یہ تو قاتلان حسین ؓ کے بھائی ہیں

عالمی مفاد پرست جماعتوں کے نزدیک پشاور اسکول میں معصوم جانوں کا ضیاع تاریخ کا سیاہ ترین سانحہ ہے ،سیکولرزم کی علمبردار فراعینِ وقت کی آغوش میں پلنے والی (ملالہ یوسف زئی )جس کا کردار خود پاکستان کی تاریخ کا ایک عظیم سانحہ ہے ایک بار پھر اپنے طاغوتی آقاؤں ا و رگستاخان رسول ﷺ کو خوش کرنے کا موقع پاتے ہوئے بول اٹھی کہ پشاور سانحہ نے دل توڑدیا ،رکن ِپنجاب اسمبلی ’’کنول سانحہ پشاور پر آ بدیدہ ہوگئی ، ،وزیر اعظم صاحب اس قدر دردمند ہوئے کہ ریسکیو کی نگرانی کرنے خود پشاور پہنچ گئے ،جرنل صاحب جو شب و روزاسی طرح کے سانحات سے کھیلتے رہتے ہیں لیکن اس سانحہ نے اتنا بے چین کردیا کہ پورے ملک میں اطمنان سے مایوس ہو کر افغانستان پہنچ گئے ۔سانحہ پشاور کے خلاف یوم سوگ پر مختلف مکاتب فکر کے علما ء کا احتجاج ۔۔۔۔۔۔۔عالم اسلام کی مظلوم امت کو شب وروز خون کی ندیوں میں بہانے والے بھی اس سانحہ کے بعد پریشان نظر آنے لگے اور مجبور ا ان سے بھی اپنے دردمند بھائیوں کا دکھ نہ دیکھا گیا اور وبطور رسم کچھ کلمات کہہ گئے کہ کہی مستقبل میں اس طرح کے واقعات کا سلسلہ رک نہ جائے ۔۔۔سوال یہ ہے کہ کیا اس سے ان کے درد کا مداوا ہو گا؟کیا اس طرح کے بناوٹی الفاظ سے امن کی فضا قائم ہوجائیگی ؟کیا کابل کا چند لمحوں کا سفر اس بحر سیل رواں کو کنارہ میسر کردے گا ؟کیا شاہراہوں تک اپنی ذمہ داری محدود کرلینے سے یہ معرکہ ختم ہو جائیگا ؟اگر اسطرح زخم بھرے جاتے تو ۸۳ طلباء کی شہادت سے باجوڑ مدرسہ اور جامعہ حفصہ و لال مسجد کی دیواروں کو ایک ہزار سے زائد طلبا و طالبات کے خون سے رنگین نہ کیا جاتا ،جامعہ حفصہ و لال مسجد کے بعد راولپنڈی کے معصوم طلباء کو کلیوں کی مانند نہ روندا جاتا،راولپنڈی سانحہ کے بعد قبائل کی بے گناہ عوام کو ڈرون و جیٹ طیاروں کا نشانہ نہ بنایاجاتا ۔۔۔(جو تا حال جاری ہے )۔۔۔جب اس ظلم کا سد باب نہیں ہورہا تو دنیا کا کوئی قانون اس مظلومیت کے واسطے
انصاف دلانے سے مانع نہیں ہوسکتا سوائے اسلام دشمنی کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ اﷲ کی سنت یہی ہے کہ ظالم کو دنیا و آخرت میں سزا سے دو چار کرتا ہے چنانچہ فرمایا !
﴿ ان تکونوا تا لمون فانھم یالمون کما تالمون ،وترجون من اﷲ مالا یرجون ﴾
ترجمۃ:
اگر تمہیں تکلیف پہنچی ہے تو ان کو بھی اسی طرح تکلیف پہنچی ہے جیسے تمہیں پہنچی ہے اور
تم اﷲ سے اس بات کے امیدوار ہو جس کے وہ نہیں ۔
(سورہ نساء)

