اب ان شاء اﷲ جنت میں ملاقات ہو گی

6جنوری 2013یعنی پروفیسر غفور صاحب کی رحلت کے ٹھیک گیارہ دن بعد جماعت اسلامی کے سابق امیر اور اتحاد امت کی علامت جناب قاضی حسین احمد کے انتقال کی خبر آگئی حالانکہ قاضی صاحب غفور صاحب کی نماز جنازہ میں شریک تھے ہم یہ سمجھے کہ قاضی صاحب کی طبیعت کچھ بہتر ہے جب ہی وہ اتنا لمبا سفر کرکے جنازے میں شرکت کے لیے آگئے ،لیکن بہت بعد میں یہ معلوم ہوا کہ قاضی صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں اور ڈاکٹروں نے ان کو کہیں آنے جانے بلکہ چلنے پھرنے سے بھی منع کیا تھا ۔لیکن غفور صاحب کے انتقال پر وہ اپنی صحت کی پرواہ کیے بغیر کراچی آگئے۔

اس دفعہ لاہور کے اجتماع عام میں قاضی صاحب بڑی شدت سے یاد آئے کہ پچھلے 2008کے اجتماع عام میں انھوں نے پروگرام کی اختتامی تقریر بڑے جذباتی انداز میں کی تھی انھوں نے اپنے آئندہ کے پروگرام کی کچھ تفصیل رکھی کہ کس طرح وہ ایسے تبلیغی وفود کی تشکیل اور تربیت کا پروگرام رکھتے ہیں جو ملک کے دیہاتی علاقوں میں جا کر جماعت اسلامی کی دعوت آسان فہم طریقے سے لوگوں تک پہنچائے ۔اس کے لیے انھوں یہ بھی کہا تھا کہ ہم قرطبہ میں یا کسی اور مقام پر پورے ملک سے کم از کم سو افراد کو چالیس دن کے لیے بلائیں گے ان کی نظری علمی اور عملی تربیت کا ایسا پروگرام بنائیں گے کہ پھر یہ افراد اپنے صوبے اور شہر کے قریب ناخواندہ آبادیوں اور دیہاتوں دعوت کا کام کریں گے ۔یہ ان کا منصوبہ امارت کی ذمہ داریوں سے سبکدوشی کے بعد کا تھا ۔پھر اس کے لیے انھوں نے بعد میں پروگرام اور منصوبہ بندی بھی کی لیکن بعض ناگزیر وجوہات کے سبب وہ اس پروگرام کو عملی جامہ نہ پہنا سکے ۔خیر یہ تو ایک الگ موضوع ہے جس پر اس دنیائے فانی میں تو بات نہیں ہو سکتی ۔اسی تقریر کا اختتام انھوں نے اس جملے سے کیا تھا کہ اب ان شاء اﷲ جنت میں ملاقات ہوگی ۔اور اسی وجہ سے اس اجتماع عام میں قاضی صاحب شدت سے یاد آئے ۔امید ہے کہ انھوں نے عالم بالا سے اجتماع کو دیکھا ہوگا ۔

