تمام مصیبتیں اور پریشانیاں صرف عوام کے لیے ہی کیوں؟

گرمی ہو تو بجلی کی ,20 20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ عوام کا جینا حرام کر دیتی ہے بطور خاص سخت حبس کے عالم میں جب لوچلتی ہے تو سانس لینا بھی محال ہوجاتاہے جب عوام تڑپ رہی ہوتی ہے تو نہ صرف حکمرانوں بلکہ تمام سرکاری افسروں کے گھروں میں چوبیس گھنٹے بجلی فراہم کرکے عوام کی توہین کی جاتی ہے ۔ بجلی کے بل عوام اپنی جیب سے اداکرتے ہیں لیکن حکمرانوں سمیت تمام سرکاری افسر وزیر کبیر اور مشیر حکومت کے خزانے سے بجلی استعمال کرتے ہیں ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس اور پارلیمنٹ میں جہاں ہزاروں میگاواٹ بجلی روزانہ خرچ ہوتی ہے ان کے بل زبردستی عوام سے ہی وصول کر لیے جاتے ہیں ۔ پھر جب سردی شروع ہوتی ہے تو پورا پاکستان گیس کو ترس جاتا ہے گھروں کے چولہے سرد پڑ جاتے ہیں گھر وں کا ماحول سائبریا جیسے سرد ترین مقامات جیسا یخ بستہ ہوجاتا ہے انسانی زندگی مشکل ترین حالات سے دوچار ہوجاتی ہے خواتین کھانا تیار کرنے اور مرد حضرات غسل کرنے کو بھی ترستے ہیں ان حالات میں لکڑیاں تو ویسے ہی ناپید ہوچکی ہے لیکن سلنڈ ر گیس کے ریٹ بڑھا کر حکمران بے بس عوام کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ لوگ سلنڈ ر گیس کے لیے پیسے کہاں سے لائیں گے پھر سلنڈ ر پر پورے گھرکا کھانا پکتا بھی نہیں ہے۔سردی تین مہینے رہے یا چار مہینے عوام ایک ایک لمحہ تکلیف اور اذیت میں گزارتے ہیں جبکہ حکمران سمیت تمام سرکاری افسر اپنے اپنے دفتروں اور گھروں میں سرکاری خرچ پر گیس اور بجلی کا بے تحاشا استعمال کرتے ہیں۔کسی کو اس بات کااحساس نہیں ہوتاہے سرکاری خزانے میں عوام کا خون نچوڑ کر جو پیسے اکٹھے کیے جاتے ہیں وہ حکمرانوں اور سرکاری افسروں کی عیاشیوں اور لامحدود پروٹوکول پر تو خرچ نہیں ہونے چاہیئں لیکن پاکستان میں عوام کو کند چھری سے ذبح کرکے اس کا خون پینے کا ہر حکمران شوقین رہاہے ۔اسی طرح سی این جی کا معاملہ بھی ہے پہلے عوام کو سستی سی این جی کالالچ دے کر ہزاروں روپے خرچ کرکے گاڑیوں کو سی این جی پر منتقل کروایاگیا پھر پیپلز پارٹی کے دورمیں تین تین کروڑ روپے رشوت لے کر سی این جی اسٹیشن قائم کرنے کے لائسنس جاری کیے گئے جب لوگوں نے اربوں روپے خرچ کرکے سی این جی اسٹیشن تعمیر کر لیے تو سی این جی بند کرکے نہ صرف اسٹیشن قائم کرنے والوں کومالی طور پر دیوالیہ کردیاگیا بلکہ لاکھوں کی تعداد میں گاڑیوں کو سی این جی پر منتقل کرنے والے بھی قلاش ہوگئے ۔پھر بجلی کے ریٹ میں 2 روپے فی یونٹ کمی کی خوشخبری وزیر اعظم نے خود فخریہ انداز میں سنائی تھی لیکن یہ خوشخبری عملی صورت اختیار نہیں کرسکی کہ بجلی کے ریٹس بڑھانے کی خبریں تواتر سے مل رہی ہیں اس کے باوجود کہ پٹرول کے سستاہونے کی بنا پر بجلی کی پیداواری لاگت میں 7ارب روپے کم ہوچکے ہیں جس سے 12 روپے فی یونٹ بجلی کی قیمت کو 8 روپے فی یونٹ تک واپس آنا چاہیئے لیکن حکومت کا موثر کنٹرول نہ ہونے اور نااہل ترین وزیر اور مشیروں کی بنا پر عوام کو یہ ریلیف بھی منتقل نہیں کیاجاسکا جس کی وجہ سے آج بھی بجلی کا بل ادا کرنے کے بعد گھروں میں فاقہ کشی شروع ہوجاتی ہے۔