نکاح پہلے ۔۔۔رخصتی بعد میں کسی مناسب موقع پر
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
پہلے زمانے میں اکثر بچپن میں
نکاح ہوجایا کرتے تھے ۔اب بھی کہیں کہیں یہ رواج باقی ہے لیکن اب زمانہ
بدلتا جا رہا ہے چاہے رشتہ بچپن ہی سے لگا ہو نکاح اسی وقت ہو گا جب دولہا
بارات لے کر آئے گا ۔اور اب ایسا ہی ہوتا ہے ،لیکن اب اس روایت میں بھی
تبدیلی ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے کہ رشتہ لگا دونوں خاندانوں سے سوچا کہ رشتہ
اچھا ہے اس لیے اس کو مضبوط بنانے کے لیے پہلے نکاح ہو جائے پھر سال دو سال
بعد شادی ہو جائے گی ،یا یہ کہ لڑکا باہر ہے چھٹیوں پر آیا ہوا ہے ابھی
نکاح ہوجائے پھر جب لڑکی کا پاسپورٹ اور ویزے کا انتظام ہو جائے گا تو رخصت
ہو جائے گی ۔خیر یہ مخصوص حالات کے مطابق چیزیں ہوتی ہیں لیکن عمومی طور پر
جو چیزیں دیکھنے میں آرہی ہیں کہ بارات سے کچھ دن پہلے کسی مسجد میں نکاح
کا پروگرام رکھ لیا جاتا ہے ۔اس کے تین فائدے ہوتے ہیں ایک تو کہ مسجد کا
تقدس اس سنت کی ادائیگی میں شامل ہو جاتا ہے ،دوسرے یہ کہ شادی والے دن اگر
دیر سویر بھی ہو جائے تو وقت بچ جاتا ہے اور ویسے بھی آج کل حالات کے حوالے
سے وقت کی پابندی کرائی جارہی ہے اور تیسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مسجد میں
نکاح کے لیے آپ دل کھول کر تمام دوست احباب اور رشتہ داروں کو بلا سکتے ہیں
اس سے شادی یا ولیمہ کی تقریب میں مدعوئین شارٹ لسٹ ہو جاتے ہیں ۔یہ تمہید
کیوں باندھی گئی مضمون کے آخر میں اس کی وجہ سمجھ میں آجائے گی ،اسی لیے آج
کچھ بکھری بکھری مختلف عنوانات پر باتیں ہوں گی ۔آیے اب دوسرے موضوع پر بات
کرتے ہیں ۔
یہ 1997-98کا دور ہے ہر محکمہ میں فوج کی تعیناتی ہورہی ہے بجلی کے کنڈے
ہٹانے کے لیے فوج آرہی ہے سوئی گیس میں فوج کی بات ہو رہی ہے ہر سول اداروں
میں جہاں معمول کے مطابق کام انجام دیے جاتے ہیں وہاں بھی فوج کو لایا جا
رہا ہے کس کے کہنے پر یہ سب کچھ ہورہاتھا ظاہر ہے کہ وزیر اعظم اس وقت بھی
نواز شریف صاحب ہی تھے اسی لیے مجھے اچھی طرح یاد ہے کسی نے اس زمانے میں
یہ بیان دیا تھا کہ اسلام آباد میں ایوان وزیر اعظم بھی فوج کے حوالے کردیا
جائے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ نواز شریف صاحب کے دوسرے دور میں اس وقت کے چیف آف
اسٹاف جنرل جہانگیر کرامت نے ایک بیان دیا کہ قومی سلامتی کونسل بنائی جائے
اور اس میں فوج کو بھی شامل کیا جائے سیاست دانوں نے اس بیان کے خلاف سخت
ردعمل کا اظہار کیا ۔نواز شریف صاحب نے اس جرم کی سزا کے طور پر ان سے
ملاقات کر کے استعفے کا مطالبہ کیا اور پھر جنرل جہانگیرکرامت مستعفی ہو
گئے ۔فوج کے اندر اس کا ایک خاموش رد عمل تشکیل پایا ۔
چوتھی بات یہ کہ یہ شاید 1999کی بات ہے کہ واجپائی صاحب کا پاکستان کا دورہ
تھا اس میں کشمیر کے حوالے سے کشمیری اور پاکستانی عوام کے جذبات کے خلاف
کوئی معاہدہ کرنے کی باتیں کی جارہی تھیں ۔جماعت اسلامی نے اس دورے کی
مخالفت کرتے ہوئے واجپائی کی آمد کے دن مظاہرے کے اعلان کیا ۔جب اس دن
مظاہرہ ہوا تو لاہور کی پولیس نے اپنے روائتی ظالمانہ طریقوں کو استعمال
کرتے ہوئے تشدد کا بازار گرم کیا ،اس وقت چینلز کا دور نہیں تھا ایک
پرائیویٹ فوٹو گرافر جو کسی بہانے سے پولیس کی اجازت سے اندر چلا گیا اس نے
بتایا کہ میں پنجاب انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے ہوں اس نے موقع پر تشدد کی
فلمیں بنائیں کہ کس طرح پولیس کے لوگوں نے باریش اور عمر رسیدہ لوگوں کو
لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے مارا اور انھیں گرفتار کیا ۔سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار
کر کے پنجاب کے مختلف شہروں کی جیلوں بھیج دیا جس بس میں انھیں لے جایا گیا
گھنٹوں سفر میں رہنے کی وجہ سے بیشتر بوڑھے اور بیمار لوگوں کو سخت تکلیف
کا سامنا کرنا پڑا ۔جماعت نے پورے ملک میں اس کی وڈیو چلائی جو جماعت کے
کارکنان نے گلی گلی اور محلے محلے اس ظلم و بر بر یت پر مبنی فلم کو چلایا
اس مظاہرے سے یہ تو ہوا کہ جو معاہدہ وزیر اعظم صاحب چاہتے تھے نہیں ہو
سکا۔
یہ مختلف چیزیں کیوں پیش کی گئیں آیے اس کا جائزہ لیتے ہیں سب سے پہلے آخری
بات سے آغاز کرتے ہیں کہ جو آئینی ترمیم منظور ہوئی ہے اس میں صراحت سے کہا
گیا ہے کہ صرف مذہبی اور فرقہ ورانہ دہشت گردی کے کیس فوجی عدالتوں میں
بھیجے جائیں گے اور جو دہشت گرد لسانی اور علاقائی بنیادوں پر دہشت گردی
کریں گے ان کے مقدمات سول عدالتوں میں چلیں جہا ں ہر جج ہر وقت دہشتگروں کے
خوف میں مبتلا رہتا ہے تو وہ کیسے قاتلوں کو سزا دے سکے گا ۔اس کا مطلب یہ
ہوا کہ اب دینی جماعتوں کے کارکنان پر آزمائش کا دور آنے والا ہے کہ اگر
دینی جماعتوں کے کسی کارکن کی ٹارگٹ کلنگ ہوگی تو اس کے قاتلوں کو فوجی
عدالت سے استثنا حاصل ہو گا اور اگر کسی مذہبی کارکن پر کوئی جھوٹا کیس بھی
قتل کا بنا دیا گیا (جو کہ کراچی میں تو بہت آسان کام ہے کہ یہاں کی پولیس
ایک لسانی تنظیم کے دباؤ میں رہتی ہے اور وہ ہر جھوٹے سچے معاملے میں اسی
تنظیم کی اطاعت کرتی ہے )تو اس کا کیس فوجی عدالت میں بھیج دیا جائے گا
جہاں اس کی کوئی سنوائی نہیں ہو گی ۔یہ کھیل بین الاقوامی سازش کا حصہ
معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح عرب ممالک سمیت دیگر ممالک میں مسلمانوں کی
زندگیوں کو تنگ کیا جارہا ہے اب پاکستان کی دینی جماعتوں کے گرد گھیرا تنگ
کیا جائے گا ۔فرانس میں جو واقعہ ہوا ہے یہ بھی ایک بہت گہری سازش ہے جس کے
ذریعے جو مسلمان یورپ میں امن و خوشحالی سے رہ رہے ہیں اب ان کے لیے بھی
آزمائش کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے ۔
تیسری بات یہ کہ جنرل جہانگیر کرامت کے ایک بیان پر تو استعفا لے لیا گیا
تھا اب فوج کی خواہش پر وزیر اعظم صاحب آئینی مارشل لاء کی راستوں کی
رکاوٹوں کو صاف کررہے ہیں ،جو کبھی ناخوب تھا اب وہی خوب ہو گیا ۔
دوسرے نکتے کے حوالے سے صرف آج 8جنوری کے اخبارات میں شائع ہونے والی دو
خبریں کافی ہیں کہ پہلی خبر یہ کہ "وزیر اعظم کی صدارت میں ایک اجلاس میں
فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے وفاقی سکریٹری داخلہ
اور نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کے نیشنل کوارڈینیٹرکے لیے فوجی افسران
کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ،میجر رینک کے افسران کو آسمی چیف کی
سفارش پر مقرر کیا جائے گا ۔"دوسری خبر میں بتایا گیا ہے کہ ائیر پورٹ اور
بندرگاہوں پر بھی فوج تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔یہ بالکل وہی
صورتحال ہے کہ جیسا کہ 1997-98میں ہورہاتھا ۔
اور اب آیے پہلی بات کی طرف ہم سمجھتے ہیں کہ فوجی عدالتوں کی آئینی ترمیم
منظور کر کے ہم نے ایک طرح سے مارشل لاء سے جمہوریت کا نکاح کردیا ہے ۔
ابھی رخصتی باقی ہے۔ اب دونوں کے سرپرست جب چاہیں گے آپس میں مشاورت کر کے
جمہوریت کی رخصتی کر دیں گے ۔اب ان کے سرپرست کون ہیں میرے نزدیک جمہوریت
کے سرپرست برطانیہ ہے اور مارشل لاء کا سرپرست امریکا ہے۔ |
|