پروفیسر صابر لودھی بھی اﷲ کو پیارے ہوئے

معروف افسانہ نگار فرخندہ لودھی کے بعد ان کے شوہر پروفیسر صابر لودھی بھی اﷲ کو پیارے ہوئے۔انا اﷲ وانا علیہ راجعون۔ جنگ اخبار پڑھنا میری پرانی عادت ہے۔ باوجود اس کے کہ بعض اوقات اس میں اشتہاروں کی مارکیٹ دیکھ کر سخت کوفت ہوتی ہے ،کئی بار سوچا کہ اب اسے خدا حافظ کہہ دوں لیکن پھر ارادہ ملتوی کردیتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ میں اس کا عادی ہوچکا ہوں۔حالانکہ میں اس کی بعض پالیسیوں سے بھی اختلاف رکھتا ہوں دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ میری چھوٹی موٹی تحریریں کبھی کبھار سنڈے میگزین اور میڈ ویک میگزین کی ذینت بن جاتی ہیں۔ حال ہی میں اتوار ۱۳ جنوری کے اسپیشل سنڈے میگزین میں میرا مختصر سا مضمون آرمی پبلک اسکول پشاور کی شہید پرنسپل پر بعنوان’’پرنسپل‘ طاہرہ قاضی: بہادری ‘فرض شناسی اور قربانی کی اعلیٰ مثال‘‘ شائع ہوا۔ ایک اور اہم بات یہ کہ میں پڑھتا ہوں تولکھتا ہوں۔ کچھ عرصہ سے میں نے حالاتِ حاضرہ پر اردو کی سب سے بڑی اور معروف ویب سائٹـ’ہماری ویب‘ پر کالم بھی لکھ رہا ہوں۔حالاتِ حاضرہ پر کالم لکھنے کے لیے کالم نگاروں کی تحریروں اور تجزیہ کاروں کی آراء کا مطالعہ ضروری ہوتا ہے۔مَیں دیگر اخبارات کے کالم کا مطالعہ نیٹ پر کر لیتا ہوں جب کہ جنگ اخبار خرید کر پڑھتا ہوں۔

۱۶ جنوری ۲۰۱۴ء کو شائع ہونے والے کالم پڑھتے پڑھتے کشور ناہید کا کالم ’’افضل توصیف اور نجمہ صادق بھی گئیں‘‘ پڑھ رہا تھا۔ان دونوں خواتین کے تذکرے کے بعد کالم نگار کوایک ادیب کی موت بھی یاد آگئی، اس ادیب کا نام پڑ ھ کرمَیں تھوڑی دیر کے لیے سکتے میں آگیا۔ اردو کے نامور ادیب ، افسانہ نگار، خاکہ نگاراور میرے پروفیسر صابر لودھی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ کشور ناہید نے یہ تحریر نہیں کیا کہ ان کا انتقال کب اور کیسے ہوا۔ پہلے کشورناہید کے مختصر تاثرات بیان کرتا ہوں پھر بات کو آگے بڑھاؤں گا۔کشورناہید لکھتی ہیں ’’یہیں پہ مجھے ایسے ادیب کی موت بھی یاد آگئی جس نے پورے دو سال اپنی بیوی یعنی فرخندہ لودھی کی خبر گیری کی۔ یہ شخص تھا ڈاکٹر صابر لودھی۔ فرخندہ کے لیے صابر نے نہ دن دیکھا نہ رات دیکھی۔ اس کا ہر کام کپڑے بدلنے سے نہلانے تک ، سب وہ اپنے ہاتھ سے کرتا تھا۔ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ ہر محفل میں دونوں اکھٹے آتے تھے۔ فرخندہ کے رخصت ہونے کے بعد، صابر لودھی مضمحل رہتا تھا۔ کہیں اکیلے جانے سے گریز کرتا تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کا اسٹاف اسے بلاتا، کہتے کہ تھوڑی دیر لائبریری ہی میں گزارلیا کرو۔ مگر فرخندہ کا دکھ اس کی رگوں میں پھیل گیا تھا۔ میں نے دیکھا ہے کہ بیویوں کے مرنے کے بعد بہت سے شوہر اپنے آپ کو سنبھال نہیں سکتے ہیں۔ ہمارے ادب میں تو ایسی بہت سی مثالیں ہیں ‘‘۔ناصرؔ کاظمی کا شعر ؂
وُہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کانام سُنا ہے کل رات مرگیا وہ

سب سے پہلے تو کشور ناہید کا دل ہی دل میں شکر یہ ادا کیا کہ ان کے توسط سے مجھے اپنے دوست صابر لودھی کے بچھڑنے کا علم ہوا ۔ مختصر سا ذکر اتنا بڑا ادیب خیر یہی کیا کم ہے کہ کسی نے تو ذکر کیا۔نم آنکھوں،بوجھل دل کے ساتھ کسک لیے اخبار لپیٹا اورآنکھیں بند کر کے لیٹ گیا۔اب میری سوچوں میں صابر لودھی تھے، ان سے تعلق کی ایک فلم چلنے لگی ۔ میں پریشان تھا کہ کیسے معلوم ہو کہ میرا یہ ادیب دوست کب ،کہاں،کیسے اور کس حال میں دنیا سے رخصت ہوا۔ خیال آیا کہ صابر لودھی کی خاکوں کی کتاب ’بھلایا نہ جائے گا‘ میرے ذاتی ذخیرے میں موجود ہے ۔ گو میں نے اپنی تمام تر لائبریری جامعہ اردو کے کتب خانے ’ڈاکٹر مولوی عبد الحق میموریل لائبریری ‘ کو عطیہ کردی ہے لیکن چند کتابیں اپنے بار بار کے مطالعے کے لیے رکھ لی تھیں ان میں سے ایک صابر لودھی کی یہ کتاب بھی ہے۔ کتاب تلاش ہی کررہا تھا کہ خیال آیا کہ ان کا موبائل نمبر میرے موبائل میں محفوظ ہونا چاہیے اس لیے کہ میری ان سے متعدد بار بات ہوچکی تھی۔ اپنا موبائل اٹھا یا تو ان کا نمبر محفوظ تھا ۔میں نے فوراًڈائل کیا گھنٹی بجنے سے اندازہ ہوا کہ ابھی ان کا موبائل کسی قریبی کے استعمال میں ہے بند نہیں ہوا ۔’السلام علیکم ‘کہنے والے نوجوان نے اپنا نام سہیب بتا یا اور اس خبر کی تصدیق کی کہ لودھی صاحب اب ہم میں نہیں ۔ میرا خیال تھا کہ یہ ان کے بھتیجے ہوں گے لیکن یہ لودھی صاحب کے دوست پروفیسر حق نواز صاحب کے بیٹے تھے۔ بعد میں لودھی صاحب کے بھتیجے عادل خان شہر یار بھی آگئے انہوں نے بھی لودھی صاحب کے رخصت ہوجانے کی تفصیل بتائی۔ لودھی صاحب ۱۳ دسمبر ۲۰۱۴ ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ جب وہ بیمار ہوئے تو خیال تھا کہ دل کا معاملا ہے چنانچہ دل کے ڈاکٹر کا علاج ہوا لیکن بعد میں پتا چلا کے ان کی کمر کے مہرے شدید متاثر ہوچکے ہیں۔ لاہور کے ڈاکٹر حامد عزیز نے ان کی تکلیف کا علاج آپریشن تجویز کیا ۔ آپریشن بھی ہوا لیکن اسی تکلیف میں اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ واپڈا ٹاؤن میں رہائش تھی ۔وہیں قبر ستان میں تدفین ہوئی ؂
بکھری ہیں فضاؤں میں اس طرح تری یادیں
جس سمت نظر اُٹھی ‘ آواز تری آئی