جون 2014ء میں بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی فی بیرل قیمت 107 ڈالر تھی جو پاکستانی کرنسی میں 10,700 روپے بنتی تھی ایک بیرل میں 120 لیٹر ہوتے ہیں تقسیم کریں تو فی لیٹر پٹرول 89 روپے پڑتا ہے لیکن اس وقت پاکستان میں عوام کو 112 روپے فی لیٹر فروخت کیاجاتا رہا۔ ظلم کی انتہاء کہ ایک لیٹر پر حکومت 23 روپے ٹیکس وصول کرتی رہی ۔اب بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمت 56 ڈالر فی بیرل ہوچکی ہے جو پاکستانی کرنسی میں 5,625روپے بنتی ہے اگر 120 پر تقسیم کیا جائے تو پٹرول کی پاکستان میں قیمت 47 روپے ہونی چاہیئے لیکن نواز حکومت نے 78 روپے فی لیٹر پٹرول کی قیمت مقرر کی ہے اس طرح اب بھی حکومت 31روپے فی لیٹرکے حساب سے عوام سے ٹیکس وصول کررہی ہے ۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ پٹرول کی قیمت میں 30 روپے فی لیٹر کمی ہونے کے باوجود نہ تو اشیائے خورد نوش کی قیمتوں میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے اور نہ ہی بجلی اورگیس کے ریٹ پٹرول کی قیمت کے مطابق کم کیے گیے ہیں ۔تاجر اور دکاندار حضرات پہلے کی طرح ہی عوام کو ذبح کررہے ہیں ۔یوں محسوس ہوتاہے کہ عوام کو پریشانیوں اور مصیبتوں میں مبتلاکرنے کے باوجود حکمرانوں کا دل ابھی نہیں بھرا ۔اب دانستہ پنجاب کے تمام علاقوں میں پٹرول کی شدید ترین قلت پیدا کردی گئی ہے اور جن پمپوں پر پٹرول مل رہا ہے وہاں پانچ پانچ سو موٹرسائیکلیں اور گاڑیاں قطار میں کھڑی دکھائی دیتی ہیں سارا دن قطار میں کھڑا رہنے کے بعد ایک سو کا پٹرول بمشکل ملتا ہے ۔جبکہ دوکانوں پر کھلا پٹرول 200 روپے فی لیٹر تک جاپہنچا ہے اس حکومتی نااہلی کی بنا پر رکشے اورٹیکسی والوں اپنے کرایے دو گنا کرکے پولیس کو چاروں ہاتھ سے لوٹ رہے ہیں۔پٹرول کی قلت کی وجہ سے لوگ اپنے دفتر نہیں جاتا سکتے ایمبولینس سروس بند ہوچکی ہے ۔ باراتیں دولہن کے گھر اوربچے سکول نہیں پہنچ سکتے ۔ کاروبار زندگی رک چکاہے ۔وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی بنا پر ہم نے 20روز کا سٹاک نہیں کیا جبکہ پی ایس او کی جانب سے تیل کی خریداری کے لیے 50 ارب روپے مانگے جارہے ہیں۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستانی عوام کا مقد ر ہی ذلیل و خوار ہونا لکھ دیاگیا ہے آج بھی حکمرانوں اور سرکاری افسروں کی گاڑیوں میں قومی خزانے سے پیسے خرچ کرکے بے دریغ پٹرول کیا خرچ کیاجارہاہے بغیر پٹرول کے پانچ پانچ سوگاڑیوں کے قافلے کے ساتھ حکمران سفر کے کیسے کر لیتے ہیں۔بے شک نواز شریف نے چند افسر معطل کرکے معاملے کو دبانے کی کوشش کی ہے لیکن جب تک وفاقی وزیر سمیت ذمہ داران کا تعین کر کے انہیں جیل نہیں بھیج دیا جاتا اس وقت تک عوام کے ذہنوں میں بار بار یہ سوال ابھرتارہے گا کہ یہ ملک صرف اور صرف حکمران اور مراعات شدہ طبقے کے لیے رہ گیا ہے کیاعوام اس ملک کو چھوڑ کر کسی اور جگہ جابسیں جہاں ان کی کوئی شنوائی بھی ہو۔کیونکہ پاکستان میں تو قدم قدم پر عوام کے لیے ذلیل و خوار ہونالکھ دیاگیا ہے ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785296 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.