بسا اوقات لکھنے کے لئے
الفاظ کم پڑتے ہیں اور بسااوقات صورتحال کی صحیح عکاسی کے لئے محاورے معدوم
ہوجا تے ہیں ۔لکھنے والے انسان ہی تو ہوتے ہیں ان پر قارئین سے بھی زیادہ
اچھا اور برا اثر مرتب ہوتا ہے اسی لئے لکھنے والوں کا دماغ تو ٹھیک رہتا
ہے مگر دل ساتھ چھوڑجاتا ہے۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر امریکی انٹراگیشن سینٹروں
میں تشدد اور مظالم کی کہانیوں نے اہلیان کشمیر کو ہمیشہ رنج والم میں
مبتلا کردیا ہے ۔مشرف کی ہمدردی رکھنے والے ایک حقیر اور معمولی سے طبقے کو
بھی اس کے کارناموں نے توبہ کرنے پر مجبور کردیا ہے ۔اکثر کشمیری جیلوں کے
اندر کے مظالم کی کہانیوں کااثر بہت جلد ’’ذاتی طور‘‘پرمحسوس کرتے ہیں ۔جس
کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کشمیر میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کو عارضی یا
مستقل حراستی مراکز میں تشدد کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو اسی لئے کوئی بھی
جیل کہانی کشمیریوں کو اپنی ہی کہانی معلوم ہوتی ہے ۔
میں نے اپنے ہفتہ وار مضمون کے لئے منتخب عنوان کوآخری وقت میں تبدیل کر
لیا جبکہ کشمیر کے موجودہ حالات میں ایک قلمکار کے لئے ایسا کرنا بہت مشکل
ہوتا ہے ۔ہمیں اپنی مصیبت سے چھٹکارا نہیں مل رہا ہے جس کی وجہ سے دوسرے
بین الاقوامی مسائل پر لکھنے کی نوبت بھی بہت کم آتی ہے ،مگر بہن عافیہ
صدیقی کا معاملہ اس لئے مختلف ہے کیونکہ اس کو مشرف جیسے ظالم شخص نے
امریکیوں کے حوالے صرف اس لئے کیا تھاکہ وہ ’’اسلام پسند ‘‘تعلیم یافتہ
خاتون تھی ۔امریکہ تاریخ انسانیت کا سب سے بڑاطاقتور دہشت گرد ملک ہے لہذا
کمزور قوموں کو اس کی اطاعت چاروناچار کرنی پڑتی ہے ۔پاکستان اتنا بھی
کمزور ملک نہیں تھا جیسا کہ اب تک مشرف اینڈ کمپنی اس کا دعویٰ کرتی رہتی
ہے حالانکہ امریکا اور نیٹو کے مقابلے میں نہتے افغان طالبان نے ان کی طاقت
کا بھرم توڑ ڈالا ۔پھر حد یہ کہ امریکہ سے تعاون کرنے میں مشرف اور اس کے
ہمنوا اخلاقیات اور انسانی ہمدردی سے بھی سے خالی ہو چکے تھے ۔ملاضعیف کی
حوالگی تاریخ انسانیت کے ماتھے پر کلنک ہے اور پاکستان بلند بانگ اسلام
پسندی کے دعوؤں کے باوجود بھی اس داغ کو اپنے ماتھے سے نہیں مٹا سکتا ہے
پھر بھی یہ عافیہ کے مقابلے میں ایک مردمجاہد کی حوالگی تھی جنہیں بعد میں
رہا بھی کردیا گیا۔ البتہ افسوس پاکستان کے حکمرانوں ،سیاست دانوں ،مذہبی
لیڈروں ،دانشوروں اور صحافیوں کے آج کے رویہ پر ہو رہا ہے کہ اب ڈاکٹر
عافیہ صدیقی نہ لاپتہ ہے نہ ہی کسی افغان حراستی مرکز، میں تو پھر مجرمانہ
خاموشی چہ معنی دارد! !
