بلیک واٹر ،کالا پانی اور پاکستان

حضرت مولانا یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؒ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت حسن بن علی ؓ نے فرمایا جو دنیا کو طلب کرتا ہے دنیا اسے لے بیٹھتی ہے اور جو دنیا سے بے رغبتی اختیار کرلیتا ہے تو اسے اس کی پرواہ بھی نہیں ہوتی کہ کون دنیا کو استعمال کر رہا ہے دنیا کے طلب والا اس آدمی کا غلام ہوتا ہے جو دنیا کا مالک ہوتا ہے اور جس کے دل میں دنیا کی طلب نہیں ہوتی اسے تھوڑی دنیا کافی ہو جاتی ہے اور جس کے دل میں طلب ہوتی ہے اسے ساری دنیا بھی مل جائے تو بھی اس کا کام نہیں چلتا اور جس کا آج کا دن دینی اعتبار سے کل گزشتہ کی طرح ہے تو وہ دھوکے میں ہے اور جس کا آج کا دن کل آئندہ سے بہتر ہے یعنی کل آئندہ میں اس کی دینی حالت آج سے خراب ہو گئی تو وہ سخت نقصان میں ہے اور جو اپنی ذات کے بارے میں نقصان کی چھان بین نہیں کرتا وہ بھی نقصان میں ہے اور جو نقصان میں چل رہا ہے اس کا مر جانا ہی بہتر ہے ۔

حضرت حسن بن علی ؓ نے فرمایا یہ جان لو کہ علم و بردباری زینت ہے اور وعدہ پورا کرنا مردانگی ہے اور جلد بازی بیوقوفی ہے اور سفر کرنے سے انسان کمزور ہو جاتا ہے او رکمینہ لوگوں کے ساتھ بیٹھنا عیب کا کام ہے اور فاسق فاجر لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنے سے انسان پر تہمت لگتی ہے ۔

قارئین آج کے کالم کا عنوان دیکھ کر آپ سوچ رہے ہونگے کہ امریکن سی آئی اے کی پرائیویٹ پارٹنر دہشت گرد کمپنی کا بھلا ماضی کے حریت پسندوں کی جیل کالا پانی کے ساتھ کیا تعلق ہے اور اس منظر نامے میں پاکستان کہاں پر فٹ ہوتا ہے تو جناب آئیے کچھ سیاق و سباق پر گفتگو کر لیتے ہیں کالا پانی ایک ایسی جگہ کا نام تھا کہ جہاں پر انگریز بہادر آزادی کے متوالوں کو قید کردیتا تھا مولانا عبید اﷲ سندھی ؒ ،مولانا محمود الحسنؒ سے لے کر بڑے بڑے علماء کرام جب مسلمانوں کو آزادی دلوانے کے لیے ریشمی رومال تحریک سے لے کر مختلف تحریکیں چلائیں تو تاریخ لکھتی ہے کہ ہزاروں علماء کرام اور حریت پسندوں کو انگریزوں نے نہ صرف ’’ توپ دم ‘‘ کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اپنی دہشت سے مرعوب کرنے کے لیے کالا پانی نام کی ایک جگہ بھی تخلیق کی جسے آج کے دور کا ’’ گوانتا نا موبے ‘‘ کہا جا سکتا ہے یہ جگہ بھی آج کے دور کے دجال امریکہ بہادر نے ایجاد کی ہے اور جس کے متعلق ’’ لائن آف فائر ‘‘ نامی کتاب میں بلی مارکہ کمانڈو جنرل مشرف المعروف طبلے والی سرکارتحریر کرتے ہیں کہ انہوں نے بہت سے لوگوں کو ڈالرز کے عوض لوگوں کو امریکہ کے حوالے کیا اور ان لوگوں کو اسی جدید جیل میں قیدی بنایا گیا ہے بلیک واٹر نامی تنظیم اس وقت پاکستان میں کام کر رہی ہے اور ان کے اراکین کو ’’ فری میسن ‘‘ کے اراکین سے تشبیہ دی جاتی ہے اور بعض حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ فری میسن سے تعلق رکھنے والے یہودی بلکہ یوں کہیے کہ صیہونی نظریات رکھنے والے لوگ ہی بلیک واٹر میں کام کر رہے ہیں بلیک واٹر کو پاکستان میں ایک بڑا ایجنڈا دے کر لانچ کیا گیا اور اس حوالے سے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا نام لیا جاتا ہے کہ انہوں نے ہزاروں بلیک واٹر سی آئی اے ایجنٹس کو ’’ سفارت کاروں کے ویزے ‘‘ جاری کرنے کا کارنامہ سر انجام دیا اور یہ انہی کے کارناموں