پبلک سروس کمیشن آزاد کشمیر: معیار اور مسائل

’کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے‘۔۲۸ دسمبر ۲۰۱۴ء کو کالج سے فون آیا کہ پی ایس سی سے آپ کا کال لیٹر آیا ہے۔یاد آیا کہ نومبر ۲۰۱۳ء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی ایک اسامی کے لیے اپلائی کیا تھا۔۷جنوری ۲۰۱۵ء کو انٹرویو تھا۔کال لیٹر کے الفاظ بہت دلچسپ ہیں آپ بھی پڑہیں اور نوحہ خوانی کریں۔’آپ کی درخواست جانچ پڑتال کے بغیر مشروط طور پر قبول کرلی گئی ہے(یعنی تیرہ مہینوں میں جانچ پڑتال کی آپ کو مہلت نہیں ملی )۔’اگر آپ درج بالا اسامی کے لیے اشتہار میں درج تعلیمی قابلیت ،تجربہ اور دیگر شرائط کے مطابق اپنے آپ کو اہل سمجھتے ہیں تو اپنی ذمہ داری پر(آپ کی ذمہ داری کیا ہے پھر) انٹرویو کے لیے پیش ہوسکتے ہیں(یعنی کمیشن میں بیٹھا عملہ سوکھی روٹیاں توڑ رہا ہے اور کاغذات کی پڑتال ان کا کام نہیں )۔’بوقت انٹرویو اگر آپ تعلیمی قابلیت،تجربہ اور ریسرچ ورک،ریسرچ پبلی کیشنز اور دیگر شرائط کے حامل(حاملہ)نہ پائے گئے یا اپنی اہلیت کو ثابت نہ کرسکے تو آپ کی درخواست مسترد تصور ہوگی(اس کا عملی مظاہرہ پی ایس سی میں سات تاریخ کو میں نے دیکھا کہ آزادکشمیر کے دور دراز سے سفر کرکے آنے والی خواتین کو ذلیل کرکے دفتر سے واپس کیا گیا ۔کیا ان کو اس پورے سال کے دوران خط لکھ کر یہ نہ بتایا جاسکتا تھا کہ وہ اس قابل نہیں اور تشریف نہ لائیں یا ان پڑھے لکھے افراد کو پی ایس سی کے کلرکوں سے ذلیل کروانا ضروری تھا)۔

۹ بجے ہم دفتر پی ایس سی پہنچے تو نوٹس بورڈ پر یہ اعلامیہ چسپاں تھا کہ سپورٹس کمپلیکس تشریف لے جائیں۔وہاں پہنچے تو ہو کا عالم طاری تھا۔سینئر سکالرز کے لیے بیٹھنے تک کی کوئی جگہ نہیں۔نو سے دس اور پھر گیارہ بج گئے لیکن کوئی پرسان حال نہیں۔دور دراز سے تشریف لانے والے سکالرز سے ملاقات رہی۔گیارہ بجے کاغذات کی پڑتال کا عمل شروع کیا گیا۔دو خواتین جو باغ اور راولاکوٹ سے تشریف لائی تھیں ان کو ذلیل کرکے رخصت کردیا گیا اور پھر ہمارے ساتھ کے دو ایم فل پاس اسسٹنٹ پروفیسر و ماہر مضمون کو یہ کہہ کر رخصت کردیا گیا کہ پی ایچ ڈی چار سکالرز کی موجودگی میں آپ سے معذرت۔میرے کاغذات اور پھر باقی سکالرز کے کاغذات کی پڑتال کی گئی۔عجیب بات یہ تھی کہ ایک سکالر کی پی ایچ ڈی مقررہ تاریخ کے بعد مکمل ہوئی ،اب ہم تو رواداری میں خاموش تھے لیکن یہ تو کمیشن کا کام تھا کہ وہ اس بات کی پورے تیرہ مہینوں میں پڑتال کرواتے۔میرے علاوہ تینوں سکالرز کے پاس ریسرچ پیپرز تھے ہی نہیں۔پی ایس سی کے کلرکوں کو معلوم ہی نہیں کہ ایچ ای سی کے تسلیم شدہ اردو کے رسائل کون کون سے ہیں اور ریسرچ پیپر اور ریسرچ ورک کیا ہوتا ہے ۔وہ صرف ڈگریاں دیکھ رہے تھے۔اس طرح میں واحد ہی اس کی اہلیت رکھتا تھا لیکن احترام میں خاموش تھا ۔اب یہ ادارے کا کام تھا کہ وہ دیکھے اور فیصلہ کرے۔تاہم پی ایس سی کے ہاکس اس بات سے لاعلم تھے کہ یہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح باقی سطحوں سے مختلف ہوتی ہے اور اس کو جانچنے کا معیار بھی مختلف ہوتا ہے۔