اب آئیے یہ جان لیجیے کہ میں نے آخری وقت میں اپنا موضوع کیوں تبدیل
کرلیا۔فیس بک پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے چندروز قبل
پروفیسر ضیاالرحمان صاحب کا شائع شدہ وہ مضمون لوڈ کیا ہے جس میں پروفیسر
صاحب نے بگرام جیل میں قید ایک قیدی کی زبانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر ڈھائے
جانے والے مظالم کی چھوٹی سی جھلک پیش کی ہے ۔پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ
’’میں ایک سال قبل جب افغانستان کے صوبہ پروان گیا تو وہاں بگرام جیل کے
ایک قیدی سے ملاقات ہوئی تھی۔55سالہ افغان بزرگ سہراب خان نے پانچ سال
بگرام جیل میں جرم بے گناہی کی سزا کاٹی ہے ۔گفتگو کے دوران سہراب خان نے
اپنی گرفتاری اور قید کے واقعات کا ذکر کرتے ہو ئے بتایا کہ ایک خصوصی سیل
میں پاکستان کی شہری عافیہ صدیقی کو بھی 2003ء میں لا کر بند کیا گیا تھا۔
جو پوری جیل میں واحد خاتون قیدی تھی۔اس نے بتایا کہ مختلف مواقع پر اس کی
چار مرتبہ عافیہ صدیقی سے مختصر ملاقاتیں ہوئیں اور اس نے انھیں دلاسا دیا
تھا۔
سہراب نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ سی آئی اے کے سلوک کی کچھ باتیں بتائیں
تو میرے دماغ کی نسیں کھنچ گئیں اور میرا بلڈ پریشر خطرناک حد تک بڑھ گیا
۔اخبارات اور ٹی وی چینلز ،تجزیوں ،تبصروں ،کالموں ،تحقیقاتی رپورٹس اور
فیچرز میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے متعلق بہت کچھ پڑھا تھا ،لیکن آج ایک ایسے
انسان کے منہ سے عافیہ صدیقی کے ساتھ بگرام جیل میں پیش آنے والے واقعات سن
رہا تھا جو ان سب کا عینی شاہد تھا ۔کئی باتیں سن کر میری آنکھیں نم ہوئیں
اور کئی باتوں نے میری روح کو گھائل کردیا ۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ان حالات
سے دوچار کرنے والا کوئی پرایا نہیں تھا ،بلکہ اپنا ہی حکمران تھا،جو خود
کو بڑے فخر کے ساتھ ’’سید‘‘ بھی کہتا ہے ۔چند ٹکوں کی خاطر ڈاکٹر عافیہ
سمیت ایک ہزار کے قریب مسلمانوں کا امریکہ کے ہاتھ سوادا کرنے والے ڈکٹیٹر
پرویز مشرف کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ڈاکٹر عافیہ سے متعلق میرے ایک
سوال کا جواب دیتے ہو ئے سہراب خان نے بتایا کہ 2005ء میں امریکا سے کچھ
فوجی آئے تھے ،جو عافیہ صدیقی کو ہیلی کاپٹر پر کہیں لے گئے ۔تین دن بعد جب
اس کو واپس لایا گیا تو وہ اپنے قدموں نہیں بلکہ اسٹریچر پر تھی ۔ہمیں پتا
چلا کہ اس کو کراچی سے آگے کھلے بین الاقوامی سمندر میں کھڑے امریکن بحری
بیڑے پر لے جایا گیا تھا جہاں معلومات لینے کے لیے اس پر بدترین تشدد کیا
گیا۔رات کے سناٹے میں اس کی درد ناک چیخیں سن کر قیدی روتے تھے۔سہراب نے
ایک اور آنکھوں دیکھا واقعہ سناتے ہو ئے کہا ’’ایک دفعہ عافیہ بلند آواز سے
قرآن کریم کی تلاوت کر رہی تھی۔ایک امریکن فوجی عورت نے اسے تلاوت سے منع
کیا لیکن اس نے تلاوت جاری رکھی ۔غصہ میں آکر اس فوجی عورت نے عافیہ صدیقی
کو ایک کرسی پر بٹھا کر اس کے دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف باندھ دیے اور پھر
اس بد بخت عورت نے زبردستی عافیہ کا منہ کھول شراب ڈالی۔اس فوجی عورت کی
