والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کا
مین دفتر واقعی قابل دید ہے ۔ وائٹ ہاوس کی طرز پر بنا ہوا یہ دفتر وسیع و
عریض اور خوشنما سفید رنگ کے دو محلات مشتمل ہے۔یہ دفتر آر اے بازار اور
نشاط کالونی کے درمیان پھولوں سے لدی ہوئی نرسریوں کے عین وسط میں واقع ہے۔
ماحول کو خوبصورت بنانے والے پھولوں کی خوشبو انسان کو کچھ لمحوں کے لیے
کچھ اس طرح مدہوش کردیتی ہے کہ انسان خود کو کسی پرستان میں محسوس کرتا ہے
۔والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کی کارکردگی کیولری گراؤنڈ اور اس سے ملحقہ علاقوں
میں تو بہت اچھائی دکھائی دیتی ہے لیکن والٹن روڈ اور اس کے مشرق میں واقع
قادری کالونی نمبر 1ٗ قادری کالونی نمبر 2 ٗ پیر کالونی ٗ فاروق کالونی ٗ
النور ٹاؤن کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان آبادیوں کا کوئی والی وارث
نہیں ہے۔کیونکہ تمام چھوٹی بڑی سڑکیں اور گلیاں کوڑے اور ملبے کا ڈھیر
دکھائی دیتی ہیں جو شخص مکان تعمیر کرتا ہے وہ چھ چھ مہینے ملبہ اٹھانا اور
گلی کو درست کرنا گناہ تصور کرتا ہے-
مسجد کی قریبی گلی میں ایک مرا ہوا کتا پانچ دن تک پڑا رہا بورڈ کے کسی
اہلکارنے اٹھانے کی زحمت نہیں کی ۔ جس سے تعفن پھیلنا فطری امرتھا ۔ بورڈ
کے عملے کی چشم پوشی کی وجہ سے جگہ جگہ اندھے سپیڈ بریکر منہ چڑاتے ہوئے
دکھائی دیتے ہیں۔ بیشمار گھروں میں کوڑا اٹھانے والی خواتین کو ایک سو روپے
ماہانہ ادائیگی بھی کی جاتی ہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو رات کے
اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے مین سڑک یا گلیوں میں کوڑا پھینک کر چلتے بنتے ہیں
۔جبکہ چھوٹی بڑی سڑکوں کے اردگرد بنی ہوئی دکانوں ( بازار) کا عالم یہ ہے
کہ شاید ہی کوئی دکاندار ایسا ہو جو اپنے سامنے کی آدھی سڑک پر قابض نہ
ہو۔بورڈ کا ٹرک آتا ہے تو لوگ ادھر ادھرہو جاتے ٹرک کے غیب ہوتے ہی پھر
قابض ہوجاتے ہیں۔جبکہ ریڑھیوں پر پرانے کپڑے ٗ جرسیاں اور مونگ پھلی فروخت
کرنے والے پٹھانوں سے بھی کوئی سڑک محفوظ نہیں ہے ۔جس کی وجہ سے بطور خاص
بازار میں ٹریفک جام ہی دکھائی دیتی ہے ۔اگر والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کا عملہ
تھوڑ ی سی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے تو
کوئی وجہ نہیں کہ یہ آبادیاں بھی انسانوں کے رہنے کے قابل نہ بن جائیں۔اگر
مین اور چھوٹی بڑی سڑکوں پر کچھ فاصلے پر کوڑے کے ڈرم یا باسکٹ یا کینٹینر
رکھوا دیئے جائیں تو کوڑا گلیوں اور سڑکوں پر پھینکنے کی بجائے لوگ ان میں
ڈال سکتے ہیں اسی طرح اگر گھروں کے باہر کوڑے کی باسکٹ نصب کروا کر سیاہ
رنگ کے بڑے شاپر فراہم کردیئے جائیں تو جو 100 روپے کوڑا اٹھانے والی کو جو
دیئے جاتے ہیں وہی پیسے بورڈ کے خزانے میں جاسکتے ہیں۔بطور خاص مساجد کے
ارد گرد نہ صرف معقول روشنی کا انتظام ہونا چاہیئے بلکہ دن میں دو بار
صفائی کا اہتمام بھی کیا جائے ۔ بورڈ اگرہر مسجد میں چھوٹی سی لائبریری
قائم کردے جہاں اخبارات اور اصلاحی موضوعات پرکتابیں بھی رکھوادی جائیں تو
نوجوان نسل کو بربادی سے کسی حد تک بچایا جاسکتا ہے۔پہلے سے بنے ہوئے تمام