مَیں صابر لودھی سے ان کی شریکِ حیات فرخندہ جومیری ہم پیشہ بھی تھی کے توسط سے متعارف ہوا۔فرخندہ نے۵ مئی ۲۰۱۰ء کواس دنیائے فانی سے کوچ کیا۔ میَں نے اسی ماہ کی ۱۱ تاریخ کو سرگودھا یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس میں ایسو سی ایٹ پروفسر کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی تھی۔خیال یہی تھا کہ اپنی اولین فرصت میں فرخندہ لودھی کا خاکہ لکھوں گا لیکن شعبے میں پڑھانے کی مصروفیات، ہاسٹل لائف وہ بھی ریٹائرمنٹ کے بعد کی عمر میں، میرے لیے بالکل ہی انوکھا تجربہ تھا،شہر نیا، لوگوں کے درمیان اجنبی،الغرض بے شمار قسم کی و جوہات آڑے آتی گئیں۔مصروفیات کے باوجود میں نے فرخندہ کا خاکہ لکھنا شروع کردیا تھا بعض مجبوریوں کے باعث مجھے جامعہ سرگودھا سے رخصت ہونا پڑا اور میں فرخندہ کے ادھورا خاکہ لے کر سعودی عرب چلا گیا ۔سعودی عرب کے شہر جدہ میں میری رہائش تھی جہاں پر میرے عبادت اور پاس پڑھنے اور لکھنے کے علاوہ کچھ نہ تھا ۔ چنانچہ اسی مقدس سرزمین پر فرخندہ لودھی کا خاکہ بعنوان ’فرخندہ لودھی ۔ایک ادیب ایک کتابدار‘ مکمل کیا۔ یہ خاکہ ماہنامہ ’الحمر اء‘ لاہور، کی جلد ۱۲شمارہ ۳ مارچ ۲۰۱۲ء میں شائع ہوا۔یہ میری خاکوں کے مجموعے ’جھولی میں ہیرے اور موتی‘ میں بھی شامل ہے ۔یہ کتاب ۲۰۱۲ء میں شائع ہوئی۔ یہی نہیں بلکہ یہ خاکہ اردو کی سب سے بڑی اور معروف ویب سائٹ ’’ہماری ویب‘‘ پر آن لائن بھی ہے جس کایو آر ایل (https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=41726)ہے۔ فرخندہ لودھی سے میراتعلق ہم پیشہ ہونے کے علاوہ لکھاری کا بھی تھا وہ معروف افسانہ نگار تھی اور میں لکھاریوں کی فہرست میں اپنے آپ کو سب سے نیچے شمار کیا کرتا ہوں۔ اپنے موضوع کے علاوہ شخصیات میرا محبوب موضوع رہی ہیں۔ لکھتے لکھتے ادب کی کئی اصناف مثلاً خاکہ نگاری ،سفر نامہ، رپوتاژاور اب کالم نگاری بھی کیا کرتا ہوں۔

جامعہ سرگودھا کا ٹیچرس ہاسٹل کاکمرہ نمبر ۵ جہاں میری رہائش تھی فرخندہ کا خاکہ لکھنے کے حوالے سے میَں پروفیسر صابر لودھی کے خاکوں کی کتاب کا مطالعہ کررہا تھا۔ کتاب کا تعارف پڑھا اختتام پر لودھی صاحب کے گھر کا پتا اور فون نمبر درج تھا، میں نے انھیں فون کیا، انھوں نے ہی اٹھا یا، مَیں نے اپنا تعارف کرایا، کہنے لگے میں آپ سے بخوبی واقف ہوں، ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی میں نے آپ کی کتابوں کو جو فرخندہ کی کتابوں کی الماری میں رکھی تھیں جھاڑ پونچھ کر دوبارہ وہیں رکھا ہے۔ میَں نے بتایا کہ میَں خاکے بھی لکھ لیتا ہوں، فرخندہ کا خاکہ لکھ رہا ہوں ، کتاب میں آپ کانمبر دیکھا تو سوچا کہ آپ سے بات کروں کچھ معلومات حاصل ہو جائیں گی۔ خوش ہوئے، میرا ایڈریس نوٹ کیا ،کہا کہ فرخندہ پر لکھا ہوا میراخاکہ جو حال ہی میں چھپا ہے آپ کو بھیج دونگا ، اس سے کافی مدد مل جائے گی۔ ایسا ہی ہو ا، چند روز میں مجھے وہ خاکہ مل گیامیری مشکل اور آسان ہوگئی۔یہ تھی میرے اور پروفیسر لودھی کے ملاپ کی کہانی اب ہم ایک دوسرے کے دوست ہوگئے۔ اکثر فون پر گفتگو ہوا کرتی، میری بیٹی لاہور میں رہتی تھی اب تو جرمنی منتقل ہوچکی ہے چنانچہ لاہور آنا جانا رہتا تھا۔ ایک روز لودھی صاحب کو فون کر کے ان کے گھر واپڈا ٹاؤن پہنچ گیا۔ محبت اور خلوص سے ملے۔ میری خاکوں کے مجموعے کی تعریف بھی کی ۔دورانِ ملاقات فرخندہ مرحومہ کی شخصیت پرگفتگو کے ساتھ ساتھ میں لودھی صاحب کے سراپا کا جائزہ لیتا رہا اور ان سے مختلف موضوعات پر گفتگوبھی جاری رہی۔ دُبلے پتلے، گورے چِٹے، صاف ستھری نازک سی شخصیت، دراز قامت، کتابی چہرہ ، ستواں ناک جس کے نیچے قینچی استرے کی دسترس سے محفوظ سپاٹ میدان یعنی کلین شیو ،سر پر کھچڑی بال جن میں سفیدی نمایاں،ہلکے رنگ کا قمیض شلوار زیب تن کیا ہوا،المختصر صورت شکل ، وضع قطع ، چہرے مہرے سب سے شرافت تحمل وضع داری اور معصومیت کا خوشگوار اظہار، دھیرے دھیرے تسلسل کے ساتھ زیادہ ترفرخندہ کو ہی یاد کرتے رہے۔ پروفیسر لودھی کا یہ حلیہ میری نظروں کے سامنے رہتا ہے۔بقول عدم ؂
ان سے ملے تو قلب کی تالیف ہوگئی

پروفیسر صابرلودھی کا خاندان بستی پٹھانا(ریا ست پٹیالہ ) میں آباد تھا۔ وہ ۱۲ دسمبر ۱۹۳۳ء کو پیدا ہوئے ، زندگی کی ۸۱ بہاریں دیکھنے کے بعد ۱۳ دسمبر ۲۰۱۴ء کو اس دنیا ئے فانی سے کوچ کر گئے۔ انہوں نے ہندوستان کے ضلع انبالہ کے قصبے ’کورالی‘ سے پاکستان ہجرت کی ۔ گورنمنٹ ہائی اسکول علی پور (ضلع مظفر گڑھ)سے میٹرک پاس کیا۔ انٹر اوربی اے ایمرسن کالج ملتان سے کیا۔ زمانہ طالب علمی میں پروفیسر لودھی نے ملتان کی سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں بھر پور شرکت کی ۔ بعد میں اردو اور فارسی میں ایم اے کیا ۔ پروفیسر لودھی اردو کے پروفیسر تھے،ایچی سن کالج لاہور سے ۱۹۵۸ء میں لیکچرر کی حیثیت سے خدمات کا آغاز کیا تھا، مختلف کالجوں(اوکاڑا، مظفر گڑھ ) میں خدمات انجام دیں، پروفیسر اردو کی حیثیت سے گورنمنٹ کالج لاہور سے ۱۹۹۴ء میں ریٹائر ہوئے۔ناصرؔ کاظمی کا شعر ؂
ا’ٹھ گئے کیسے کیسے پیارے لوگ
ہوگئے کیسے کیسے گھر خاموش

پروفیسر صابر لودھی ۱۵ اگست ۱۹۶۱ء کو فرخندہ لودھی سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے، ۴۹ برس فرخندہ کی رفاقت میں اور صرف چار برس اس کی جدائی میں گزرے۔ صابر لودھی نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ’انھوں نے جس خانوادے میں آنکھ کھولی وہاں صباحت کا راج تھا ۔ ملاحت کو دیکھنے کے لیے آنکھیں ترستی تھیں‘‘۔ پختون خواہ کی سرزمین جہاں کے لوگ اپنے ظاہری پن میں سرخ سفید ، صحت مند اور خوبرو شخص کو ’سانولی سلونی ، اداس ، سیاہ ، متجسس آنکھیں‘ کیسے بھا گئیں۔ صابر لودھی کو فرخندہ کی متجسس آنکھیں ایسی اچھی لگیں کہ انہوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انھیں اپنا لیا ۔ اس طرح پروفیسر صابر لودھی کو فرخندہ کے روپ میں وہ ملاحت مل گئی جس کو دیکھنے کو ان کی آنکھیں ترستی تھیں۔ شوہر اور بیوی دونوں سے ادب کی کرنیں پھوٹتیں ہوں ، ترسیل علم دوطرفہ ہو تو یہ سونے پہ سہاگہ ہی ہے۔ دونوں کی زندگی کا سفر ادب کی ترویج و ترسیل سے عبارت رہا۔ فرخندہ ترسیل علم کے ساتھ ساتھ ادب کی ترویج میں بھی کردار ادا کرتی رہی اور صابر صاحب بھی اسی منزل کے شہ سوار رہے ۔ یہ دوسری بات بقول صابر لودھی ۔’’اصل میں فرخندہ روایتی ہے‘ یونانی مگکر زینو کی شاگرد اور صابر لودھی یونانی فلسفی ایپی غورس کا پیرو ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی سوچ ہے، اپنے اپنے دائرے ہیں، تاہم فرخندہ پرسکون زندگی گزار رہی ہے، اضطراب ‘محرومی‘شکست کے باوجود پرسکون․․․․اس اطمینان میں اُس کے اپنے فلسفے کا دخل ہیـ ۔میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں ‘ساتھ ساتھ چلو‘ دُور دُور رہو‘‘ سو دونوں دُور دُور رہ کر ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ‘‘ ۔ ایک اور جگہ پروفیسر صابر لودھی نے لکھا’’جب کوئی المیہ ،ماضی کا کوئی دکھ، محرومی کا کوئی احساس ، نارسائی کا کوئی لمحہ اُسے بے کل کردیتا تو وہ کتھارسس کے لیے لکھنے بیٹھ جاتی اور جب کوئی افسانہ یا ناول کا ایک ٹکڑا مکمل ہوجاتا تو اطمینان کا سانس لیتی، تھک کر لیٹ جاتی یا کسی معصوم بچے سے باتیں کرنے لگتی۔ مجھ سے وہ اجنبی رہتی اور یہ اجنبیت زندگی بھر ہمارے درمیان قائم رہی۔ دونوں ایک ساتھ، ایک گھر میں ․․․․اپنے اپنے خیالات ایک دوسرے سے شیٔر کرتے ہوئے(وہ کم ،میں زیادہ)ایک دوسرے سے خوف زدہ یہی ہماری کامیاب زندگی اور پچاس سالہ رفاقت کا راز تھا‘‘۔ یہ تھی پروفیسر صابر لودھی اور فرخندہ کی ازداوجی زندگی۔ بقول شاعر ؂
ساتھ رہ کے بھی دورہی رہے ہم تم
دھوپ چھاؤں کی دوستی عجب گزری

پروفیسر صابر لودھی نے افسانے بھی لکھے ، ان کے افسانوں کا مجموعہ ’راوی افسانے‘ ۱۹۸۹ء میں منظر عام پر آیا، وہ در اصل خاکہ نگاری کے بادشاہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ میں شاعری اور فکشن کو تخلیقی ادب میں شمار کرتا ہوں، فکشن لکھنے والا اپنے کرداروں کے ذریعے شخصیت کی تخلیق کرتا ہے اور خاکہ نگار شخصیت کے وجود سے تخلیقی عمل کو بروئے کار لانے کی سعی کرتا ہے۔ وہ شخصیت کے طلسم کدے سے اپنے فن میں نکھار لاتا ہے‘۔ شوہر کی بیوی سے محبت اور عقیدت ،سوچ اور اس پر عمل کا اچھوتا اورخوبصورت انداز تو دیکھئے پروفیسر صابر کہتے ہیں کہ ’ ہمارے گھر میں فرخندہ لودھی توانا افسانے اور بناول تخلیق کرتی تھی، اس لیے میں نے اپنے خاکوں کو کبھی اہم نہیں سمجھا ۔ انہیں کتاب کی شکل میں محفوظ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ مگر اب فرخندہ اپنا کام سمیٹ کر صاحب فراش ہوچکی ہے اور مجھے مجبوراً گھر میں مقید ہونا پڑا تو ان بکھرے ہوئے اجزاء کو لڑی میں پرونے کا ارادہ کر لیا‘۔ یعنی فرخندہ کے انتقال کے بعد پروفیسر لودھی کے خاکوں کا مجموعہ بُھلایا نہ جائے گا‘ منظر عام پر آیا۔ خاکہ نگاری کے بارے میں مَیں کیا لکھ سکتا ہوں ایک منجھے ہوئے لکھاری جس کا قلم روانی کے ساتھ خوبصورت الفاظ اور جملوں کے موتی بکھیرتا ہوا ایسے رواں دواں رہتا جیسے آسماں سے قَوسِ قُزِح اتر رہی ہو۔ان کی شریک سفر فرخندہ نے ان کی خاکہ نگاری کے بارے میں لکھا تھا کہ ’دوستوں کے اصرار پران کا خاکہ لکھ دیتے ہیں ، خاکہ اڑانے سے احتراز کرتے ہیں،قلم کو ایسا کنٹرول میں رکھ کر چلاتے ہیں کہ خاکہ لکھوانے والا باغ باغ ہوجاتا ہے ‘۔ خاکہ نگار کی خوبی بھی یہی ہے کہ قلم اس کے مکمل اختیار میں رہے اس کی تحریرمیں شخصیت کی تضحیک یا مزاق اڑانا نہ ہو بلکہ اس کی ظاہری اور چھپی ہوئی اچھائیوں اور کمزوریوں کو خوبصورت الفاظ میں تسبیح کے دانوں کی طرح پرودے۔ان کی تحریر کا ہر ہر جملہ خوبصورت اور دعوت فکر دیتا نظر آتا ہے ساتھ ہی ادب کی چاشنی لیے ہوتا ہے۔

پروفیسر لودھی اپنے آپ کو ترقی پسند ادیبوں میں شمار کیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی سوچ کی راہیں متعین کرنے میں ڈاکٹر وزیر آغا کی تحریروں نے مدد کی ہے۔ یہ بات انہوں نے ڈاکٹر وزیر آغا پر تحریر کیے گئے اپنے خاکے’وزیر آغا ۔نظریہ ساز راوین‘ میں بیان کی ہے۔لیکن ان کی شریک حیات فرخندہ لودھی ترقی پسند ضرور تھی لیکن وہ ادب میں گروہ بندی کو پسند نہیں کرتی تھی۔ ڈاکٹر وزیر آغا اور احمد ندیم قاسمی کا وہ برابر کا احترام کرتی تھی۔ پروفیسر لودھی کا کہنا تھا کہ ’شاعری میں ہی نہیں نثر میں بھی خیال عالم بالا سے اُترے ہیں‘۔ بقول غالب ۔۔آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں‘۔پروفیسر لودھی کو آپریشن سے خوف تھا ۱۹۹۱ء میں انہیں ہرنیا کی تکلیف ہوئی، ڈاکٹر نے آپریشن کا مشورہ دیا۔ لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر نے صبح آپریشن کا مشورہ دیا ۔میں نے سوچا ‘ کل کے بعد کیا ہوگا؟ کس کو خبر؟ اس لیے سکون سے سونے کے بجائے فرخندہ کا خاکہ لکھ ڈالا‘۔ دسمبر ۲۰۱۴ء میں بھی ان کا آپریشن ہوا ، وہی خوف یقینا رہا ہوگا لیکن نہیں معلوم آپریشن سے پہلے کی رات انہوں نے کس کا خاکہ لکھا ؟ یا پھر اپنے خاکے کے خدو خال تیار کرتے رہے۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے ۔ آمین۔کیسے کیسے گنج ہائے گرانمایہ دنیا سے اُٹھتے جارہے ہیں۔ غالبؔ کا شعر ؂
مقدور ہو‘تو خاک سے پوچھوں کہ‘اے لئیم !
تو نے وہ گنج ہائے گرانما یہ کیا کیے ؟
(۱۹ جنوری ۲۰۱۴ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437361 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More