دنیا میں اسلام کو جس بڑے پیمانہ پر بدنام کرنے کی سازشیں
رچی جا رہی ہیں،اس کے نتیجہ میں یہ بات باآسانی کہی جا سکتی ہے کہ آج دنیا
اسلام سے مکمل طور پر خوف زدہ ہے۔یہ خوف فطری بھی ہے اور منطقی بھی ،تہذیبی
بھی ہے اور نظریاتی بھی۔اور اسی خوف کا نتیجہ ہے کہ وحشت جس میں دنیا مبتلا
ہے ،اُس چہار طرفہ وحشت کو لفظ "دہشت"سے تبدیل کیا جا رہا ہے۔درحقیقت آج
جبکہ ہر سطح پر اسلام کی نظریاتی و تہذیبی برتری ثابت ہوچکی ہے،ٹھیک اسی
وقت، مد مقابل بالادستی ثابت کرنے کی غرض سے بااقتدار طبقہ اور متکبر اشخاص
مختلف طریقہ ہائے پروپیگنڈے کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔دلائل سے خالی اور
جھنجھلاہٹ میں مبتلا افراد فی زمانہ ہر ممکن طریقہ اختیار کرتے آ ئے ہیں۔اس
کے باوجود آج جو طریقہ اختیار کیا جارہا ہے وہ اپنے آپ میں مخصوص ہے۔غرض
صرف یہ ہے کہ مد مقابل اسلامی افکار و نظریات ، طریقہ ہائے حیات اور تہذیب
و تمدن کو کسی بھی طرح دنیا کے سامنے آنے سے روکا جائے۔لہذا اسی کا نتیجہ
ہے کہ دھیمی آواز کا جواب چیخنے چلانے سے اور گفتگو کا جواب دھمکیوں سے دیا
جاتا ہے۔وہیں فرد واحد یا قوموں کے باطن میں موجود نفرت وکدورت اُن کے
اقوال و افکار سے پوری طرح جھلک رہی ہے۔حق کاقتل ناحق سے اور ضمیر کی آواز
کو دبایا جارہا ہے ۔ساتھ ہی ہر وہ حربہ استعمال کیا جاتا ہے جس سے دلیل کی
روح کچلی جا سکے۔گرچہ یہ کوششیں پہلے بھی جاری رہی ہیں اس کے باوجود اسلامی
اصولوں نے ہر دور میں برتری حاصل کی ہے۔
1936ء کا سال،یورپ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے درمیان انتہائی پریشان
حال تھا۔ڈارون کی بندر تھیوری چھائی ہوئی تھی۔انسان نسلی اور قومی سطح پر
ٹکڑوں میں تقسیم تھا۔مابعد جدیدیت کا فلسفہ سارترؔ اور کامیوؔ جیسے منکرین
مذہب پروان چڑھا رہے تھے۔اہل کلیسا اخلاقی زوال میں مبتلا تھے اور"روشن
خیال" یورپ میں مذہب کا قتل کر رہے تھے۔اسی ماحول میں قد آور شخصیت،ادیب
اور دانشور جارج برناڈ شا نے ایک انوکھی بات کہی تھی۔شا نے کہا تھا"اگر
کوئی مذہب آئندہ سو سال میں یورپ یا کم از کم برطانیہ پر حکومت کر سکتا ہے
تو وہ اسلام ہے"۔اس وقت یہ پیشین گوئی عام انسان نے دیوانہ کی بڑ کے سوا
کچھ نہ سمجھی ۔ اس کے باوجود مغربی دانشواران اسی وقت چوکنے ہوگئے
تھے۔دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی، مسلمان کالونیاں برطانیہ اور فرانس کی گرفت
سے آزاد ہونے لگیں۔دوسری جانب مغربی مورخ اور فلسفی برٹرینڈ رسل نے History
of Western Philosophyمیں لکھا:"ہمارے (یورپی)Dark Agesتاریک زمانے699ء سے
1000ء تک پھیلے ہیں۔یہ وہی زمانہ ہے جبکہ ہندوستان سے اسپین تک اسلام کی
عظیم الشان تہذیب پھل پھول رہی تھی۔ہمیں لگتا ہے کہ مغربی یورپ کی تہذیب ہی
اصل تہذیب ہے ، مگر یہ بہت تنگ اور محدود خیال ہے"۔تاریخ آگے بڑھی تو عالمی
جنگوں سے پریشان حال دانشواران نے فلسفہ مابعد جدیدیت میں انسان کی رہی سہی
وقعت اور عزت بھی ختم کردی۔فلسفہ کی اسی موت نے یورپ کو تہذیبی بحران میں
مکمل طور پر مبتلا کر دیا۔اور آج یورپ اور امریکہ سمیت مغرب کے تمام بڑوں
پریہ حقیقت پوری طرح منکشف ہو چکی ہے کہ خدا تک لے جانے والی عیسائی و
یہودی بنیادیں، بے بنیاد ،جڑکٹی،مسخ شدہ اور دلیل سے خالی ہیں۔برخلاف اس کے