شرمناک حرکت پر تمام قیدیوں نے شام کے کھانے کی ہڑتال کردی۔اس بات کا جب
جیل کے ایک سینئر افسر کو پتا چلا تو اس نے اس فوجی عورت کو بگرام جیل سے
ٹرانسفر کرنے کا اعلان کردیا،جس کے بعد قیدیوں نے ہڑتال ختم کی ۔
سہراب خان کی زبانی یہ واقعہ سن کر مجھے اپنے آنسوؤں پر اختیار نہ رہا ۔اس
نے بتایا کہ جنوری کی سخت سردی میں ایک دن صبح سویرے عافیہ صدیقی کو جیل کے
درمیان میں موجود گراؤنڈ میں لایا گیا۔عافیہ کے جسم پر قیدیوں کی سنگل وردی
تھی جبکہ اس کے پاؤں ننگے تھے ،جن میں زنجیریں تھیں۔اس کے پاس کھڑے تمام سی
آئی اے اہلکاروں نے لانگ بوٹ ،موٹے کوٹ اور سر پر گرم ٹوپیاں پہن رکھی
تھیں۔سہراب خان نے بتایا کہ گراؤنڈہماری بارک کے سامنے تھا۔ ہم سب قیدی
پریشان ہو گئے کہ معلوم نہیں یہ ظالم ہماری بہن کے ساتھ کیا ظلم کرنے والے
ہیں ۔سہراب نے بتایا کہ اس وقت تک سورج نہیں نکلا تھا اور ہر طرف دھند
چھائی ہوئی تھی،جس وجہ سے گرم کپڑوں اور بیرک کی چاردیواری کے باوجود سردی
سے ہمارے جسم بری طرح ٹھٹھر رہے تھے۔اتنی خوفناک سردی میں ہماری آنکھوں کے
سامنے دو امریکی فوجیوں نے ٹھنڈے پانی کی بھری بالٹیاں لاکر عافیہ کے سر پر
اُلٹ دیں ،جس سے اس کے منہ سے اذیت اور کرب بھری چیخیں نکلیں ۔اس کے بعد
ایک فوجی نے ان کی کمر پر بندوق کا بٹ مارتے ہوئے گراؤنڈ کا چکر لگانے کا
حکم دیا ۔وہ مشکل سے کھڑی ہو کر دو قدم چلی ،پھر پیروں میں پڑی زنجیر کی
وجہ سے زمین پر گر گئی ۔سہراب نے بتایا کہ اس دن دو گھنٹے تک وہ ظالم
امریکی وحشی فوجی درندے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ یہ ظلم کرتے رہے اور ہم
بے بسی کے ساتھ سلاخوں کے پیچھے سے یہ المناک منظر دیکھتے رہے ۔
پروفیسر ضیا الرحمان صاحب کے کالم کو پڑھ کر ہر ایک آنکھ اشکبار ہو تی ہے
اس لیے کہ یہ کہانی صلیبی جنگوں میں گرفتار کسی مجاہد بہن کی سات سو سال
پرانی کہانی نہیں ہے بلکہ یہ وہ عافیہ صدیقی ہے جو امریکی یونیورسٹی کی ہی
فارغ التحصیل ہے ۔جس کو مشرف نے تین بچوں سمیت امریکی درندوں کے حوالے کیا
تھا ۔کئی برس تک لاپتہ رہنے کے بعد جب برطانوی شہری معظم بیگ نے قیدی نمبر
650پر سے پردہ اُٹھا کر دنیا کو بتا دیا کہ بگرام امریکی ائیر بیس پر قیدی
خاتون قیدی کوئی اور نہیں بلکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے تو عالم اسلام میں
خاصی ہلچل مچی اور جذبات میں سخت تلاطم پیدا ہوا ۔جس کے بعد امریکی حکام نے
گرفتاری کا نیا ڈرامہ رچا کر اسے امریکہ پہنچا دیا جہاں ایک جھوٹی عدالت
میں اسے اسی برس قید کی سزا سنائی ۔دو بچے فوزیہ صدیقی کے سپرد کئے گئے ایک
بچہ غالباََ اب تک لاپتہ ہے ۔ فوزیہ صدیقی نے اس سے قبل امریکی جیل وارڈن
کے بقول اس بات کا بھی انکشاف کیا تھا کہ عافیہ صدیقی کا جیل میں حمل ٹھہرا
ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ وحشی امریکی جیل اسٹاف نے عافیہ کو اپنی ہوس کا
نشانہ بنا دیا ہوگا ۔حال ہی میں فوزیہ نے سوشل میڈیا پر اس بات کا بھی
انکشاف کیا کہ امریکی جیل قوانین کے مطابق قیدیوں کو اپنے گھر والوں کے
ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کرنے موقع فراہم کیا جاتا ہے مگر گذشتہ دس مہینے
میں ایک مرتبہ بھی عافیہ کو ایسا موقع فراہم نہیں کیا گیا ؟
