہو۔5 جنوری 1949ء کو کشمیر کے پہلے قابض پاکستان کے وزیر خارجہ نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلیے قرارداد پیش کی جس میں کشمیریوں کی آزادی کو پاکستان اور ہندوستان کے الحاق تک محدود کر دیا گیا۔ بھارت نے پاکستان کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس تجویز کو فورا قبول کیا اور عالمی کمیشن نے بھی مسئلے کے اصل فریق کشمیریوں کو بھیڑ بکریں سمجھ کر نئی قرار داد پیش کر دی۔ یہ قرار داد حق خودارادیت کی روح کے منافی ہے۔غلام قوموں کے حق پر قدغن لگانا یا اسے محدود یا مشروط کرنا غیر انسانی اور غیر منصفانہ فعل ہے۔ اب اسی5 جنوری کی قرارداد کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ اسی دن بدیانتی سے سرکاری طور پر حق خودارادیت منایا جاتا ہے یکجہتی کی جاتی ہے اور کشمیر کی آزادی کی قسمیں کھائی جاتی ہیں در اصل پاکستان نے کبھی بھی کسی عالمی فورم پر کشمیروں کے غیر مشروط یاغیرمحدود حق خوداردیت کی حمایت نہیں کی جب بھی موقع ملااپنے یا الحاق ہندوستان کی حمایت میں بات کی۔پاکستان کی بغل میں چھری منہ میں رام رام کی پالیسی نے بھارت کو اتنے مضبوط مقام پر کھڑا کر دیا کہ اب وہ اٹوٹ انگ سے ہٹ کر کوئی بات کرنے کو تیار ہی نہیں۔ دو ایٹمی طاقتوں نے وسط میں بسنے والے یہاں کے دو کروڑ انسانوں کو بھارت مسلمان اور پاکستان کشمیری ہونے کی سزا دے رہا ہے۔ اس کے باوجود کشمیری پاکستان اورہندوستان کی سا لمیت اور قومی بقا پر یقین رکھتے ہیں لیکن ان کے حکمرانوں کوجو کشمیریوں کے غیرمحدود غیر مشروط حق خودارادیت کے انکاری رہے انہیں ظالم،قابض اور مشترکہ دشمن تصور کرتے ہیں۔ ہمسائے ممالک نے ہمیشہ جمہوریت کے ساتھ زنابالجبر کیا خون،خوف اور موت کی کشمکش میں دن رات گزارنے والے کشمیریوں کی خواہشات کے برعکس اپنے مفادات کے تحت کشمیریوں کی نام نہاد وکالت کی۔ اور اس کے بدلے میں کشمیر کی معدنیات،قیمتی پتھر،جنگلات،سیاحت اور زرمبادلہ کی صورت میں سالانہ اربوں روپے وکیل کھا جاتا ہے۔ گھر بار اور اجداد کی قبروں پر ریاست میں پیدا ہونے والی بجلی دن میں بھی وکیل کے محل کو روشن رکھتی ہیں اور مقامی کشمیری کو رات میں بھی میسر نہیں۔ اس لوٹ مار کے لیے پاک و ہند نے ریاستی باشندہ سے مختلف ایکٹز کے تحت اس کا حق رائے د ہی چھین کرمخصوص کرپٹ ٹولہ ریاست کے اندر پال رکھا ہے۔اور اسی ٹولے کو عالمی سطح پرمقامی،آزاد اور بااختیار حکومت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔جبکہ یہ طبقہ نہ آزاد بااختیار ہوتا ہے اور نہ عوام کا منتخب کیاہوا۔کشمیری دنیا کے اس پیچیدہ مسئلے کے بنیادی اور سب سے متاثرہ فریق ہیں ان کی مرضی اور منشی ٰکے منافی ثانی فریقین کی باہمی بات چیت یا فارمولہ کوئی انسانی جمہوری اور اخلاقی جواز نہیں رکھتا۔ پاکستان اور ہندوستان کی عوام بدترین مسائل کا شکار ہیں ان حکمرانوں کی زمہ داری ہے وہ انہیں انصاف امن اور خوشحالی دیں۔انسانی بھائی چارے اور جمہوری روایات کے تحت کشمیروں کو ان کی مرضی کے مطابق جینے کا حق دیا جائے۔ افغانوں،سکھوں،چراغ بیگ اور گلاب سنگ کے جبرکی بدولت کشمیریوں نے اگر شکت قبول نہیں کی تو اب اگر کوئی ان سے مختلف توقع رکھتا ہے تو یہ اس کی اپنی احمقانہ سوچ ہے۔

Munir Sabir
About the Author: Munir Sabir Read More Articles by Munir Sabir: 2 Articles with 1495 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.