نام نہاد جماعت اسلامی کے لیڈران
ہمیشہ سے ہی منافقت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونے کی اپنی سی پوری کوشش
کرتے ہیں اور اپنی اس کوشش میں کافی حد تک کامیاب ہی رہتے ہیں
جماعت اسلامی کی منافقت کی ایک مثال یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت جماعت
اسلامی کے رہنماؤں نے قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کو کافر
اعظم کا خطاب دے ڈالا اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ظالموں نے پاکستان کے نام کی
بے عزتی اور بے توقیری کرتے ہوئے پاکستان کو ناپاکستان پکارنا شروع کیا۔
عظیم شخصیت قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کی ہمشیرہ یعنی محترمہ
فاطمہ جناح جب جنرل ایوب خان کے منعقدہ صدارتی الیکشن میں ایوب خان کے خلاف
صدارتی امیدوار کی حیثیت سے میدان سیاست میں آئیں تو جماعتی اپنی ازلی
منافقت کے سبب پہلے اپنے ہی تئیں کافر اعظم قرار دیے جانے والی شخصت کی
ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت میں کمربستہ ہوگئے۔ جبکہ اپنی دانست میں
مذہبی ملا یہ بھی نظریہ و عقیدہ رکھتے رہے کہ عورت کا حکمرانی کے لیے منتخب
ہونا غیر شرعی فعل ہوگا۔
نام نہاد جماعت اسلامی ایک نیم سیاسی جماعت پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ایک
ایسی مکروہ اور بدنما حقیقت ہے کہ جس سے چھٹکارا نا چھوٹ سکا۔ پاکستان جب
جب مشکلات اور گرداب میں پھنسا تو اس کے ذمہ داروں میں جماعت اسلامی نام کی
سیاسی دکان سجانے والے ہمیشہ پیش پیش رہے اور جب جب انہیں موقع ملا انہوں
نے مال بنایا اور ملک و قوم کے منہ پر کالک ہی ملی۔ اور خصوصاً آمریت میں
چونکہ آمر عوامی نمائندوں سے دور ہوتا ہے اسلیے ایک جماعت تو ایسی ضرور رہی
جو ہر ہر آمر کی حکومت میں اپنی اوقات سے زیادہ ہی حصہ حاصل کرتی رہی اور
جب بھی دیکھا کہ آمر کی کرسی ڈوب رہی ہے یا ڈوب چکی ہے تو فورا معصوم و
جمہوریت پسند بن بیٹھتے رہے۔
افغانستان کی جنگ کو جہاد قرار دیتے ہوئے جس طرح قوم کے معصوم لوگوں کے
بچوں کو جنگ کی آگ میں جھونکا اور اپنے بچوں کو انگلینڈ اور امریکہ بھیجا
اور اسی امریکہ سے بوریا بھر بھر کر ڈالرز وصول کیے اور جب مطلب نکل گیا
اور جنگ ختم ہوئی اور امریکی تنخواہ سیاسی ملائوں اور ایمان کے ٹھیکیداروں
اور فتووں کے پرمٹ باٹنے والوں کے لیے بند ہوئی تو لیجیے جناب وہی امریکہ
بہادر مسلمانوں کو عظیم اور نمبر ون دشمن قرار دے دیا گیا اور اس کے خلاف
لڑنے والے اجڈ، جاہل، بے علم و عمل شدت پسندوں کو جہادی اور طالبان کا نام
دے کر اپنے بچے قرار دیا گیا۔
وضع قطع کے لحاظ سے جماعتی رہنماؤں کی یہ روایت بن چکی ہے کہ وہ اپنے سر کو
جناح کیپ سے ڈھانپتے ہیں اب آپ بتائیے ایک ایسی جماعت جو قائد اعظم محمد
علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کو کافر اعظم قرار دیتے تھے اب کئی دہائیاں گزرنے
کے بعد یہ سوچے بیٹھے ہیں کہ قائد اعظم کے زمانے کے لوگ تو چونکے اب کم ہی
بچے ہیں اسلیے اپنی کافر اعظم والی باتوں کو محو کرنے کے لیے سر پر قائد
اعظم کی مخصوص کیپ رکھتے ہیں تاکہ آنے والی نسل ان جماعتیوں کو پاکستان کے
بزرگوار سمجھے ان جماعتیوں کو جو قائد اعظم کو کافر اعظم، پاکستان کو
ناپاکستان اور پاکستان کے مطالبے کو ہر طریقے سے روکنے کے لیے پورے پورے
ہندوستان کے دورے کرتے اور معصوم اور عام مسلمانوں کو اپنی داڑھیوں اور
اپنی علمی دھاک سے مرعوب کرتے اور یہ کوشش کرتے کہ مسلمانان ہند کسی طرح
پاکستان کے مطالبے کی مخالفت پر راضی ہوجائیں۔
مگر کیا کریں یہ جماعت اپنا داؤ کھیلتے رہے اور اللہ اپنا دائو کھیلتا رہا
اور داؤ اللہ ہی کا بلند اور برتر رہا اور پاکستان وجود میں آگیا۔
پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد جماعتیوں اور ان جیسوں کو اس حقیقت کا اچھی
طرح ادراک ہو گیا کہ عام مسلمان پاکستان مخالف ملاؤں کی باتیں غور سے سنتا
رہا اور سمجھتا رہا مگر اللہ کی غیبی مدد قائد اعظم اور پاکستان کے بانی
رہنماؤں کے ساتھ تھی چنانچہ عام مسلمان گرچہ قائد اعظم کی انگریزی زبان میں
تقریروں سے نابلد اور ناآشنا تھے مگر ان کے دل و دماغ اس بات کی گواہی دیتے
تھے کہ قائد اعظم جو کہ رہے ہیں وہ سچ اور حق ہے چنانچہ جب موقع آیا
مسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی فکر و فلسفہ پر ایمان رکھتے ہوئے
ایک آزاد قطعہ زمین پاک سرزمیں کے حق میں ووٹ دے ہی ڈالا۔ |