"آپ جو بھی ہیں پلیز میرے اس
نمبر پر بیس روپے کا بیلنس لوڈ کروا دیں۔ میں اس وقت ہاسپیٹل میں ہوں۔ میری
امی سخت بیمار ہے۔ میں اُنہیں اکیلا چھوڑ کر کہیں جا نہیں سکتی۔ یہاں سے
فارغ ہوتے ہی میں آپ کے نمبر پر واپس شکریے کے ساتھ بیلنس لوڈ کروا دوں
گی۔یہ آپ کا ایک مجبور لڑکی پر احسان ہو گا۔ آپ کی احسان مند۔۔۔ رابعہ"
یہ وہ ایس ایم ایس تھا جس نے امجد کو تڑپا کر رکھ دیا تھا۔ کیونکہ وہ ایک
انتہائی نرم دل انسان ہے۔اتنا نرم دل کہ کسی ڈرامے کا معمولی سا جذباتی سین
دیکھ کر بھی آبدیدہ ہو جاتا ہے۔ وہ شادیاں بھی اسی لیے اٹینڈ نہیں کرتا
کیونکہ رختی کے وقت دلہن کا رونا اُس سے نہیں دیکھا جاتا۔ وہ اپنی شادی پر
بھی اُس وقت زارو قطار رویا تھا جب اُس کی دلہن اپنے ماں باپ کے گلے لگ کر
رو رہی تھی۔ لڑکی کے گھر والے لڑکی سے زیادہ اُسے حوصلہ دے رہے تھے۔رحمدل
اتنا ہے کہ جب کسی پر غصہ آ جائے تو اُلٹا اُسی سے معافی مانگ لیتا ہے۔اُس
کی فراغ دلی بھی قابل دید ہے ۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی بھکاری اُس کے
آگے ہاتھ پھیلائے اور وہ اُس کے ہاتھ کو خالی موڑ دے۔ اگر اُس کی جیب سے
کوئی سکہ نہ نکلے تو وہ اُس بھکا ری کے ساتھ بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملالیتا
ہے ۔ نہ صرف ہاتھ ملاتا ہے بلکہ گلے لگنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ وہ تو
بھکاری ہی بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے وہاں سے کھسک جاتا ہے۔ کیونکہ اُسے
بھیک کی ضرورت ہوتی ہے پیار کی نہیں۔
امجد نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اُس نمبر پر پورے 100 روپے کا بیلنس لوڈ
کروا دیا۔ تاکہ ہسپتال میں موصوفہ کو کسی قسم کی تکلیف اور پریشانی کا
سامنا نہ کرنا پڑے۔ بیلنس لوڈ کروانے کے چند منٹوں کے بعد امجد کو دوبارہ
شکریے کا میسج موصول ہوا۔ جس میں لکھا تھا " مجھے یقین نہیں آ رہا کہ اس
دنیا میں آج بھی آپ جیسے لوگ موجود ہیں۔ میں نے تو صرف بیس روپے مانگے تھے
اور آپ نے پورے سو روپے بھجوا دیے۔میں آپ کا یہ احسان زندگی بھر نہیں
بھولوں گی۔ لیکن یہ میرے اوپر ایک قرض ہے۔ جسے میں ہاسپیٹل سے فارغ ہوتے ہی
چکا دوں گی۔آپ کا بہت بہت شکریہ"۔ اس میسج نے امجد کے دل پر ایک ہلکی سی
چوٹ لگا دی تھی۔ جسے وہ دیر تک محسوس کرتا رہا تھا۔اور میسج کا رپلائی کرتے
ہوئے اُس نے لکھا تھا " آپ مجھے کیوں شرمندہ کر رہی ہیں۔ میں نے آپ کے اوپر
کوئی احسان نہیں کیا ۔ اگر میری وجہ سے آپ کا کوئی مسئلہ حل ہو جائے تو
میرے لیے یہ بڑی خوشی کی بات ہو گی۔ویسے آپ کی امی کی حالت اب کیسی ہے؟
کوئی پریشانی والی بات تو نہیں؟" امجد کو اپنے اس میسج کا جواب فوراً ہی مل
گیا تھا۔ "نہیں کوئی پریشانی والی بات تو نہیں ہے۔ پریشانی صرف اس بات کی
ہے کہ میں اکیلی ہوں ۔ آپ جانتے ہیں کہ اکیلی لڑکی کے لیے ایسے حالات کتنے
مشکل ہوتے ہیں۔جب اُسے کوئی حوصلہ دینے والا بھی نہ ہو"۔امجد یہ میسج پڑھ
کر غم میں ڈوب گیا تھا ۔ اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ فوراً اُس مجبور لڑکی
کے پاس پہنچ جائے اور اُس کی مدد کرے ۔ اُسے حوصلہ دے کہ وہ اکیلی نہیں ہے۔
کوئی ہے اُس کے ساتھ۔ ہر مصیبت میں اُس کا ساتھ دینے والا۔ یہ سوچتے ہی اُس
