زندگی میں پہلی بار ایک ندائے
غیبی سے شناسا ہوا تو حیرت کی انتہا نہ رہی، دریا کنارے پانی کی چھنکار سن
رہا تھا کہ اچانک ایک نسوانی آواز سنائی دی، اِدھر ادھر دیکھا تو کچھ نظر
نہ آیا، پھر ایک مدھر دھن جیسی کھنک محسوس ہوئی تو اچنبھے سے ہر طرف نظر
دوڑائی مگر کچھ دکھائی نہ دیا۔ اس بار خوف اور حیرانی جیسے ملے جلتے تاثرات
تھے، مگر میں پانی سے پاؤں باہر نکال کر اٹھ کھڑا ہوا کہ دیکھوں یہ دل کے
تار چھیڑنے والی آواز کہاں سے آرہی ہے، مگر لاحاصل۔ دور دور تک کوئی نظر نہ
آیا تو سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ ایسے ہی کچھ گماں ہوگا، ورنہ کوئی دکھائی
تو دیتا۔
جب دوسرے روز اسی مقام پر دریا کنارے موجوں کی اٹھان دیکھ رہا تھا کہ پھر
وہ سہانی آواز سنائی دی مگر اس بار خوف و حیرت کی بجائے تلاش شروع ہوئی کہ
آخر یہ آواز کس کی ہے؟ یہ میٹھی اور دلربا نسوانی آواز اتنی صاف سنائی دے
رہی تھی کہ جیسے کوئی بہت قریب موجود ہو مگر نظر کوئی نہیں آرہا تھا۔ آخر
ہمت کر کے پوچھا کون ہو؟ تو جواب ملا “پیار” ، مگر نظر کیوں نہیں آتی” تو
جواب ملا” پری زاد” ہوں ۔۔۔ اس بے چین کر دینے والی آواز کی کھنک اب اور
بھی سریلی ہو گئی تھی۔ پوچھا، کس کا پیار ہو” تو جواب ملا صدیوں کی پیاسی
تھی مگر تیری قربت پا کر تشنہ ہوئی اور لب آزاد ہوگئے کہ اظہار کر دوں ۔۔
اس ان دیکھے پیار کی صدا سے الفت بندھ گیا اور روزانہ کالج سے آتے ہی کھانا
کھاتا اور دریا کنارے کی راہ باندھ لیتا اور اس غیبی آواز سے جب تک بات نہ
ہوجاتی چین نہ آتا، نہ جانے اس میں کونسا جادو تھا کہ مجھے الجھا کے رکھ
دیا۔ رفتہ رفتہ جب شناسائی بڑھی تو اک شام کی گھنی چھاؤں میں جب سورج کی
کرنیں پانی پر تیرنے لگیں کہ بس اب دن ڈھل چکا تو اسے کہا کہ اب رہا نہیں
جاتا، اپنا جلوہ دکھا دو؟ تو جواب ملا ” جدا نہ کر پاؤ گے” ، آہ واقعی آج
تک جدائی کا قلق رہتا ہے کہ وہ میری روح و قلب تک اتر چکی تھی !!!
ایک روز صبح سویرے جب دریا کنارے جو گنگ کرتے ہوئے اسی مقام سے گزرا تو لگا
جیسے کوئی ساتھ ساتھ چل رہا ہے، مگر یہ سوچ کر ہنسی آئی کہ اس وقت پر بھی
شام کی پر چھائیاں پڑ چکیں، کیا سماعت کے ساتھ ساتھ بصارت پر بھی “پیار” کی
مہر لگ چکی؟ اور اس روز کالج سے چھٹی کر لی، وقت تھا کہ گزر نہ رہا تھا،
بڑی مشکل سے پچھلا پہر آیا تو “پیار” کی پیاس میں دریا کنارے پہنچ گیا اور
“مقامِ یار” پہ رک کر پانی کی موج مستی بھری لہروں پر نظر ٹکا دی، اک شگفتہ
باد صبا محو رقص تھی جبکہ کہیں دور پرندوں کی چہچہاہٹ نے بھی نئی دھن اور
موسیقی کا ساماں پیدا کر دیا تھا، مگر اس خوبصورت منظر و سماں میں اگر کمی
تھی تو اس آواز کی کہ جس کی مدھر دھن سننے کو ہر کام چھوڑ کر اس “مقامِ یار”
کی راہ لیتا۔ انتظار کرنا محال تھا کہ اک کھنک سنائی دی ” آج رات دیدار کی
رات ہوگی” ۔۔۔
جاری۔۔۔ |