اس دوران چیئرمیں اور اراکین کمیشن تشریف لاتے رہے اور انگریزی کا انٹرویو شروع ہوا ۔ایک نشست کے لیے ایک خاتون سکالر تھی۔تاہم معیار کا تعین ایک تحقیق کے استاد اور پروفیسر ڈاکٹر نسیم نے کرنا تھاجو انھوں نے کردیا۔بارہ کے بعد ہم کو اکٹھا کمیشن کے سامنے پیش کیا گیا کہ ہماری اہلیت کا ایک پیمانہ گروپ ڈسکشن تھا۔عجیب منظر دیکھا کہ ایک رکن اور چیئرمین اس بات پر الجھ پڑے کہ گروپ ڈسکشن ہو یا نہ ہو۔ہم کو باہر کھدیڑ دیا گیا۔دس منٹ کے بعد دوبارہ اکٹھی طلبی ہوئی اور اس بار میں نے محسوس کیا کہ سیز فائر ہو چکا اور اب توپوں کا رخ ہماری طرف ہوگا۔دو دومنٹ میں اظہار خیال اور پھر باہر۔مجھے پروفیسر عاشق کو ارکان کے درمیان ماہر مضمون کے طور پر دیکھ کر حیرت اور صدمہ ہوا۔کیا پی ایس سی کا یہ معیار رہ گیا ہے کہ پی ایچ ڈی کی سطح کے سکالرز کے معیار کو ایک ’ماشٹرٹائپ‘ایم اے پاس پروفیسر سے ناپا جائے۔موصوف مظفرآباد کے معروف ٹیوشنسٹ ہیں جو بیوروکریٹس کے گھروں میں جاکر بھی خدمات انجام دیتے ہیں اور مظفرآباد کے تمام نجی کالجوں کے پسندیدہ ’ماشٹر‘ ہیں۔اور یہ میر ی غلطی تھی کہ مجھے احتجاج کے طور پر باہر آنا چاہیے تھا یا کم از کم وہیں اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا چاہیے تھا۔

بہرحال انٹرویو شروع ہوا۔پہلا نمبر ڈاکٹر آصف حمید کا تھا جو جب چالیس منٹ کے بعد باہر آئے تو مایوس تھے۔پھر میرا نمبر تھا اور میں جب اندر گیا تو آغاز ہی پروفیسر عاشق نے اکیڈیمک انداز سے کیا (وہ سکالرلی انداز کہاں سے لاتے کہ ان کا تجربہ صرف انٹر کی سطح پر بچوں اور بچیوں کو پڑھانے یا بیوروکریٹس کی اولادوں کو ہوم ٹیوشن پڑھانے کا تھا)۔میرے تحقیقی کام،ریسرچ پیپیرز،ملکی اور بین الاقوامی سطح کے کام پر کوئی بات یا سوال نہ تھا۔انٹر کی سطح کے ایم سی کیوزMCQ سوالات اور پھر خود ہی جواب دینا۔کہا بھی کہ یہ صنعتوں،لامسہ اور باصرہ کی سطح نہیں تحقیق کی بات ہے۔تو موصوف چڑ گئے اور ایک تیسرے رکن کے سوالات کے دوران ایک سوال کھینچ مارا کہ ’یہ تو تحقیق کا سوال ہے‘۔پورے ماحول کو عاشق کے اس رویے نے غیر سنجیدہ کردیا اور تمام ارکان اردو ادب پر سوالات کرنے لگے۔آج کمیشن اور چیئرمین صاحب نے ایک ’ماشٹر‘ کوبلا کررگڑا دینے کا موقع فراہم کیا تھا اور اس کا اس نے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور ثابت کیا کہ ’یہ پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لے کر پھرنے والے میرے مقابلے میں کچھ نہیں‘۔محدود ذہنیت کا یہ مظاہرہ میں نے پہلے نہیں دیکھا۔موصوف نے ہم چاروں کو خوب’بھنبھوڑا‘۔سالوں زخموں سے ٹیسیں اٹھتی رہیں گی۔