نے فوراً نیا میسج کر دیا۔ " آپ خود کو اکیلا مت سمجھیں۔ میرا آپ سے کوئی
رشتہ تو نہیں ہے ۔پھر بھی آپ کو کسی معاملے میں میری ضرورت محسوس ہو تو
مجھے ضرور موقع دیجیے گا۔ مجھے آپ کی مدد کرنے میں خوشی محسوس ہو گی۔۔۔۔ آپ
کا مخلص"۔ امجد یہ ایس ایم ایس کرنے کے بعد اُس کے جواب کا انتظار کرے لگا۔
لیکن اُس پورے دن میں اُسے دوسری طرف سے کوئی میسج نہیں آیاتھا۔ دوسرے دن
ایس ایم میں مزید بیلنس لوڈ کروانے کا تقاضا کیا گیا تھا جسے امجد نے بلا
حیل و حجت مان لیا اور پورے 200 روپے کا بیلنس لوڈ کروا دیا تھا۔امجد کے
لیے یہ بڑی خوشی کی بات تھی کہ وہ کسی مجبور کی مدد کر رہا ہے۔ وہ دن میں
تقریباً تین یا چار مرتبہ ایس ایم ایس کرکے حالات سے آگاہی حاصل کرتا رہتا
۔ اور یوں باتوں باتوں میں اُس نے رابعہ سے دوستی کی بات بھی کر دی تھی۔
رابعہ بھی شاید اسی انتظار میں تھی کہ کوئی اُسے کہے تو سہی ۔ دونوں میں
دوستی ہو چکی تھی اور ایس ایم ایس کا بے تکلفی سے تبادلہ ہونے لگ گیا
تھا۔لیکن فون کرنے سے رابعہ نے امجد کو سختی سے منع کر دیا تھا۔اُس کا کہنا
تھا کہ وہ صرف ایس ایم ایس پر ہی بات کر سکتی ہے فون پر بات کرنا اُس کے
لیے ممکن نہیں۔ رابعہ سے بات کرنے کے لیے امجد کی بے تابی بڑھتی ہی جا رہی
تھی۔لیکن وہ مجبور تھا کیونکہ وہ اپنی دوست سے وعدہ کر چکا تھا کہ اُسے
کبھی کال نہیں کرے گا جب تک وہ نہ چاہے۔
امجد کو رابعہ سے محبت ہو چکی تھی ۔ اپنی محبت کا اظہار کرنے کے لیے وہ ہر
دوسرے یا تیسرے دن رابعہ کے نمبر پر بیلنس لوڈ کرواتا رہتا
تھا۔کیونکہ"محبتوں میں حساب کیسا ۔۔۔؟ "پر اُس کا پورا یقین تھا۔ محبت نا
مراد چیز ہی ایسی ہے کہ انسان کو بے بس اور مجبور کر دیتی ہے۔امجد بھی اس
محبت کے ہاتھوں مجبور ہو چکا تھا۔ اُسے نہ دن کو چین تھا اور نہ رات کو
سکون۔ اُس کے دل ودماغ پر رابعہ چھائی ہوئی تھی۔ جس کی آواز سننے کے لیے
اُس کے کان ترس رہے تھے۔ جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے اُس کی آنکھیں منتظر
تھیں۔ لیکن ۔۔۔!!! یہ ممکن نہیں تھا۔ کیونکہ جس لڑکی کے لیے فون پر بات
کرنا ممکن نہ ہو اُس کے لیے گھر سے باہر نکل کر کسی سے ملاقات کرنا کیسے
ممکن ہو سکتا ہے۔لیکن یہ محبت ۔۔۔!!! جس نے امجد کو دنیا بھلا دی تھی۔ جس
نے امجد کے نرم دل کو مزید نرم کر کے مو م کی طرح پگھلا دیا تھا۔اسی محبت
نے امجد کی زندگی میں ایک نیا رنگ بھر دیا تھا۔ اُسے خواب اچھے لگنے لگے
تھے۔وہ اُسSMS کا شکر گذار تھا جس نے اُسے کسی کے قریب کر دیا تھا۔محبت کے
ہاتھوں مجبور امجد نے بغیر سوچے سمجھے رابعہ کا نمبر ڈائل کر دیا کیونکہ وہ
آج ہر صورت اُسکی سریلی آواز سننا چاہ رہا تھا۔ تا کہ اُس کے بے قرار دل کو
سکون مل سکے۔ وہ جاجتا تھا کہ اگر اُس نے اُس نمبر سے فون کیا جو رابعہ کے
پاس پہلے سے موجود ہے تو وہ اٹینڈ نہیں کرے گی ۔ اس لیے اُس نے دوسرے نمبر
سے فون ملایا تھا۔ اُس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ اُسے ڈر تھا کہ کہیں
رابعہ کی آواز سنتے ہی اُس کا دل سینے سے باہر نہ آجائے۔ کچھ لمحوں کے بعد
دوسری طرف سے ایک مردانہ آواز اُبھری تھی جس نے امجد کو ہلا کر رکھ دیا
تھا۔اُسے لگا تھا کہ اُس کا دل واقع ہی سینے سے باہر آچکا ہے۔ |