کوئی بیس بائیس برس پرانی بات ہے،
کراچی سے میرپورخاص جانے والی مسافر کوچ ٹنڈوالہ یار کے قریب حادثے کا شکار
ہوگئی تھی جس کے نتیجے میں 35 افراد زندہ جل گئے تھے۔ میرے مدرسے کے استاذ
محترم اور پڑوسی حافظ محمد شریف صاحب کی بہن بھی اپنے بچوں کے ساتھ اس
حادثے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھی تھیں۔ اس لیے اس حادثے سے متعلق خبروں میں
ہماری دلچسپی یقینی تھی۔اس حوالے سے چھپنے والے بیانات کو خاص طورپر پڑھا
کرتے تھے، اس المناک واقعہ نے کہرام برپا کردیا تھا، حکومت اٹھ بیٹھی تھی،
کمیٹیاں قائم کردی گئیں جن کے ذمے یہ کام لگایا گیا کہ وہ ایسی ٹھوس تجاویز
دیں جن پر عملدرآمد سے آیندہ اس طرح کے واقعات سے بچاجاسکے۔ عوام کو یقین
دلایا جارہا تھا کہ حکومت پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو ٹھیک کرکے ہی دم دلے
گی اور یہ کام ہفتوں میں ہوجائے گا۔ جوں ہی معاملے کو کچھ دن گزرے، حکومت
پھر لمبی تان کر خراٹے مارنے لگی، کمیٹیوں نے بھی ایک دو اجلاسوں کے بعد چپ
سادھ لی۔
حکومت ایک بار پھر اس نوعیت کے المناک حادثے کے بعد بیدار ہوئی ہے۔ کراچی
میں 65 کے لگ بھگ لوگ ٹریفک حادثے میں زندہ جل گئے، وزراء اور انتظامی
افسران اسی نوعیت کی بیان بازی کررہے ہیں جس طرح بیس برس قبل کی جارہی تھی،
اب کی بار بھی کمیٹیاں بنائی گئیں ہیں جن کا انجام سابقہ کمیٹیوں جیسا ہی
ہوگا۔ جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے حکومت اس حادثے پر مٹی ڈالتی جارہی ہے،
ایک وقت آئے گا جب اس حادثے کو بھی منوں مٹی تلے دفن کردیا جائے گا۔
ہمارے حکمران کوئی عجیب ہی طرح کی مخلوق ہیں، حادثات کے بعد یہ ہڑبڑاکر اٹھ
بیٹھتے ہیں، بیان بازی اور کمیٹیاں کمیٹیاں کھیل کر پھر سوجاتے ہیں۔ ہر
حادثے کے بعد عوام کو یقین دلایا جاتا ہے کہ واقعہ کی حقیقی وجوہ تلاش کرکے
حادثات کی روک تھام کو یقینی بنایا جائے گا، مگر اگلے حادثے سے پتا چلتا ہے
کہ عوام کو صرف سہانے خواب ہی دکھائے گئے تھے۔ یہ کوئی دو، چار برس کا قصہ
نہیں ہے،گزشتہ 67 برسوں سے یہ تماشا پوری ڈھٹائی سے جاری ہے جس میں ہر دور
کے حکمرانوں نے حسبِ توفیق حصہ ڈالاہے۔
اس حوالے سے سانحہ پشاور ایک بڑی مثال ہے۔ اس واقعے کے بعد تعلیمی اداروں
میں سیکورٹی انتظامات کے نام پر کیا کچھ نہیں ہوا، بچوں کی موسم سرما کی
چھٹیوں میں کئی روز کا اضافہ کیا گیا تاکہ سیکورٹی انتظامات مکمل ہونے پر
ہی اسکول کھولے جاسکیں۔ سرکاری اسکولوں کی سیکورٹی کے لیے کروڑوں روپے خرچ
کیے گئے، وزراء اور افسران جس طرح بھاگم بھاگ ہورہے تھے، اس سے لگتا تھا
حکومت اس بار معاملے کو بہت سنجیدہ لے رہی ہے مگر جب تعلیمی ادارے کھلے تو
پتا چلا عوام سے اس بار بھی ’’اچھا‘‘ مذاق کیا گیا ہے۔ میڈیا نے ایک دو
نہیں 90 فیصد تعلیمی اداروں کے بارے میں بتایا کہ وہاں کچھ بھی نہیں کیا
گیا۔ ہمارے محلے اور اس کے اطراف میں 3 سرکاری ہائی اسکول اور 10نجی اسکول
ہیں۔ یہ کالم لکھنے سے پہلے ان اسکولوں کو دیکھا تو معلوم ہوا، جو صورت حال
سانحہ پشاور سے پہلے تھی، اب بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ صرف ایک
اسکول کے باہر سیکورٹی کے انتہائی عمدہ انتظامات نظر آئے، اس اسکول کے مالک
نے ایک بالشت کے کتبے کو اسکول کے باہر لٹکایا ہوا تھا جس پر تحریر تھا
’’گاڑیاں اسکول سے دور کھڑی کریں۔‘‘
ہمارا مسئلہ یہی ہے کہ ہر حادثے کے بعد پالیسی کے نام پر شورشرابہ ہوتا ہے،
لاکھوں کروڑوں روپے پھونک دیے جاتے ہیں مگر نتیجہ صفر نکلتا ہے۔ ٹریفک
حادثات کو دیکھ لیں، اس طرح کے حادثات دنیابھر میں ہوتے ہیں، انہیں مکمل