چیئرمیں صاحب کو ہماری جانچ کے لیے پورے آزادکشمیر سے ایک بھی سینئر سکالر نہیں مل رہا تھا تو پانچ سات ہزار روپے خرچ کرکے پاکستان کی کسی جامعہ سے کسی پروفیسر ڈاکٹر کو بلالیتے۔کمیشن اتنا غریب تو نہیں۔یہ آپ کے سوچنے کا مقام ہے اور ارباب اختیار کے بھی کہ کیا اس سطح پر اس طرح کی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ آپ کو روا ہے۔اسلامیات میں بھی آپ نے ایسے ہی کیا ۔اس لترول کے بعد جاکر کھانا کھایا اور سب اپنی اپنی منزلوں کو روانہ ہوئے۔ہم کو یہ پنگا کہ دیکھیں ’ہماکس کے سر بیٹھتا ہے‘۔کمیشن کے دفتر گئے تو معلوم ہوا کہ ہم سب کو ڈس کوالیفائیdisquilify کردیا گیا ہے۔ایک ’ماشٹر‘ کا معیار یہی ہونا چاہیے تھا۔تاہم کمیشن پر حیرت ہوئی اور ان کے فیصلے پر بھی۔جانے کب اب یہ پوسٹ مشتہر ہوگی۔اس دوران ڈاکٹر صغیر اور ڈاکٹر جاوید ایسوسی ایٹ پروفیسر بن جائیں گے۔اور ہم ’کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک‘۔پبلک سروس کمیشن واقعی ’پبلک‘ ’سروس‘ ’کمیشن‘ ہے۔نہ پانی کا انتظام ،نہ چائے کا نہ بیٹھنے کی مناسب جگہ اور نہ یہ پتہ کہ کس وقت انٹرویو شروع ہوگا۔ہر ایک کو وقت گزارتے اور ٹی اے ڈی اے بناتے دیکھا۔ضرور بنائیں لیکن وقار کے ساتھ۔آپ نے گروپ ڈسکشن کا تصور فوج سے لیا ہے تو اس کو اس کی روح کے ساتھ استعمال کریں کہ موضوع دیں۔آدھا گھنٹہ وقت دیں اور دو ارکان کو ان کے ساتھ بٹھا دیں جو ان کو دیکھیں اور معیار کا تعین کریں۔ایک اور سینئر سکالر نے کمیشن کے اس تحقیق کش رویے پر احتجاج کیا تو دفتر سے ان کو یہ جواب ملا کہ آیندہ آپ کو بلا لیں گے۔یہ ہے معیار کمیشن کے دفتر کے عملے کا۔

پروفیسر عاشق:آپ ذرا تنہائی میں بیٹھ کر سوچیے گا کہ کیا آپ کو اس سطح کے انٹرویو کے لیے آنا چاہیے تھا؟آپ نے ہم کو رگڑا دینے کی ’نیکی‘ کے علاوہ کیا جھک مارا ہے۔آپ میں یہ اخلاقی جرات کب آئے گی کہ آپ یہ کہہ کر انکار کر دیں کہ’ میں اس کام کے لیے موزوں نہیں۔پی ایچ ڈی سکالرز کے معیار کو ناپنے کے لیے پی ایچ ڈی کی سطح کا ہی پروفیسر بلالیا جائے‘۔تاہم مظفرآباد کے معروف ’ٹیوشننسٹ‘tutionist آپ کا یہ عمل تاریخ میں سنہرے حروف میں ہم نے لکھ دیا ہے۔آیندہ محتاط رہیں کہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا حق ہم محفوظ رکھتے ہیں۔اور ایک آخری بات:اﷲ کا شکر ہے کہ ہم بے روزگار نہیں ورنہ جو آپ سب نے کیا اس کے بعد ایک بے روزگار فرد وہی کرتا جو آپ اور ہم آئے روز اخبارات میں پڑھتے اور میڈیا پر سنتے ہیں۔ناز مظفرآبادی کے اس خوب صورت شعر پر آپ سب کو دعوت فکر دیتے ہوئے اجازت چاہوں گا کہ
بھلے مہنگی کہ ارزانی پڑے گی
حقیقت سامنے لانی پڑے گی
abdul karim
About the Author: abdul karim Read More Articles by abdul karim: 34 Articles with 51346 views i am a man of some rules and regulations.i like maturity in the behavious of persons and in nations.i do not believe in strictness of thoughts but i b.. View More