یہ آیت اگر چہ غزوہ احد کے موقع پر ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کے تعاقب کے بارے میں نازل ہوئی تھی لیکن تفسیر ی اصول کی روشنی میں کہ (( العبرۃ للعموم لا للخصوص ))) یعنی قرآنی احکامات میں عموم کا اعتبار ہوتا ہے کہ ہر دور میں حکم کی تطبیق ممکن ہوتی ہے نہ کہ خصوص کا (کہ جس خاص موقع پر آیت نازل ہوئی تھی حکم بھی اسی خاص وقت و واقعہ کے لئے ہوگا )اس لئے تفسیر کی معتبر کتابو ں میں
۲۔
اس آیت کی عمومیت کے ساتھ تفسیر کی گئی ہے علامہ ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں!
( کمایصیبکم الجراح والقتل کذالک یحصل لھم )
یعنی جس طرح قبائل کے مسلمان و مجاہدین کو اپنے جوانوں ،بوڑھوں اوربچوں کی لاشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسی طرح ان مرتدین کو بھی کرنا پڑیگا ۔
امام خازن ؒ فرماتے ہیں !
یعنی ان حصول الالم قدر مشترک بینکم و بینھم ولیس ما تکابدون من الوجع والم الجراح مختصا لکم بل ھم کذالک فاذا لم یکن الالم مانعا لھم عن قتالکم فکیف یکون مانعا لکم عن قتالھم
یعنی جنگ میں دکھ درد مجاہدین و کفار و مرتدین کے درمیان قدر مشترک ہے یہ درد صرف مجاہدین کے ساتھ خاص نہیں بلکہ جس طرح کفار و مرتدین کے لئے مسلمان و مجاہدین کے قتل میں کسی permission کی ضرورت نہیں اسی طرح مجاہدین کے لئے بھی شارع کے علاوہ کسی سے ان مرتدین کے قتا ل کے بارے میں رائے لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔

پاکستان کی مرتد حکومت کے خلاف ہر کارروائی پر یہ نعرہ بڑے زور و شورسے زباں زد رہا ہے کیا مدرسہ کا مدرس و اسکول و کالج کا ٹیچر،کیا یونیورسٹی کا پروفیسر غرض ہر شعبہ سے منسلک فرد اس دعوی میں شریک رہا ہے کہ طالبان معصوم بچوں اور عورتوں کے دشمن ہیں ۔لیکن اگران سے پوچھا جائے کہ تاریخ کی کونسی جنگ ایسی گزری ہے جس میں پاکستانی حکومت کی طرح عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنایا گیا ہو تو یقینایہ روش کسی قوم کی تاریخ میں نہیں ملے گی۔

ہر جنگجو قوم کے نزدیک یہ مسلم اصول ہے کہ دشمن جس طریقہ سے غلبہ پارہا ہو اس طریقہ کو ختم کیا جائے آ ج حکومت ِ پاکستان وسائل کی جنگ ہار کر مغربی افکار کو اسکول و کالج اوریونیورسٹی میں پھیلا کر طالبان کو شکست دینے کی بھر پور کوشش کررہی ہے جس کے نتیجہ میں طالبان کاmainہدف انہی افکار کو مٹانا ہے ۔

انہی مغربی افکار کی اشاعت کی خاطر حکومت ِ پاکستان تعلیمی اداروں میں بچوں اور خواتین کو اپنی اس جنگ میں شریک کرکے طالبان کی منظم کارروائیوں کا حصہ بنارہے ہیں تو گویا حکومت خود ان بچوں اور خواتین کے قتل کا ذمہ دارٹھہری ۔مغرب کی غلامی نے اس قدر عورت کو مظلوم قرار دیا کہ عورت اسلامی تہذیب کے دائرہ سے نکل کر دین کے ہر رکن کو پس پشت ڈال دے تو کسی سزا کی مستحق نہیں لیکن باطل سے روگردانی کرلیں تو دقیانوسی ،رجعت پسندی اور قیدوبند کی مستحق ۔۔۔۔کیوبا کے ـزنداں میں قید ڈاکٹر عافیہ ،عراق کے ابو غریب جیل کی فاطمہ ،اسرائیل کے عقوبت خانوں میں بند فلسطین کی پاکدامن عورتیں اسی مصلحت آمیزقانون کی نذر ہو گئیں ۔