طور پر تو نہیں روکا جاسکتا،لیکن احتیاطی انتظامات کے ذریعے ان حادثات میں
کمی اور جانی نقصان کو کم سے کم سطح پر لایا جاسکتا ہے۔ یورپ سے خبر آتی ہے
200 گاڑیاں ایک دوسرے سے ٹکراگئیں، صرف دو افراد زخمی ہوئے۔ ایسا کیوں ہوتا
ہے؟ اس لیے کہ وہاں پر ’’روڈ سیفٹی‘‘ کے قوانین پر سختی سے عملدرآمد ہوتا
ہے۔ ڈرائیونگ لائسنس، فٹنس سرٹیفکیٹ، گاڑی کے اندرونی سیکورٹی انتظامات،
حدرفتار، سواریوں کی تعداد وغیرہ سے متعلق قوانین کو گڈے گڑیا کا کھیل نہیں
سمجھا جاتا، بلکہ وہاں کی حکومتیں اور انتظامی مشنری ان قوانین پر عملدرآمد
کے لیے آخری حد تک جاتی ہیں۔ اپنے ہاں کاتماشا دیکھیں بسوں کو تو چھوڑیں،
چنگ چی کی چھت پر لوگ بیٹھے ہوتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اندھے تک
کو ڈرائیونگ لائسنس جاری کردیا جاتا ہے۔
گاڑیوں میں مسافروں کے زندہ جلنے کے واقعات کئی بار رونما ہوچکے ہیں۔ ہر
بار یہی سننے کو ملتا ہے کہ فائربریگیڈ کا عملہ تاخیر سے پہنچا، اگر بروقت
امدادی کارروائیاں شروع ہوجاتیں تو جانی نقصان سے بچاجاسکتا تھا۔ کتنی
افسوسناک صورت حال ہے کہ روزانہ آگ لگنے کے واقعات پیش آتے ہیں، مگر ہم
ابھی تک آگ بجھانے والی گاڑیوں کا معاملہ حل نہیں کرپائے۔ اگر ہم شاہراہوں
پر کچھ ایسے پوائنٹ بنادیے جائیں جہاں آگے بجھانے کا عملہ پورے سازوسامان
اور دیگر امدادی کارکنان 24 گھنٹے موجود رہیں اور انہیں حادثات سے آگاہ
کرنے کے لیے کوئی ہیلپ لائن بنادی جائے تو یہ کوئی ناممکن کام ہے ؟
حکومت کی بے حسی اور غیرسنجیدگی تو واضح ہے، مگر سچی بات یہ ہے کہ ہم بھی
اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے۔ ہم میں سے جو لوگ بیرون ملک جاتے ہیں، وہ
وہاں کے ایئرپورٹ پر اترتے ہی ذمہ دارشہری بن جاتے ہیں، ٹریفک قوانین کو
توڑنا تو درکنار تھوکتے ہوئے بھی دس بار ادھر ادھر دیکھتے ہیں، مگر وطن
واپس آتے ہی خود کو ہر قانون کی پابندی سے آزاد سمجھتے ہیں۔ یہ ہماراشرمناک
کردار ہے، ہم قوانین پر عملدرآمد کو اپنی توہین اور حکومت کو کوسنے کو قومی
حق سمجھتے ہیں۔ اگر حکومت حادثات سے بچاؤ کے لیے کچھ نہیں کرتی تو کچھ کام
ایسے ہیں جو ہم کرلیں تو حادثات پر بہت حد تک قابو پایاجاسکتا ہے۔ ایک تو
وہی بات یعنی قانون پر پابندی کی ہے۔ اگر ہم میں سے ہر شخص قانون کی
پاسداری کرے تو آدھے سے زیادہ معاملات تو ویسے ہی حل ہوسکتے ہیں۔ باقی جہاں
تک حادثات کے بعد کی صورت حال سے نمٹنے کا معاملہ ہے، اس میں بھی ہم اتنے
بے بس نہیں ہیں جتنا خود کو سمجھ رکھا ہے۔
آئے دن بازاروں میں آگ لگنے کی خبریں سامنے آتی ہیں، بعد میں تاجر روپیٹ
رہے ہوتے ہیں کہ فائربریگیڈ والے وقت پر نہیں آئے۔ حکومت اور اس کے اداروں
کی نااہلی تو سب پر واضح ہے، مگر سوال یہ ہے کیا تاجر تنظیموں کی اس حوالے
سے کوئی ذمہ داری نہیں بنتی؟ یہ تنظیمیں الیکشن تو ایسے لڑتی ہیں جیسے قومی
یا صوبائی اسمبلی کے لیے ووٹنگ ہورہی ہو، لاکھوں روپے انتخابی مہم میں
اڑادیتی ہیں، کئی تاجر تنظیمیں کروڑ پتی ہیں اور ان تنظیموں میں شامل بیشتر
تاجر خود بھی کروڑ پتی ہیں، مگر مجال ہے کہ یہ تنظیمیں آگ پر قابو پانے یا
دیگر حادثات کے بعد امدادی کاموں کے لیے مطلوبہ سامان کا انتظام کرلیں۔ ان
تاجر تنظیموں کے لیے آگے بجھانے والی گاڑیاں اور اسنارکل وغیرہ خریدنا
بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ پورے ملک میں چیمبر آف کامرس ہیں، ہر ہازار میں
تاجر تنظیمیں ہیں، صنعتی علاقوں کی بھی باقاعدہ تنظیمیں ہیں، مگر یہ سب صرف
حکومت کی طرف دیکھتی رہتی ہیں- |