اسلامی تعلیمات اصل،جامع اور مکمل ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ فرانسیسی انقلاب
کا سپہ سالار نپولین بونا پارٹ،انیسویں صدی کے اوائل میں کہتا ہے کہ :"مجھے
امید ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب میں دنیا کے تمام ملکوں کے ذہین ترین
انسانوں کو متحد کرکے ایک ایسی حکومت مستحکم کروں گا جس کی بنیاد قرآن کے
اصولوں پر رکھی جائے گی،قرآن واحد سچائی ہے جو انسانوں کو حقیقی خوشی فراہم
کرتا ہے"۔گرچہ نپولین اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہوسکا،اس کے باوجود آج بھی
دنیا حقیقی مسرت کے حصول میں سرکرداں ہے۔لیکن اسلام کے سوا کوئی ایک نظریہ
ایسا نہیں ہے جو انسان کو حقیقی خوشی و کامیابی فراہم کر سکے۔ یہی وجہ ہے
کہ ناکام و نامراد افرادو گروہ ،اور وہ طبقات و نظریات کے حاملین جو نہ صرف
خود بلکہ دنیا کو بھی نفسیاتی خوف میں مبتلا کرنے کے درپے ہیں، اپنی تمام
کوششوں کے باوجود نامراد ثابت ہو رہے ہیں۔
اور غالباًیہی وہ پس منظر بھی ہے جس میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں
توہین رسالت کے مرتکب فرانسیسی ہفت روزہ چارلی ہیبڈو(Charele Hebdo)کے صدر
دفتر میں تین نقاب پوش افراد اس وقت داخل ہو گئے جب جریدے کا مدیر
خاصStephae Charbonerاپنے عملے کے ساتھ اجلاس میں مصروف تھا۔اس نشست میں وہ
تین کارٹونسٹ(خاکہ نویس) بھی موجود تھے جنہوں نے توہین رسالت پر مبنی خاکے
بنائے تھے۔نامعلوم بندوق بردار افراد نے مدیر سمیت چاروں کو گولیوں سے
چھلنی کر دیا جبکہ ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار جو اس واردات میں
زخمی ہو گیا تھا حملہ آوروں کے ہاتھوں مارا گیا۔بعد میں ان افراد کو چند
گھنٹوں کی جستجو کے بعد مار گرایا گیا۔اس کے باوجود اس واقعہ پر مختلف
دانشواران نے نہ صرف سوالات کھڑے کیے ہیں بلکہ وجوہات بھی بیان کی ہیں۔لیکن
ایک اہم سوال جو ان جیسے تمام ہی واقعات میں یکساں ہے وہ مجرمین کو زندہ نہ
پکڑنا اور مارگرانا ہے،جس کے بعد نہ ان سے سوالات کیے جانے کی نوبت آتی ہے
اور نہ ہی کسی اور قسم کی تفصیلات سامنے آتی ہیں۔اس پورے واقع کے پس منظر
میں وجوہات جو بیان کی جا رہی ہیں ان میں پہلی وجہ یہ کہ یورپ میں مسلمانوں
کی سب سے بڑی آبادی فرانس میں ہے،لہذا اسلامی تہذیب کے فروغ سے لوگوں کو
خوفزدہ کیا جاناامکنات میں سے ایک ہے۔جس کا راست فائدہ ان طاقتوں کو پہنچے
گاجو اپنے ذاتی فوائد کے لیے عوام الناس کے افکار و خیالات ، تمدن و معاشرت
اورغیر اخلاقی و استحصال پر مبنی سیاست و معیشت پر گرفت بنائے رکھنا چاہتے
ہیں۔دوسری وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ گزشتہ دنوں فرانس کی پارلیمنٹ نے
فلسطینی ریاست تسلیم کی تھی۔تیسری وجہ یورپی یونین میں دہشت گردی کی جنگ کے
خلاف سب سے اونچی آواز فرانس کی ہے۔پیرس حملے سے اسلام مخالف جنگ کے خلاف
فرانس کی آواز دب سکتی ہے۔یورپ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی یورپی آبادی شدید
معاشرتی اور نظریاتی دباؤ کا شکار ہو سکتی ہے۔اس سب کے با وجود اسلامی
تہذیب اپنی علمی اور نظریاتی بالادستی قائم کیے ہوئے ہے اوراسلام اپنی واضح
تعلیمات کے نتیجہ میں پھل پھول رہا ہے۔جس کی زندہ مثال اسلام اور اس کے
