لکھاری کا ادب سے ایک عظیم رشتہ
جڑا ہوتا ہے اور اس کا پاس رکھنا بھی اس کے لئے اتنا ہی ضروری ہوتا ہے۔ وہ
جو بھی لکھتا ہے قارئین پر اس کا اچھا یا برا اثر ضرور پڑتاہے۔ وہ جس بھی
موضوع پہ لکھے اخلاق کے دائرے میں رہ کے لکھے تو ہی اسے ادب میں شمار کرنا
چاہئے، اگر وہ رشتوں کا تقدس اور لوگوں کی عزتوں کو پامال کرے تو اسے ادب
میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ آج سے کچھ برس قبل تو ادب کے بہت جانے مانے نام
تھے جنھوں نے جب بھی لکھا آزادانہ رویہ لے کر بھی تلخ سچائی سامنے رکھی اور
لفظوں کا سلیقے سے استعمال کیا کہ کہیں بھی کسی کی عزت مجروح نہ ہونے پائے،
تاہم آج کل کے چند ایک لکھاریوں کے علاوہ چند ایک ایسے بھی ہیں جن کے لئے
فحاشی اور عریانی لکھنا یا غیر اخلاقی جملوں کا استعمال کرنا کوئی معنی
نہیں رکھتا۔ چاہیے کسی کی عزت مجروح ہو یا کسی کی ذات پر حرف آئے۔ جبکہ
لمحہ فکریہ یہ ہے کہ وہ پڑھی بھی جاتی ہوں اور چھپی بھی۔ یعنی کسی کو اس
بات کو ہوش نہیں کہ ماں، بہن اور بیٹیوں کے لئے جو نازیبا الفاظ لکھے گئے
ہیں وہ یہی ماں بہنیں ہی تو پڑھیں گی۔
اگر ایسے لکھاری ان عظیم نامور لکھاریوں کی مثالیں دیں کہ وہ بھی آزادانہ
خیالات رکھتے تھے اور بول کے لب آزاد ہیں تیرے کے مصداق ہوا کرتے تھے ۔
تاہم یہاں بات آزاد لکھنے کی نہیں ہے۔ آزادانہ لکھنے اور دائرے میں لکھنے
میں بہت فرق ہوا کرتا ہے۔ سوچ سمجھ کر لکھنا پڑتا ہے کہ آپ کا لکھا ہوا کس
نے پڑھنا ہے؟ جب ایک لکھاری نازیبا الفاظ جنھیں عرف العام میں گالیاں کہا
جاتا ہے وہ اپنے لکھنے میں شامل کرے گا تو ایک لمحے کے لئے وہ خود سوچے کہ
جو وہ لکھ رہا ہے اس کی ماں بہن بھی تو پڑھیں گی انہیں سبکی محسوس نہیں
ہوگی کہ کس قدر جہالت پائی گئی ہے۔اس سے کہیں زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ
اس پہ فخر بھی کیا جاتا ہے کہ ہم نے لکھا ہے۔ لوگ خود اپنی زبان سے اپنی
ماں، بہن یا دوسروں کی ماں، بہن کے لئے غلیظ اور گھٹیا الفاظ استعمال کرتے
ہیں۔
لکھنا بنیادی طور پر ایک معاشرے کی اصلاح اور دعوت و تبلیغ کا کام ہے۔ تاہم
اگر اس میں اصلاح نام کی کوئی چیز نہیں ہوگی تو شاید یہ چند بے بنیاد اور
ننگ جملوں کے تبادلے کے علاوہ کچھ نہیں ہوں گے۔ کسی کے متعلق اچھے جملوں کے
استعمال کے حوالے سے اﷲ تعالٰی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: اے ایمان
والو! کوئی قوم کسی قوم سے کا مذاق نہ کرے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر
ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں )ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی
ہوں، اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام
رکھو۔ ایمان لانے کے بعد برا نام (رکھنا) گناہ ہے، اور جو توبہ نہ کریں وہ
ظالم ہیں (سورۃ الحجرات - 11)
اسی طرح غلط زبان کا استعمال کرتے ہوئے مذاق میں بھی گناہ ہے اور یہ جہنم
میں لے جانے والا عمل ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دوزخیوں
کی پانچ اقسام ہیں، ان کے درمیان وہ لوگ ہیں جو کنجوس، جھوٹے، گالی دینے
والے فحش اور گندے الفاظ استعمال کرنے کے عادی ہوں گے‘‘۔ (مسلم)
ایک اور مقام پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اﷲ اور
آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش
رہے۔ (بخاری)
مذکورہ آیات اور احادیث کی رو سے دیکھا جائے تو شاید ہمارے لکھاریوں کے لئے
کچھ ضابطے اور اخلاقیات مقرر کی گئیں ہیں۔ ویسے نامور لکھاریوں نے ادب کے
لئے مختلف قواعد و ضوابط لکھے ہیں تاہم قرآن اور سنت کی روشنی میں بھی
اعلیٰ قواعد رکھے گئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ دور میں نئے لکھنے
والوں کے لئے اشاعتی اداروں کی جانب سے لکھنے کے لئے تمام تر قواعد اور
ضوابط کو ضروری قرار دیا جائے۔ ایسی تحریروں اور کہانیوں کو ہرگز قابل
اشاعت نہ سمجھا جائے جو ان قواعد و ضوابط پر پورے نہ اتریں ۔ جبکہ نئے یا
پرانے لکھاریوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے مطالعہ کو وسیع تر کرتے ہوئے نامور
اچھے لکھاریوں کی تحریروں کو پڑھیں ۔ ادب کے قوانین پر عمل کریں، جبکہ اس
پیشے کو دعوت و تبلیغ کا کام سمجھ کر قوم و ملت کی خدمت سمجھیں۔ اﷲ ہمارا
ہامی و ناصر ہو ۔ |