کا فیض ہے کہ ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں کھلے عام پاکستانی نوجوانوں کو قتل کیا او ر بعد ازاں امریکہ واپس چلا گیا ریمنڈ ڈیوس والے واقعہ پر پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور آئی ایس آئی نے شدید قسم کے تحفظات کا اظہار کیا اور ڈیڈ لاک تک کی نوبت آئی اور پورا امکان موجود تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کو سزا ملتی لیکن ’’ عالمی مفاہمتی سیاست ‘‘ کا شاخسانہ کہہ لیجئے یا ہماری بے غیرتی پر مبنی خارجہ پالیسی قرار دے لیجئے کہ غیرت کی یہ بیل منڈھے نہ چڑھ پائی اور پر اسرار سے انداز میں ’’ خون بہا ‘‘ ادا کر کے ریمنڈ ڈیوس امریکہ سدھار گیا ۔سی آئی اے اور بلیک واٹر کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ جہاں پر انہیں دیگر مینڈیٹ دیا گیا ہے وہیں پر ایک اہم ترین مینڈیٹ یہ ہے کہ ’’ پرو امریکن طالبان ‘‘ کو مضبوط کر کے نیٹو فورسز اور امریکہ کو جوتے مارنے والے طالبان مجاہدین کو کمزور کیا جائے گڈ اینڈ بیڈ طالبان کی اصطلاح اسی پس منظر میں ایجاد ہوئی اور قومی میڈیا پر یہ بات رپورٹ ہوئی کہ پاکستان اور افغانستان میں کام کرنے والے طالبان کے ایک درجن سے زائد گروپس موجود ہیں اور ان گروپس کو مختلف ممالک آپریٹ اور فنڈ کر رہے ہیں یہاں ایک حیران کن بات ہم آپ کو یاد دلانا چاہیں گے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں خود کش دھماکے کرنے والے اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے طالبان کو جب پاکستانی فورسز نے مار گرایا اور ان کی لاشیں میڈیا کے سامنے پیش کی گئیں تو ان کے اجسام پر وہ تصاویر موجود تھیں جو فری میسن صیہونی تحریک سے تعلق رکھنے والے اراکین کا لازمی حصہ ہیں اس سے یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان کے فوجیوں اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے کوئی او ر نہیں بلکہ امریکن نواز وہ طالبان ہیں جو در حقیقت غیر مسلم ہیں بلکہ یو ں کہیے کہ یہودی بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتے ہیں بات یہیں پر ہی ختم نہیں ہوتی جب آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ کیا گیا تو ڈیڑھ سو کے قریب بچوں اور سٹاف کی شہادت کے بعد پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا پر اس واقعہ کو ’’ پاکستان کا نائن الیون ‘‘ قرار دیا گیا ۔امریکی نائن الیون کو دنیا کے تمام ممالک ایک ڈھکوسلہ اور فراڈ قرار دیتے ہیں او ر اسے بھی صیہونی یہودی سازش قرار دیا جاتا ہے کہ کس طریقے سے مسلمانوں اور عیسائیوں میں دو ر حاضر کی صلیبی جنگ شروع کروائی جائے اور یہ مقاصد پورے کیے گئے یہاں سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آیا امریکہ اور پاکستان کے دیگر دشمن آرمی پبلک سکول پشاور کے اس سانحہ کے منصوبہ ساز ہیں یا بات کچھ اور ہے 2014کا اختتام ہو چکا ہے اور امریکہ اور نیٹو فورسز کو افغانستان میں شدید ترین ہزیمت کا سامنا کرتے ہوئے یہاں سے جانا پڑ رہا ہے اس صورت حال میں ایک طرف تو بھارت عالمی برادری کو یہ باور کروانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اسے افغانستان میں ’’ میجر رول ‘‘ ملنا عالمی امن کے لیے ناگزیر ہے اور دوسری جانب پاکستان کو ’’ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ‘‘ کی دلدل میں اتارنے والے امریکہ بہادر کی روز اول سے یہ کاوش ہے کہ اپنی جنگ کو پاکستان کی جنگ قرار دے کر افواج پاکستان کو اس دلدل میں پھنسایا جائے اب اس سلسلہ میں آگے کی پیش رفت کیا ہے آئیے اب اس پر کچھ بات کر لیتے ہیں بقول چچا غالب ہم یہ کہتے چلیں
