دیتے ہیں یہ دانشور دھوکا کھلا

پی ٹی وی کے ایک ڈرامے میں ایک ڈائیلاگ کچھ اس طرح تھا کہ ایک نوجوان نے ایک بزرگ سے سوال کیا کہ دانشور اور دانشمند میں کیا فرق ہے ،بزرگ نے جواب دیا کہ اگر دو افراد کسی بحث میں الجھے ہوئے ہوں اور وہاں پر موجود تیسرا فرد جو مسئلے کی نوعیت سے واقف نہ ہو اور پھر وہ ان کے درمیان میں دخل نہیں دیتا تو وہ دانشمند ہوگا لیکن ان کے بجائے کوئی تیسرا فرد ایسا ہو جو مسئلے کی نوعیت سے ناواقف ہونے کے باوجود اس جھگڑے کے بیچ میں کود پڑے تو وہ سمجھو دانشور ہے ۔"جماعت اسلامی کی جمہوریت پسندی پر فتویٰ"کے عنوان سے 30دسمبر کے ایک کثیرالاشاعت روزنامہ میں جناب وجاہت مسعود صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے اس میں سب سے پہلی بات تو ہے کہ جس فرد ،تنظیم یا ادارے کے بارے معلومات نہ ہوں یا اگر ہوں بھی تو بہت محدود ہوں اسے اس موضوع پر قلم نہیں اٹھانا چاہیے ۔جناب وجاہت مسعود صاحب کو شاید یہی نہیں معلوم کہ پلڈاٹ نے کون سے سوالات اٹھائے تھے اور سیاسی جماعتوں کے اندرونی نظام کے حوالے سے کیا معلومات جمع کی تھیں ۔اس میں صرف جماعتوں کے اندر جمہوریت کا مسئلہ ہی نہیں تھابلکہ جماعتوں کے مالی وسائل ،اخراجات ،ان اخراجات کا آڈٹ ،قیادت کی تبدیلی ،اس کا طریقہ کار ،انتخابات میں امیدواروں کا چناؤ اور ان کی انتخابی مہم کی تفصیل اور دیگر عنوانات تھے ۔دوسری طرف انھیں جماعت اسلامی کے اندرونی نظام کے حوالے شاید کچھ بھی معلومات نہیں ہیں ،اس موضوع پر قلم اٹھانے سے پہلے اگر وہ کچھ عرصے کے لیے جماعت اسلامی میں شامل ہو کر اس داخلی سسٹم کا مطالعہ کرتے تو انھیں بہت کچھ معلوم ہو جاتا ۔ویسے ان کے لیے میرا ایک مشورہ ہے کہ 2جنوری کے روزنامہ جسارت میں "پلڈاٹ ، جماعت اسلامی کی جمہوریت پسندی کی گواہ "کے عنوان سے افشاں نوید صاحبہ کا آرٹیکل پڑھ لیں ۔اس مضمون میں انتہائی جامع انداز میں جماعت اسلامی کے تنظیمی خد وخال اور اس کے طریقہ کار کو واضح کیا ہے اور ساتھ ہی وجاہت مسعود صاحب کے سوالات کے جواب دے کر ان کی الجھنوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے ۔

ویسے فاضل کالم نگار جس طبقہ فکر سے وابستہ ہیں اگر وہ اس طبقہ کے سینئر حضرات سے معلومات حاصل کرلیں کے جمہوریت کی بحالی اور اس کے قیام کے لیے مولانا مودودی نے تو کمیونسٹوں تک سے اتحاد کیا ہے ۔ایوب خان جیسے فوجی آمر کے مقابلے میں فاطمہ جناح کی یہ کہہ کر حمایت کی کہ ایک بڑی برائی ختم کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے ۔پھر جب جنرل ضیاء الحق صاحب اپنی حمایت حاصل کرنے کے لیے مولانا کے پاس گئے ،تو مولانا نے انھیں جواب دیا کہ اگر آپ تین ماہ میں اپنے وعدے کے مطابق ملک میں انتخابات کروادیں تو یہ اس ملک کے عوام پر آپ کا احسان ہوگا ۔

میں اس آرٹیکل کے صرف اس نکتہ پر بات کروں گا کہ انھوں لکھا کہ "پیپلز پارٹی نے گیارہ برس ضیاالحق کی آمریت کا اس جذبے سے مقابلہ کیا کہ ہماری جمہوری تاریخ میں میں ایک شاندار باب کا اضافہ ہوا ۔مسلم لیگ نواز نے پرویز مشرف کی آمریت کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔"

