عمران خان کا آرمی پبلک سکول میں آمد
(Roshan Khattak, Peshawar)
اس وقت پاکستان کا ہر محب وطن
شہری ملک کے موجودہ حالات کی وجہ سے سخت الجھن اور پریشانی کا شکار ہے ۔
پورا ملک مختلف قسم کے بحرانوں میں گھرا ہواہے۔عوام اگر ایک طرف مہنگاائی،
بے روز گاری ، گیس لو ڈ شیڈنگ اور بجلی کے لو ڈشیڈنگ سے تنگ ہے تو دوسری
طرف دہشت گردی اور سر پر منڈلاتے جنگ کے کالی گھٹا وئں نے عوام کا سکھ چین
لیا ہے ۔ پشاور میں آرمی سکول پر دہشت گردوں کے حملے اور معصوم بچوں کی
شہادت نے عوام کو شدید خوف اور پریشانی سے دوچار کر دیا ہے ۔دہشت گردوں نے
اس جنگ کو عوام کے کچن تک پہنچا دیا ہے اب ما ئیں سکول جانے والے بچوں کو
کانپتے ہاتھوں سے ناشتہ تیار کر کے سکول بھیج کر ان کی خیریت سے گھر بھیجنے
کی دعا ئیں کرتی ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے ، آ ج
ہم وہی کچھ کاٹ رہے ہیں جو پچھلے چھیاسٹھ سالوں سے ہم بو تے چلے آ رہے
ہیں۔کسی بھی ملک کی بنیاد اس ملک کا سیاسی نظام ہو تا ہے اور ملک کا سیاسی
نظام سیاسی پارٹیوں کا مر ہونِ منّت ہو تا ہے۔
مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری بڑی سیا سی پارٹیوں پر جاگیرداروں، سرما
یہ دارون اور صنعتکاروں کا قبضہ ہے جو ہمیشہ ملک کے مفاد سے زیادہ پارٹی یا
ذاتی مفاد کو ترجیح دیتی چلی آرہی ہیں ۔اور جب بھی کوئی فرد یا موجودہ نظام
میں تبدیلی کی خواہاں پارٹی موجودہ نظام کے لئے خطرے کی گھنٹی بجاتی ہے تو
اس کے خلاف موجودہ نظام برقرار رکھنے کے حامی افراد اکھٹے ہو کر اس کے خلاف
اس کا راستہ روکنے کے لئے نِت نئے رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔اس کا ایک مظا ہرہ
اس وقت عوام نے ملا حظہ کیا جب عمران خان کے دھرنے کے خلاف اور انتخابات
میں دھاندلی کی انکوا ئری کے مطالبہ کے خلاف پارلیمان میں کئی سیاسی
پارٹیوں نے اکٹھ جو ڑ کر لیا۔ اور اب ایک مظاہرہ ہم نے یہ دیکھا ،جب عمران
خان پشاور میں آرمی پبلک سکول لائے تو سکول کے باہر اس کا راستہ روکنے کی
کو شش کی گئی اور ’’گو عمران گو‘‘ کے نعرے لگا ئے گئے۔اس روز پشاور پریس
کلب میں اباسین کالمز رائیٹرز ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا کی حلف برداری کی
تقریب منعقد ہو نی تھی ۔جس میں وزیرِ اطلاعات و ہائر ایجو کیشن مشتاق غنی
نے کالم نگاروں کی نو منتخب کابینہ سے حلف لینا تھا جس کے لئے دوپہر بارہ
بجے کا وقت رکھا گیا تھا۔مشتاق غنی صاحب حسبِ وعدہ پریس کلب تشریف لائے تو
غصے اور ناگواری کا احساس ان کے چہرے سے عیاں تھا۔کالم رائیٹرز سے
حلف لینے کے بعد جب وہ اسٹیج پر تقریر کر نے اٹھے تو کالم نگاروں کو تسلی و
تشفی اور اپنے تعاون کی یقین دہانی کرنے کے بعد اپنے دل کی بات زبان پر لے
آئے اور کہنے لگے کہ میں ابھی ابھی عمران خان کے سکول آ مد کے بعد یہاں آیا
ہوں اور میں نے سکول سے باہر گیٹ پر جو کچھ دیکھا وہ بہت ہی افسوسناک اور
قومی سیاست کے لئے خطر ناک منظر دیکھا انہوں نے کہا ، جب پاکستان تحریکِ
انصاف کے چئیر مین عمران خان اپنی اہلیہ ریحام خان کے ہمراہ سکول پہنچے تو
سکول سے باہر مسلم لیگ نواز گروپ اور عوامی نیشنل پا رٹی کے چند افراد نے
عمران خان کا راستہ روکنے کی کو شش کی اور ’’ گو عمران گو ‘‘ کے نعرے
لگوائے انہوں نے نے ان میں سے چند افراد کے نام بھی گنوائے اور کہا کہ جب
عمران خان سکول کے اندر تشریف لے گئے تو سکول کے بچوں نے عمران خان کا وا
لہانہ استقبال کیا آٹو گراف لئے۔تحریکِ انصاف کے حق میں نعرے بھی
لگائے۔انہوں نے کہا کہ میں نہایت و ثوق سے یہ بات کہتا ہوں کہ سکول سے باہر
یہ احتجاج منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ۔
الغرض اس قسم کے واقعات سے یہ اندازہ ہو تا ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں
یکجہتی کو فروغ دینے کے بجائے انتشار کی سیاست کو اپنا کر اپنا ا لّو سیدھا
کرنا چا ہتی ہیں۔حالانکہ موجودہ وقت اختلاف کا نہیں ، ملاپ کا ہے، بکھرنے
کا نہیں ،سدھرنے کا ہے کیو نکہ اس وقت ملک کی کشتی بھنو ر میں پھنسی ہچکو
لے کھا رہی ہے اگر اس وقت بھی ہمارے سیاسی قائدین نے عقل کے ناخن نہ لئے
اور ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے تو ’اﷲ نہ کرے‘‘ وطنِ عزیز پر
موجودہ وقت سے بھی زیادہ برا وقت آ سکتا ہے۔اور سیاسی لیڈروں کی دکانداری
کو بھی تالا لگ سکتا ہے لہذا ہماری سیاسی قیادت سے گزارش ہے کہ وہ سیاست
جمہوری انداز میں ضرور کریں، احتجاج بھی ان کا حق ہے مگر کسی سازش کے تحت
نہیں بلکہ قومی مفاد کی خاطر کریں اور نفاق کی بجائے اتفاق کو فروغ دینے کی
کو شش کریں۔ |
|