کوئی امید برنہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثواب ِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چُپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
کیوں نہ چیخوں کو یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی
داغ ِ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

قارئین انکل سام نے پاکستان سے دشمنی نما دوستی یا دوستی نما دشمنی کی روایت ہمیشہ برقرار رکھی ہے 1965کی پاک بھارت جنگ ہو یا 1971کا سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ہو امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے ۔1971میں امریکہ کا ساتواں بحری بیڑا پاکستان کی مدد کے لیے آنے کی خبریں افواہیں ثابت ہوئیں اور پاکستان ٹوٹ گیا ۔1979میں جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو عالمی منظر نامے پر پائے جانے والے بہت بڑے خطرے کو محسوس کرکے امریکہ نے عرب ممالک کو اکٹھا کر کے پاکستان کو اس جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ بنایا ملک میں امیر المومنین جنرل ضیاء الحق کی اتنی مضبوط گرفت تھی کہ کوئی ’’ چوں ‘‘ بھی کرنے کے قابل نہ تھا اس دور میں جہادیوں کے لشکر ترتیب دیئے گئے او ر جو آواز بھی اس دیوانگی کے خلاف اٹھتی تھی اسے کمونیزم کا ایجنٹ قرار دے دیا جاتا تھا اس دو ر میں ولی خان مرحوم اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت پاکستان بھر کے ترقی پسند لوگ اور جماعتیں ’’ جہاد افغانستان ‘‘ کو ’’ فساد افغانستان ‘‘ قرار دیتے تھے اور ان لوگوں کو بڑی بے رحمی سے وطن دشمن قرار دے دیا جاتا ہے آج جب روس کو افغانستان سے نکلے ’’ سلور جوبلی ‘‘کا سال منایا جا رہا ہے تو پچیس سال بعد ہم دھول بیٹھ جانے کے بعد جب پاکستان کا نقشہ دیکھتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ تمام ترقی پسند لوگ ولی خان مرحوم کی قیادت میں جو بات کہتے تھے وہ درست تھی ’’ جہاد افغانستان ‘‘ کے نتیجے میں بہت سے جرنیل ،سیاسی قائدین اور جہادی لشکریوں کے امراء کے بینک بیلنس تو بے تحاشہ ترقی کر گئے لیکن پاکستان کا ستیا ناس ہو گیا ۔دین کو جس انداز میں ظاہری جہاد کے لیے استعمال کیا گیا اس سے ایسی سوچیں پروان چڑھیں کہ جنہوں نے پاکستان میں مختلف مقدس ہستیوں کے ناموں پر لشکر ترتیب دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔آج صورتحال یہ ہے کہ اہل سنت ،اہل حدیث ،بریلوی ،دیوبندی اور دیگر لوگ اپنی مسجدوں میں محفوظ نہیں ہیں اور اہل تشیع کو امام بارگاہوں میں بموں او ر گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے یہ سلسلہ یہیں تک محدود نہ رہا بلکہ اب تو یہ صورتحال ہے کہ افواج پاکستان پر بھی صبح شام حملے کیے جاتے ہیں یہ سب امریکہ بہادر کا وہ سیاہ ایجنڈا ہے کہ جنہوں نے پورے پاکستان کو بلیک واٹر کی آماجگاہ اور کالا پانی بنا دیا ہے اﷲ پاکستان کے حال پر رحم فرمائے ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374180 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More