قاضی صاحب کی شخصیت پر تو ویسے ایک زخیم کتاب شائع ہو چکی ہے جس میں ملک کے صحافیوں اور دانشوروں نے ان کی پوری زندگی کے مختلف پہلوؤں کا بھرپور جائزہ پیش کیا ہے پچھلے سال جنوری میں میرا ایک مضمون "قاضی حسین احمد ۔۔اتحاد امت کی علامت"کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے ۔جس میں اس بات کا جائزہ لیا گیا تھا کہ قاضی صاحب نے جب امارت کی ذمہ داری اٹھائی تو اس وقت بعض اپنے نظریاتی صحافیوں اور قلمکاروں کی وجہ سے جماعت کے کارکنان فکری و ذہنی انتشار کا شکار تھے ،ملک کے سیاسی حالات بھی اس وقت ناموافق چل رہے تھے ۔یہ شہر کراچی ۔۔۔جماعتی جماعتی کے نعروں کی چمک دمک زوال پذیر ہورہی تھی ۔اور کراچی پوری طرح لسانیت کی زد میں آچکا تھا ۔قاضی صاحب نے بڑے حکیمانہ انداز میں کام کا آغاز کیا اور اپنے تحرک ،دلیرانہ فیصلوں ،کے باعث جماعت کے کارکنان میں خود اعتمادی کی لہر دوڑ گئی ۔ملی یکجہتی کونسل قاضی صاحب کی محنت شاقہ کی وجہ سے تشکیل پائی اور فعال بھی ہوئی اور آج بھی وہ فعال کی جاسکتی ہے دوسری سیاسی جماعتوں کے لوگ تو فعال ہیں لیکن یہ ہمارا اثاثہ ہے اس لیے ہمیں زیادہ فعال ہونے کی ضرورت ہے۔متحدہ مجلس عمل تو اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے ۔اب جماعت نے بھی سیاست کے میدان میں اپنی قوت کے بل پر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔

اس موقع پر مجھے قاضی صاحب کی کچھ چھوٹی چھوٹی باتیں یاد آرہی ہیں جو اپنی معنویت کے اعتبار سے بہت اہم اور بڑی بھی ہیں ۔ایک دفعہ تقریر کرتے ہوئے آپ نے کہا کے ہم گھر سے مسجد نماز پڑھنے کے لیے جاتے ہیں تو ہمیں اپنی گلی اور محلے میں نوجوانوں کی ٹولیاں نظر آتی ہیں ،جو آپس میں ہنسی مذاق کرتے ہوئے وقت گزارتے کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ ہم ان سے رابطہ بڑھائیں انھیں نماز کی طرف راغب کریں انھیں جماعت کی دعوت دیں ،آخر یہ کام کون لوگ کریں گے ہمیں آپ کو ہی تو کرنا ہے ۔جب قاضی صاحب یہ بات کررہے تھے تو مجھے کراچی کے سابق امیر جناب صادق حسین مرحوم کی ایک بات یاد آگئی کہ آپ کہتے تھے ہمیں اپنے محلے کے ہر گھر میں جماعت کی دعوت پہنچانی چاہیے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے محلے کا کوئی فرد کھڑے ہو کر آخرت میں اﷲ میاں سے یہ شکایت کرے کہ اے اﷲ اس شخص کو میں دین کاکام کرتے ہوئے دیکھتا تھا لیکن اس نے کبھی مجھے اس اچھے اور نیک کام کی طرف نہیں بلایا ۔

ایک دفعہ تقریر میں کہا کہ آپ لوگ اپنے گھروں سخت رویہ کیوں اختیار کرتے ہیں کہ جب داخل ہوئے تو معلوم ہوا کے جیسے مارشل لاء لگ گیا سب لوگ سہم کر اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے اور گھر میں سناٹے کا سا ماحول بن گیا ،میں جب اپنے گھر میں جاتا ہوں تو میرے بچے سب میرے پاس آجاتے ہیں کوئی سر دبرہا ہوتا ہے کوئی اپنی شکایات رکھتا ہے کوئی اپنے مطالبات رکھتا ہے ۔آپ اپنے گھروں میں بچوں کے ساتھ دوستانہ ماحول رکھیں آپ انھیں ایسی محبت دیں کہ وہ آپ کو اپنا آئیڈیل بنالیں ۔قاضی صاحب اتنی بات کہہ کر تقریر میں اور موضوعات کی طرف چلے گئے جب کے میرا ذہن اسی جگہ رک کر یہ سوچنے لگا آج ہمارے بہت سے گھرانے ایسے ہیں جہاں تحریک کا چراغ ٹمٹما رہا ہے ،اس لیے کہ صرف ایک ہی صاحب دل و جان سے لگے ہوئے ہیں وہ سارے جہاں میں تو دعوت پھیلا رہے ہیں لیکن اپنے گھر والوں کو چھوڑ رکھا ہے یعنی چراغ تلے اندھیرا ۔یہ صاحب جب مر جائیں گے توپھر ان کے گھر میں تحریک کا کوئی نام لینے والا نہیں ہو گا ۔