خیر یہ تو امریکی دہشت گردی کی تاریخ کاایک شرمناک باب جس سے مسلمان قیامت
تک فراموش نہیں کر سکتے ہیں بلکہ قیامت کے بعدبھی محشر میں حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کے جھوٹے دعویداروں کو اﷲ تعالیٰ کے ہاں جرائم پر پوچھ گچھ ہوگی
اورتوبہ نہ کرنے کے نتیجے میں رسواکن سزا بھی ملے گی۔البتہ اب سوال یہ نہیں
ہے کہ امریکہ نے کب کیا کیا ؟اس لیے کہ وہ ’’طاقتور اور پاگل‘‘ دہشت گرد
ملک ہے جس کے ہاں’’ قوانین احترام و حرمتِ جان‘‘ صرف اپنے گوروں کے لیے
ہوتے ہیں کسی اور کے لیے نہیں ۔ یہاں سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ وہ پاکستان
کیا کرتا ہے جس کی سرزمین پر عافیہ صدیقی نے جنم لیا ہے ؟وہ حکمران کیا
کرتے ہیں جن کے دن رات ’’اسلامی جمہوری پاکستان‘‘کے نعروں میں گزر جاتے ہیں
،وہ عمران خان کیا کرتا ہے جس کو شہرت ہی اسی مسئلے کو پیش کرنے کے نتیجے
میں ملی تھی اور پھر معنی خیز چپ سادھ لی ؟وہ طاہر القادری کیا کرتے ہیں
جنہوں نے نواز شریف کو اتارنے کے نام پر دو مہینے تک دارالخلافہ کو ہی بلاک
کر رکھا تھا ؟ وہ مذہبی جماعتیں کیا کرتی ہیں جو کشمیر اور فلسطین کی آزادی
کے نام پرملین مارچوں کا انعقاد کر کے بظاہر ایک ہی رات میں ان خطوں کو
آزاد کرنے کے خواب دیکھتی ہیں ؟وہ دور کی بہنوں پر تلملا اٹھنے کے تماشے
کرنے کے بجائے اپنی اس بہن کی رہائی کے لیے کوئی بندوبست کیوں نہیں کرتے
ہیں جس کی دردناک داستان پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ کر
چکی ہے ۔آخر یہ کون سی اسلام نوازی ہے کہ وہ متبرک ایام کی طرح ایک دن
عافیہ کی رہائی کے نام پر منا کر چند جلسوں جلوسوں کا انعقاد کر کے اگلے
سال تک خاموش ہو جائیں ؟انھیں کشمیر ،فلسطین ،چیچنیا،شام اور عراق کے غم
گھلنے کے تماشوں کے بجائے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہئے تھا تاکہ عذاب
و عتاب میں مبتلا ایک پاکستانی عافیہ آزاد ہو کر اپنے وطن واپس پہنچ جاتی
۔جس قوم کے حکمران ڈر پوک ہوں ،لیڈرامریکی پناہ اور ڈالروں پر جینے کے عادی
ہوں اور علماء امریکی سفارتکاروں کی ملاقات اور شاباشی کو’’ معراج
حیات‘‘سمجھتے ہوں وہ ملک کس طرح اپنی آزادی برقرار رکھ سکتا ہے ۔ویسے بھی
عافیہ کا معاملہ خالصتاََ ایک انسانی مسئلہ ہے جس کو مذہبی رنگ دینے کے
بجائے اگر خالص انسانی دائرے میں رکھ کر امریکیوں سے صاف صاف مطالبہ کیا
جاتا تو معاملہ آج تک حل ہو چکا ہوتا ۔پاکستانی سرزمین پر آکرسابق امریکی
ایڈوکیٹ جرنل یہاں تک کہدے کہ اگر عافیہ کے مسئلے کو پاکستان کے حکمران
سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کریں تو وہ صرف چوبیس گھنٹے میں رہا ہو سکتی ہے
تو آخر کون سے رکاوٹ ہے جو عافیہ کے معاملے میں آگے بڑھنے کی اجازت نہیں
دیتی ہے سوائے اس کے کہ اگر عافیہ رہا ہو گئی توچندسیاہ کار
جرنیلوں،بیروکریٹوں اور سیاست دانوں کے چہروں پر پڑا شرافت کا شیطانی نقاب
الٹ سکتا ہے لہذا بہتر یہ ہے کہ عافیہ کو موت کے منہ میں ہی چھوڑدو وہ مر
جائے گی تو خلاصی ۔۔۔۔مگر یہ سیاہ کار یہ بھول جاتے ہیں کہ عافیہ کو پیدا
کرنے والا خدا کمزور نہیں ہے نہ ہی امت کی دعائیں انشااﷲ ضائع ہوں گی ۔ |