شریعت نے جرم کی دنیا میں عورت کو مستثنی نہیں کیا ۔حضرت عمیر بن عدی ؓ ایک نابینا صحابی کے ہاتھوں آپﷺ کی شان ِاقدس میں
۳۔
گستاخی کرنے والی عاصمہ کا قتل،بنی قریظہ کے موقع پربنانہ نامی ایک کافر عورت کا آپ ﷺ کی موجودگی میں قتل کیا جانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اگر عورت بھی اس حد تک جرم کر ے جس کی سزا قتل ہو تو اسے بھی معاف نہیں کیا جائیگا۔آرمی پبلک اسکول میں اسلام اور اہلِ اسلام کے خلاف مرتدین کی صف میں کھڑی ہوکر قتل ِعام کا درس دینے کی پاداش میں ان female teachers کا قتل ایک سانحہ نہیں بلکہ شرعی سزا تھی ۔۔۔۔

اب اربابِ عقل و دانش اور غزوہ بدر میں آپﷺ کے عفو و درگذر کی مـثالیں دینے والے ایک مرتبہ حقیقت کی نگاہ سے دیکھ کر خود فیصلہ کرلیں کہ یہ ذاتی انتقام تھا یا حکمِ خداوندی ؟؟

چاروں مذاہب ِ فقہ کی کسی کتاب میں مختلف جرائم کی سزا ایک نوع کی نہیں بلکہ اصول ِ فقہ کی روشنی میں ہر جرم کی سزا الگ مقرر کی گئی ہے لیکن آج سیکولر علماء ہر جر م کو احتجاج و دھرنوں میں چھپائے بیٹھے ہیں اگر کوئی سید الانبیا ء ﷺ کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو اس کے خلاف صرف احتجاج کا اظہار ہی اس کی سزا ہے ،اگر کوئی مساجد و مدارس کو مسمار کرتا ہے تو اس کے خلاف بھی یہی احتجاج ،اگر ملک کی مسلمان عورتو ں کو جہاد کے سبب باطل کے حوالہ کیا جائے تو اس کا دفاع بھی اسی احتجاج کے ذریعہ کیا جاتا ہے ،اس طرح اگر کوئی علماء و مسلمانوں کا قتل عام کرے تو اس کی سزا بھی یہی احتجاج ۔۔۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس قدر احتجاج و دھرنوں سے اب تک ان جرائم کا سد باب ہو چکا ہوتا لیکن ان کا خاتمہ تو کیا بلکہ دن بدن سلسلہ ارتقاء بڑھتا جا رہا ہے اس لئے کہ یہ سزا شرع اصولوں کے تناظر میں نہیں بلکہ جمہوریت او رسیکولرزم کے اصول و قواعد پر مبنی ہے ۔