قاضی صاحب کی یادگار ملاقاتوں میں سے ایک ملاقات اب سے تقریبا تیس سال پہلے کی یاد آرہی ہے سکھر میں سہ روزہ اجتماع کارکنان سندھ تھا ۔ہم وقفے میں اپنے دو کارکن ساتھیوں کے ساتھ اجتماع گاہ کا جائزہ لے رہے تھے ایک شامیانے میں ہم نے دیکھا کہ جماعت کے تین اکابرین دری پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔میاں طفیل محمد صاحب ،جان محمد عباسی صاحب اور قاضی حسین احمد صاحب جو اس وقت بالترتیب امیر ،نائب امیر اور قیم پاکستان تھے ہم نے سوچا یہ بزرگان فرصت سے بیٹھے ہیں چلو ان سے ملاقات ہی کرلیں۔

چنانچہ شامیانے میں داخل ہو کر پہلے ہم سب نے میاں طفیل محمد صاحب سے ہاتھ ملایا تو ایسا محسوس ہوا کہ کوئی کپڑا ہاتھ میں آگیا ہو پر نور چہرے پر تفکر اور تدبر کی خاموشی ،جواباَوعَلیکم سلام کہا ان کے بعد ہم محترم جان محمد عباسی صاحب سے ملے انھوں نے بھی میاں صاحب کی طرح بیٹھے بیٹھے ہی ہاتھ ملایا لیکن بڑی گرم جوشی سے کھلکھلاتی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ وعلیکم کے بعد خیریت خیر سلا بھی دریافت کی ان کے بعد ہم قاضی صاحب کی طرف بڑھے تو دیکھا کہ قاضی صاحب جو دری پر تھے کھڑے ہو گئے اور ہم سب سے انتہائی گرم جوشی اور دلآویز مسکراہٹ سے نہ صرف ہاتھ ملایا بلکہ خیریت وغیرہ معلوم کرنے کے بعد ایک چھوٹا سا انٹرویو بھی لیا کہ کہاں سے آئے ہیں پڑھ رہے ہیں یا کہیں ملازمت وغیرہ کرتے ہیں ۔ہم سب نے قاضی صاحب کے ملنے کے انداز کا ایک خوشگوار اثر قبول کیا ۔

درج بالا تین واقعات میں ہمارے لیے یہ خاموش ہدایت موجود ہے کہ جب آپ کسی ملیں تو بڑے پر تپاک انداز میں ملیں مسکرا کر ملیں بلکہ ہمارے ایک مرحوم کارکن کہا کرتے تھے جب آپ کسی سے ملیں تو اس طرح ملیں کہ اسے یہ تاثر ملے کہ جیسے آپ اس کو پہلے سے جانتے ہیں یہ اپنی دعوت کو آگے بڑھانے کی موثر ذریعہ ہے دوسری بات یہ کہ ہمیں اپنے گھروں کی فکر کرنا چاہیے کہ تحریک اسلامی کا چراغ ہمارے گھروں میں ہمیشہ روشن رہنا چاہیے ،اور تیسری اہم بات یہ کے جس محلے میں ہم رہتے ہیں ان محلے والوں کا ہم پر یہ حق ہے کہ ان تک دین دعوت پہنچائیں اس کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم ماہ میں ایک بار یا دو مرتبہ اپنے گھروں میں درس قران رکھیں اور محلے کے ہر گھر کے ہر فرد کو درس قران میں شرکت کی دعوت دیں ان تین کاموں کو کرتے وقت اگر ہم قاضی صاحب کو بھی یاد رکھیں تو امید ہے اﷲ تعالیٰ قاضی صاحب کے نامہ اعمال میں بھی آپ کے ان کاموں کا ثواب لکھ دیں۔اﷲ سے دعا ہے کہ قاضی صاحب کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے ۔آمین
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 43704 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.