سپیڈ بریکر کو بورڈ یکسر ختم کرکے جہاں اس کی ضرورت محسوس ہو خود معیار کے
مطابق ایسا سپیڈ بریکر بنائے جس کی اونچائی اور چوڑائی نارمل ہو اس پر رات
کو دکھائی دینے والا رنگ اور روشنی کا اہتمام بھی ہو۔میں سمجھتاہوں کہ
والٹن بورڈ کے ایریامیں کسی بھی نجی شخص کو سپیڈ بریکر بنانے کی ہرگز اجازت
نہیں ہونی چاہیئے ۔جن غیر ذمہ دار لوگوں نے تعمیر مکان کی آڑ میں گلی اور
سڑک پر ملبے کے ڈھیر لگائے ہوئے ہیں ان کا چالان کرکے ملبہ فوری طور پر
اٹھایا جائے ۔ان آبادیوں میں کباڑ خانے غلاظت کے گھر بنے ہوئے ہیں پھر
اونچا مکان بنانے والے تین سے پانچ فٹ تک گلی پر قابض ہوجاتے ہیں بورڈ ایک
معیار مقر ر کرے اضافی جگہ قابضین سے خالی کروائی جائے ۔جو خالی پلاٹ کوڑے
سے بھرے پڑے ہیں مالکان کو نوٹس جاری کرکے وہاں چونے بچھانے کے ساتھ ساتھ
جراثیم کش ادویات کا سپرے بھی کیاجائے تاکہ تعفن زدہ ماحول کو خوشگوار
بنایاجاسکے ۔آوارہ کتوں کا خاتمہ بھی چیلنج سے کم نہیں ہے بطور خاص قادری
کالونی نمبر 1 اور قادری کالونی نمبر 2 (جو کوڑے پنڈ) کے رقبے پر مشتمل ہے
یہاں مکانوں کے نمبر اس قدر بے ترتیب ہیں کہ ایک ہی نمبر کے کئی کئی مکانات
دیکھنے کو ملتے ہیں ڈاکیے اور کوریئر کو متعلقہ ایڈریس تلاش کرنا محال
ہوجاتا ہے اس لیے اگر بورڈ کا عملہ خود سڑکوں اور گلیوں کے ناموں کی تختیاں
لگا کران پر ترجمے سمیت حدیث مبارکہ لکھ کر اس گلی میں گھروں کی تفصیل لکھ
دے تو اس سے نہ خوبصورتی اور آسانی پیدا ہوگی بلکہ والٹن بورڈ کی نیک نامی
میں بھی اضافہ ہوگا۔تجاوزات کا میری نظر میں ایک ہی حل ہے ٹرک کی بجائے ایک
دیانت دار انسپکٹر موٹرسائیکل پر ان چار پانچ آبادیوں کی مین سڑکوں کا
روزانہ چکر لگا ئے اور تجاوزات کرنے والے دکانداروں کو نقصان پہنچائے بغیر
ان کے چالان کرے بار بار جرمانہ ہونے سے تجاوزات بھی ختم ہوجائے گی اور
بورڈ کی آمدنی میں اضافہ بھی ہوجائے گا۔خالی پلاٹوں یا جگہوں پر خوانچہ
فروشوں اور پرانے کپڑے فروخت کرنے والوں کو ریڑھیاں لگانے کی اجازت اور
انتظام بھی کیاجائے تاکہ بازار میں رش ختم اور غریب خوانچہ فروشوں کے
روزگار کا تحفظ بھی ہوجائے۔گلیوں اور سڑکوں پر سیوریج کے گندے پانی کی روک
تھام کے لیے بورڈ ایک ہیلپ لائن ٹیلیفون نمبرمثلا 166 یا 177بنا کر گلیوں
کے باہر نصب بورڈوں پر لکھوا دے جہاں گٹر کا ڈھکن ٹوٹا ہو ٗ سیوریج بند ہو
ٗ سڑک خراب ہوٗ کوڑا بکھرا ہوا ہو ٗ کوئی جانور مرا پڑا ہو ٗ کوئی بھی شخص
ہیلپ لائن پر فون کرکے مسئلے کو فوری حل کروالے ۔اکیڈمی روڈ پر ریلوے کا
پھاٹک بھی والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے ایریا میں آتا ہے جہاں ہر گاڑی گزرنے کے
پندرہ منٹ بعد تک ٹریفک جام رہتی ہے پھاٹک کو ڈبل کروانے کے لیے بورڈ ریلوے
حکام سے رجوع کرنا چاہیئے پھر والٹن مین روڈ کے ارد گرد گرین بیلٹ تو موجود
ہیں لیکن ان میں کہیں بھی پھول پودے دکھائی نہیں دیتے وہاں پھول پودے لگانے
ٗ واکنگ ٹریک ٗ فوارے بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔ نالے کو اگرڈھانپ دیا جائے
تو ماحول کو خوشگوار بنانے میں آسانی رہے گی اور والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کی
کارکردگی ٗآمدنی اور نیک نامی میں حد درجہ اضافہ ہو جائے گا۔
|