جمہوری تاریخ میں کس شاندار باب کا اضافہ یہی ناکہ پی آئی اے کا طیارہ اغوا کر کے کابل لے جایا گیا اور طارق نامی ایک مسافر کو گولی مار کر زخمی حالت میں طیارے کے باہر پھینک دیا گیا ۔پھر یہ کہ ضیاالحق کی آمریت مسلط کیسے ہوئی ،اس پر تو کئی کتابیں بھی لکھی جاچکی ہیں کہ معاہدے کے قریب پہنچ کر اچانک بھٹو صاحب باہر چلے گئے ان کی قومی اتحاد کے ساتھ معاہدے پر دستخط کے سلسلے میں غیر ضروری تاخیر اور حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی نے فوجی بوٹوں کی آمد کو آسان بنادیا ۔مسلم لیگ نواز نے آمریت کے سامنے آمریت کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے ،بس اتنا سا کام کیا رات کی تاریکی میں فوجی اسٹبلشمنٹ سے معاہدہ کر کے دس سال کے لیے سعودی عرب چلے گئے ۔ایک مشاہد اﷲ تنہا احتجاج کے لیے نکلے ،پی پی پی کے کارکن تو کچھ نکلے بھی تھے اور انھوں نے چوٹیں بھی کھائیں تھیں ۔

اس مسئلے کو ایک اور تناظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے ،جماعت اسلامی تو 1941میں اسلامی نظریات پر وجود میں آئی پھر قیام پاکستان کے بعد یہاں اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کا آغاز کیا جماعت اول روز سے یہ سمجھتی ہے کہ عوام کی رائے سے تبدیلی لانی ہے اس لیے اس کی شروع سے یہ کوشش رہی ہے کہ اس ملک میں حقیقی جمہوریت نافذہو اور اس کی جمہوری جدوجہد کی ایک تاریخ ہے لیکن بھٹو صاحب کا آغاز کیسے ہوا یہ سب جانتے ہیں ایک آمر ایوب خان کو اپنا ڈیڈی بنا کر فاطمہ جناح کے خلاف انتخابی مہم چلا کر دھاندلی سے ایوب خان کو کامیاب کرا کے پہلے انھوں نے ایوبی آمریت کو مضبوط کیا ۔پھر جب اعلان تاشقند کے بعد ایوب خان کی پوزیشن کمزور ہونے لگی تو بھٹو صاحب نے وزارت خارجہ سے استعفیٰ دے دیا اس مہم کے دوران ان کے یحییٰ خان سمیت تمام فوجی افسران سے رابطے تھے ایوب خان نے جب گول میز کانفرنس طلب کی تو اس میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے شرکت کا فیصلہ کیا لیکن وجاہت مسعود صاحب بتانا پسند کریں گے بھٹوصاحب نے کس کے اشارے پر گول میز کانفرنس کا بائیکاٹ کیا اور اگر تلہ سازش کیس کے ملزم مجیب الرحمن کی رہائی کا مطالبہ کس نے کیا تھا ،اس وقت کے فوجی افسران بھی عوامی جذبات کو دیکھتے ہوئے ایوب خان اقدام کو اپنے سیاسی دوستوں کے ذریعے ناکام بنانے کی کوشش میں رہتے تھے ۔پھر جب ایوب خان نے حالات کو کنٹرول کرنے کے مارشل لاء لگانا چاہا تو یحییٰ خان نے کہا کہ مارشل لاء تو حاضر سروس جنرل ہی لگا سکتا ہے ۔اب یحییٰ خان کے دور میں بھٹو صاحب کے فوجی افسران سے کس طرح کے رابطے تھے ۔حال ہی میں ایک کتاب" پاکستان سے بنگلہ دیش ۔۔ان کہی جدوجہد" دیکھنے کا موقعہ ملا یہ کتاب اس وقت کے کرنل شریف الحق نے لکھا اس کا یک اقتباس پیش خدمت ہے ۔"لاڑکانہ میٹنگ کے بعد فوجی ٹولے نے فروری کے وسط میں اسلام آباد میں ایک رسمی اجلاس کا انعقاد کیا ۔اس میں ملک کی تازہ سیاسی صورتحال پر غور کیا گیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ شیخ مجیب کے غیر لچکدار رویے سے سختی سے نمٹا جائے ۔بھٹو کے اشتعال انگیز بیانات کو نظر انداز کر تے ہوئے ٹولے میں موجود با غی جنرلوں ،جنرل حامد ،جنرل عمر ،جنرل گل حسن ،اور جنرل پیرزادہ نے بھٹو کو پاکستان کی بنیاد اور مفادات کا واحد حمایتی سیاستداں قرار دیا۔اس بات نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کردیا "

اسی کتاب کے صفحہ 81پر ایک اور اقتباس کچھ اس طرح ہے "پاکستان کے مقدر کا انحصار اس وقت واضح طور پر صرف دو رہنماوئں پر تھا ،مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو تھے اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن تھے۔لیکن جاہ و حسرت کے طالب یہ دونوں رہنما اس وقت محض اقتدار کے حصول میں اندھے ہو رہے تھے جو انھیں قومی مفاد سے بھی زیادہ عزیز تھا ۔"

ظاہر ہے اس کے بعد ملک ٹوٹ گیا اس وقت یہ موضوع نہیں بلکہ اصل موضوع یہ ہے کہ بھٹو صاحب کی سیاست کا آغاز فوج کے سائے میں ہوا اور ان کے اقتدار میں آنے کا راستہ بھی فوج ہی نے ہموار کیا پھر حال ہی میں این آر او کا معاہدہ کس نے کس سے کیا یہ بھی سب کو معلوم ہے ۔نواز شریف صاحب کی ابتدا بھی جنرل غلام جیلانی کے سائے میں ہوئی تھی۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 43715 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.