آخری نبی محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں منفی پروپینگنڈہ کے حوالے سے
انتہائی نمایاں اور پیش پیش رہنے والے ڈچ سیاست داں اور ہالینڈ کی دائیں
بازو کی سیاسی جماعت گریٹ ولڈرزپارٹی کے ممتاز لیڈر ارنوڈوان ڈورن ،بدنام
زمانہ شاتم رسول ہے۔جس کا کہنا ہے کہ اسلام دشمنی کے بعدجب میرے خلاف دنیا
بھر میں مہم شروع ہوئی تو اس نے میری آنکھیں کھول دیں۔میں نے اسلام اور اس
کے نبی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں ہرممکن ذرائع سے معلومات حاصل
کیں۔علماء اور اسکالرز سے تبادلہ خیال بھی کیا۔قرآن کریم کی تعلیمات اور
احادیث رسول کا تجزیہ بھی کیا ۔لہذا مجھ پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ دانستہ
یا نا دانستہ طور پر جو بڑی غلطی بلکہ گناہ کبیرہ سرزد ہوا ہے،اس کے نتیجہ
میں میرا دل بار بار مجھے لعنت ملامت کرتا رہا۔آخر کار دل کی دنیا بدلی ،آنکھوں
پر عصبیت اور تنگ نظری کا پردہ ہٹا،حقیقت اور سچائی کی روشنی پہنچی،تو میں
نے اپنے گمراہ کن عقائد و نظریات سے تائب ہونے میں دیر نہیں کی اور اسلام
قبول کر لیا۔ڈورن کا کہنا ہے کہ ان کی سیاسی پارٹی اسلام دشمنی میں اتنی
زیادہ آگے نکل گئی تھی کہ انہوں نے از خود حقیقت کی تہہ میں جانے اور صداقت
تلاش کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور آخر کارگمراہی کا خاتمہ ہوگیا۔
آج آزادیٔ اظہارخیال کے تعلق سے ان ممالک سے زیادہ یہ کون جانتا ہے کہ
آزادی ٔ اظہار خیال کسی فرد یا ادارے کو کسی کی ہتک عزت، کردار کشی اور
رسوائی کی اجازت نہیں دیتا۔جسٹس ہولمیز(Justice Holmes)نے آزادیٔ اظہار
خیال کی حدود متعین کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ اگر کوئی شخص ایک بھرے تھیٹر
ہال میں اٹھ کر آگ آگ کا شور مچانے لگے تو یہ آزادیٔ تقریر نہیں ہوگی۔علاوہ
ازیں جرمنی میں نازی نظریے کی اشاعت ممنوع ہے بلکہ سابق مغربی جرمنی میں
کمیونسٹ نظریات کے حامل اساتذہ کو جامعات میں ملازمت نہیں دی جاتی تھی۔جنگ
عظیم میں لارڈ برٹرینڈ رسل کو کیمبرج یونیورسٹی سے اس لیے نکال دیا گیا تھا
کہ انہوں نے کہا تھا کہ یہ جنگ جمہوریت یا آزادی کو بچانے کے لیے نہیں بلکہ
ملک گیری کی ہوس کی تکمیل کے لیے لڑی جا رہی ہے،اس پر انہیں قید کر لیا گیا
تھا۔اسی طرح امریکہ میں اشتراکیت کی تبلیغ جرم تھی اور اب بھی ہے۔لیکن جہاں
ایک جانب متذکرہ جریدے نے 2009ء میں اسّی سالہ کارٹونسٹMaurice Sinetکو نہ
صرف اس لیے نوکری سے نکال دیا تھا کہ سامی مخالف (یہودی مخالف) کارٹون
بنایا تھا بلکہ کارٹونسٹ پر نسلی منافرت انگیزی کے الزامات لگاکر اسے عدالت
میں بھی گھسیٹا گیاتھا۔سوال یہ ہے کہ اُس وقت یورپ کا آزادیٔ اظہار کا حق
کس نے اور کیوں چھین لیا تھا؟برخلاف اس کے آج آزادیٔ اظہار کے نام پر یورپ
و امریکہ کے تمام ہی بڑے چھوٹے اخبارات اور ان کی ویب سائٹس پر گستاخانہ
خاکے جاری کیے جا رہے ہیں۔اہم ناموں میں بی بی سی،گارجین،یوایس اے ٹوڈے،ایل
اے ٹائمز،وال اسٹریٹ جرنل،واشنگٹن پوسٹ،ڈیلی بیسٹ،ہفنگٹن پوسٹ،سی بی ایس
نیوز وغیرہ شامل ہیں۔اور جو اخبارات اب تک اس مہم میں شامل نہیں ہوئے ہیں
وہ بھی جلد شامل ہو سکتے ہیں۔بڑا سوال یہ ہے کہ وحشت میں مبتلا نفرت کے
پرستاروں کو حقیقی امن اور حقیقی خوشی کون فراہم کرے گا! |