یہ دستور رہا ہے کہ ہر ملک کی قوم اپنا ایک لیڈر چن کر اسے اپنی زندگی کا مشعل راہ بنا کر جیتی ہے اہمارے ملک میں بھی یہی دستور روز اول سے چلا آرہا ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں (پاکستان )میں لیڈر شپ کچھ زیادہ پائی جاتی ہے کہ ایک ہی قوم مختلف جماعتوں میں بٹ کر مختلف راہنماوں کے ہاتھوں کھیل رہی ہے اور ہر لیڈر کوئی امن کے اور کوئی معیشت کے خواب دکھا کر مغرب کا دلدادہ ،اورجمہوری نظام کو سجدہ کرتا ہوا نظر آتا ہے اس لئے ہر لیڈر نے جمہوریت کو بچاتے ہوئے اپنے انداز میں اس سانحہ سے اظہار ہمدردی کرکے مغرب کو خوش تو کر لیا لیکن اس کا حل تلاش نہیں کیا جو کہ حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ اس تلاش میں ان کے مفادات کو ٹھیس پہنچتا ہے سو ان کی ہمدردی میں ان کا مفاد ضرور ہے لیکن احساس نہیں کہ اگر مدارس کے علما ء اس سانحہ کی مذمت کرتے ہیں تو محض حکومت کے خوف سے کہ کہی حق کی پداش میں مدرسہ کو تالا نہ لگ جائے اور امداد و فنڈز کی بندش کی صورت میں ان کی معیشت متاثر نہ ہوجائے ،سیاسی پارٹیاں اگر مذمت کرتی ہیں تو اس ڈر سے کہ کہی اسمبلیوں سے رکنیت نہ ختم ہو جائے ورنہ یہی سانحہ بلکہ اس سے کئی گناہ زیادہ خطرناک واقعہ اسلام آباد کی لال مسجد و راولپنڈی کے تعلیم القرآن میں پیس آیا کہ ان کے لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار تو کیا انہیں تو غم کے آنسوبھی پونچھے نہ دئے تھے مذہبی سیکولر جماعتوں نے اسے غیروں کی جنگ ،اور مدارس کے علماء نے رسمی ظلم قرار دیکر خود کو کاروبار زندگی میں مصرو ف کر کے قوم کو لوری دیکر سلا دیا ۔۔۔۔
۴۔
شاید یہ لیڈران اور سیکولر علما ء یہ سمجھ بیٹھے کہ دو چار دن کی رسم ورواج سے مداوا ہوجائیگا اور ان کی ذمہ داری پوری ہو جائیگی تو یہ ان کی غلط فہمی ہے آج دولت و اقتدار اور شہرت کے نشہ میں چور ان لوگوں کو غلط و صحیح کا ادراک تک نہیں ہورہا کہ انکا یہ غم کربلا کے اس کے غم مترادف ہے جو حضرت حسین کی شہادت کے بعدان کے قاتلین کو پہنچا تھا ۔

اس ملک کا امن صرف اور صرف اسلامی نظام پر موقوف ہے او ر اسلامی نظام انسان کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اﷲ کی غلامی،دجل و فریب سے نکال کر حق کی طرف ،بے حیائی و فحش معاشرہ سے نکال کر غیرت کی زندگی پر چلنے ،ہندسوں اور الفاظ کی رٹ سے نکال کر قرآنی تعلیمات کو سیکھنے ،سود ی کاروبار سے نکل کر حلال معیشت کی طرف آنے ،اور باطل کے ہر رسم و رواج کو ترک کرکے نبوی ﷺطریقوں کو اپنانے کا نام ہے ۔۔

یہ پاکیزہ نظام کفر کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر نافد کرنا ہوگا یوں غفلت کی حالت میں یہ نظام حا صل نہیں ہو سکتا کیونکہ اﷲ فرماتا ہے !
﴿ودالذین کفروا لو تغفلون عن اسلحتکم وامتعتکم فیمیلون علیکم میلۃ واحدۃ ﴾

ترجمۃ:
کافر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان سے غافل ہو جاوتو وہ ایک دم تم پر ٹوٹ پڑیں ۔
اسی آیت کے تناظر میں محسنین ِ امت مجاہدین ِ اسلام کی یہ مبارک کارروائیاں جاری رہیے گی او ر یوں کفر کے ایوانوں میں قیام ِ نفاذ ِ شریعت تک یہ زلزلے بر پا ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ مرتدین کا قلعہ قمع ہو جائے اور کفار ذلت و رسوائی کی چادر اوڑھ کر جزیہ دے کر زندگی گزار نے پرمجبور ہو جائیں۔
( عبدالمحسن خراسانی)
Abdul Mohsin
About the Author: Abdul Mohsin Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.